اردو یونیورسٹی میں بدانتظامی ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام میں رکاوٹ

نشستوں کی دستیابی اور پی ایچ ڈی اساتذہ کے تعین کے بغیر داخلہ پالیسی کااعلان دردسربن گیا۔


Safdar Rizvi April 05, 2019
ہم سے غلطی ہوئی، وائس چانسلر، معاملہ اپریل میں حل کر کے داخلے دیدیے جائیں گے، رجسٹرار۔ فوٹو: فائل

وفاقی اردو یونیورسٹی کے عمررسیدہ وائس چانسلرکی نااہلی اور بدانتظامی ایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام میں رکاوٹ بن گئی۔

اردو یونیورسٹی کے متعلقہ شعبوں میں طلبا کی نشستوں کی دستیابی اور پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد کے تعین کے بغیرداخلہ پالیسی کااعلان خود یونیورسٹی کے لیے دردسربن گیاہے، طلبا کے داخلہ ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود پہلے تو یونیورسٹی نے ایم فل؍پی ایچ ڈی میں داخلوں کاعمل روک دیا جس کے بعد یونیورسٹی کو اس امر کا انکشاف ہوا ہے کہ ایچ ای سی کے قواعد کے مطابق فیکلٹی آف آرٹس کے کسی بھی شعبے میں ایم فل؍پی ایچ ڈی میں داخلے نہیں دیے جاسکتے۔

فیکلٹی آف سائنس کے محض 4 شعبوں میں داخلے ہوسکتے ہیں اورطلبا کے7قیمتی ماہ ضائع کرنے اور داخلہ ٹیسٹ لینے کے بعد اب یونیورسٹی انتظامیہ نے ایچ ای سی کے قواعد کے تحت اپنے تمام شعبہ جات میں ایم فل؍پی ایچ ڈی کی دستیاب نشستوں کی اسکروٹنی کا عمل شروع کردیاہے جس سے امکان ہے کہ رواں تعلیمی سیشن 2019کے پہلے سیمسٹرمیں جامعہ اردوکا ایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام شروع نہیں ہوسکے گا۔

واضح رہے کہ یونیورسٹی طلبا سے داخلہ فارم کی مد میں لاکھوں روپے وصول کرچکی ہے ایم فل کا داخلہ فارم 2ہزارروپے جبکہ پی ایچ ڈی کاداخلہ فارم2500روپے میں فروخت کیاگیاتھا۔

بتایاجارہاہے کہ وفاقی اردویونیورسٹی کی انتظامیہ نے ستمبر2018میں ایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلوں کے لیے اشتہار جاری کیا اوریونیورسٹی کے تقریباًتمام ہی شعبوں میں ایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلوں کااعلان کیاگیا اس اعلان کے بعد یونیورسٹی کو750سے زائد طلبا کی درخواستیں موصول ہوئیں جن کاشعبہ جات کی سطح پر داخلہ ٹیسٹ لیاگیا۔

اس داخلہ ٹیسٹ میں کراچی کے دونوں کیمپس سے169جبکہ اسلام آبادکیمپس سے 79طلبا نے کامیابی حاصل کی جنھیں ایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلے دیے جانے تھے ابھی یہ سلسلہ جاری تھاکہ یونیورسٹی کو 3 دسمبر 2018 کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کوالٹی ایشورنس ڈویژن کی جانب سے ایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام کے قواعدوضوابط کے حوالے سے ایک خط موصول ہوا جس میں یونیورسٹی پردیگرقواعد کے ساتھ یہ بھی واضح کیاگیاکہ ایک پی ایچ ڈی ٹیچربیک وقت 12 سے زائد طلبا کوایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام میں انرول نہیں کر سکتا جس میں7ایم فل اور5پی ایچ ڈی طلبا ہونگے یہ سپروائزر ایچ ای سی کی جانب سے منظورشدہ ہوناچاہیے۔

ایچ ای سی کے جاری خط میں واضح کیاگیاہے کہ اگر قواعد کی خلاف ورزی کی گئی تو یونیورسٹی کویہ داخلے منسوخ کرنا پڑیں گے یونیورسٹی اس امرکی پابندہوگی کہ وہ داخلے کے سلسلے میں طالب علم سے لی گئی رقم سے3 گنا رقم واپس کرے جبکہ ذمے دارعملے کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے گی۔

