سندھ پولیس کی نئی وردی، جیبوں کی تعداد بڑھادیں

محمد عثمان جامعی  اتوار 7 اپريل 2019
کلیم امام صاحب نے سندھ پولیس کے پُرانے یونیفارم سے بے زاری کا اظہار کرکے اپنے نام ’’امام‘‘ کی لاج رکھ لی ہے۔ فوٹو: فائل

کلیم امام صاحب نے سندھ پولیس کے پُرانے یونیفارم سے بے زاری کا اظہار کرکے اپنے نام ’’امام‘‘ کی لاج رکھ لی ہے۔ فوٹو: فائل

سندھ پولیس کے سربراہ ڈاکٹر کلیم امام کی تجویز پر حکومت سندھ نے پولیس کی نئی وردی متعارف کرانے کی منظوری دے دی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضروموجود سے بے زار کرے

کلیم امام صاحب نے سندھ پولیس کے پُرانے یونیفارم سے بے زاری کا اظہار کرکے اپنے نام ’’امام‘‘ کی لاج رکھ لی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، لیکن علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’امامت‘‘ میں امامِ برحق کے جو دیگر فرائض وافعال بتائے ہیں اگر کلیم صاحب نے ان سب پر عمل شروع کردیا تو خدشہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو ’’خواجگی‘‘ برداشت نہ کرنے والے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ یا پنجاب پولیس کی اصلاح کے لیے لائے جانے والے ناصردُرانی کے ساتھ کیا گیا۔ خواجہ صاحب کے ساتھ جو ہوا وہ سمجھ میں آتا ہے، مگر ناصر دُرانی تو اپنے ’’حامیوں وناصروں‘‘ کے ہاتھوں ان کے دوران اقتدار ستائے گئے۔

بہ ہر حال، ہم بات کر رہے تھے علامہ اقبال کی بیان کردہ امامِ برحق کی نشانیوں پر، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ’’زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے‘‘۔۔۔اب یہ آئی جی صاحب پر ہے کہ وہ حکم رانوں کی زندگی دشوار کرتے ہیں، پولیس اہل کاروں کی یا عوام کی، آخرالذکر کی زندگی پہلے ہی اتنی دشوار ہے کہ انھیں کوئی محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ اقبال کے ’’امام‘‘ کا ایک فریضہ یہ ہے کہ ’’فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے‘‘، اب جن پولیس والوں کو زر کی سان اور سر پر چڑھا کر ’’راؤانوار‘‘ کردیا جائے انھیں فقر کی طرف لاکر تلوار کرنا کس کے بس کی بات ہے؟ ہاں، انھیں ’’کسی‘‘ کا تیر ضرور کیا جاسکتا ہے۔

علامہ اُس امام کی امامت کو فتنہ قرار دیتے ہیں ’’جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے۔‘‘ لیکن آئی جی کی مجبوری ہے کہ وہ کسی کو سلاطین کا پرستار کرے یا نہ کرے اُسے پولیس والوں کو ’’سلاطین‘‘ کی وی وی آئی پی موومنٹ کے لیے اور ان کے نجی گارڈ کے طور پر بروئے کار لانا پڑتا ہے۔

ہم ہرگز اصرار نہیں کریں گے کہ کلیم امام صاحب بے زار ہونے کی طرح علامہ اقبال کی عاید کردہ تمام شرائط پوری کریں۔ اور بے زاری بھی یونیفارم تک ٹھیک ہے، اگر وہ حاضروموجود سے بے زار ہوگئے تو آج انھیں آئی جی کہا جاتا ہے، کل ان سے بے زار ہوکر انھیں ’’جائیے جی‘‘ کہہ دیا جائے گا۔

اب جہاں تک تعلق ہے پولیس کی وردی کا تو اس کے نئے رنگوں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم شہری کالی قمیص اور خاکی پینٹ والی وردی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ رنگ بدل لینے والی پولیس کو کافی دنوں تک پہچاننے میں دشواری ہوگی۔ ملزمان بھی پکڑے جانے پر حیرت سے پوچھیں گے ’’تو وہی ہے یا کوئی اور ہے؟‘‘

جن پولیس اہل کاروں کے لیے یونیفارم سفید قمیص اور نیلی پینٹ مقرر کی گئی ہے، ان کی بیویوں کا کام بڑھ جائے گا، اب انھیں شوہر کی قمیص کی ’’بھی‘‘ دُھلائی روز کرنی پڑے گی۔ ویسے دل کی بات کہیں تو کالی پیلی وردی کا اپنا ہی ایک رعب ہے، رومانی نیلے اور امن کی علامت سفید رنگ میں وہ بات کہاں، لیکن خیر اس وردی میں داخل ہوتے ہی ہمارے پولیس والے ان رنگوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیں گے۔ پھر نیلا رنگ دیکھتے ہی شریف شہریوں کے چہروں پر موت کی نیلاہٹ آجایا کرے گی اور سفید رنگ دیکھ کر ہر شخص جان کی امان چاہے گا۔

ہماری بس ایک تجویز ہے۔ پولیس کی وردی جو بھی ہو اس میں پندرہ بیس جیبوں کا اضافہ کردیا جائے، یوں شہریوں کا وہ وقت بچے کا جو پولیس والوں کی بھری ہوئی جیب میں گنجائش بنانے کی کوششوں کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