مزیدبراں ان تجاویز پرعملدرآمد نہ ہواتو ڈگری ویریفکیشن کے وقت متعلقہ طالب علم کو زحمت اٹھانی پڑے گی۔ اس خط کے موصول ہونے کے بعد یونیورسٹی نے ٹیسٹ پاس کرنے والے طلبا کوایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلے سے روک دیااورشعبوں میں کلاسز شروع نہیں کرائی گئیں بلکہ سابق ڈین سائنس روبینہ مشتاق، ڈین آرٹس ڈاکٹرضیا، شعبہ کیمسٹری کے پروفیسرساجد جہانگیر اوراسلام آباد کیمپس سے نوید قائم خانی پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔

اس کمیٹی کے اجلاسوں میں ڈین آرٹس ڈاکٹرضیا شریک نہیں ہوئے جس کے سبب کمیٹی نے یونیورسٹی کے متعلقہ ادارے ''جی آرایم سی ''(گریجویٹ ریسرچ اینڈ منیجمنٹ کونسل)سے موصولہ ڈیٹاکی بنیادپرفیصلہ کیاکہ ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے کسی بھی شعبے میں داخلے نہیں دیے جاسکتے کیونکہ اسی فیکلٹی کے تمام شعبوں میں اساتذہ پہلے ہی ایچ ای سی کی مقررہ حد سے زائد طلبا کوایم فل؍پی ایچ ڈی کرارہے ہیں جبکہ سائنس فیکلٹی کے محض 4 شعبوں کا انتخاب کیاگیا، کمیٹی کااب تک ایک ہی اجلاس ہوپایاہے۔

اس اجلاس میں کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پہلے تمام شعبوں سے ایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام کے فعال اورغیرفعال طلبا کاڈیٹاحاصل کیاجائے جس کے بعد اس نتیجے پر پہنچا جاسکتاہے کہ ان شعبوں میں کتنے پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں اوران کے ماتحت کتنے فعال طلبا ہیں جوایم فل؍پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان اعدادوشمارکی بنیادپرہی یونیورسٹی میں دستیاب نشستیں سامنے آئیں گی اورداخلے دیے جاسکیں گے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کودستیاب موجودہ اعدادوشمار کے مطابق کراچی کیمپس میں1022طلبا ایم فل؍پی ایچ ڈی پروگرام میں انرولڈ ہیں جس میں سے 565طلبا اپنی ریسرچ میں فعال نہیں ہیں اورریسرچ کے لیے مقررہ مدت سے زائدکاعرصہ گزارچکے ہیں اسی طرح اسلام آباد سے620طلبا انرولڈ ہیں جس میں سے143طلبا ریسرچ میں فعال نہیں ہیں۔

''ایکسپریس''نے وفاقی اردو یونیورسٹی کی جانب سے اکیڈمک کونسل کی منظوری اورکسی منظم پالیسی کے بغیرداخلے شروع کرنے اورازاں بعد اس میں غیرمعمولی تاخیرپرجب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف حسین کے دفترجاکران سے رابطہ کیاتوان کاکہناتھاکہ یہ غلطی ہم سے ضرور ہوئی ہے وہ اسے اساتذہ کے سامنے تسلیم بھی کرچکے ہیں۔ قائم مقام رجسٹرارڈاکٹرمحمد صارم کا کہنا تھاکہ زیادہ سے زیادہ یہ معاملہ اپریل میں حل کرکے داخلے دے دیے جائیں گے۔

یونیورسٹی کے پاس اس وقت 100 کے قریب پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں تاہم سب کے سب پی ایچ ڈی نہیں کراسکتے کیونکہ ایچ ای سی نے فریش پی ایچ ڈی ٹیچرپرایم فل؍پی ایچ ڈی کرانے پربھی پابندی عائد کررکھی ہے فی الحال ہم ہوم ورک کررہے ہیں جلد نتیجہ سامنے آجائے گا۔

دریں اثنا وفاقی اردویونیورسٹی آرٹس کیمپس کی انجمن اساتذہ کے جنرل سیکریٹری پروفیسرعرفان عزیزنے گزشتہ سال ستمبر میں اشتہاردینے اورٹیسٹ کے انعقادکے باوجود تاحال داخلوں کاعمل مکمل نہ ہونے تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ آرٹس کیمپس (عبدالحق)کے اساتذہ وائس چانسلرکے سامنے اس معاملے پراپنااحتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں اوروائس چانسلر سے کہاہے کہ آرٹس کیمپس کیساتھ یونیورسٹی انتظامیہ امتیازی سلوک کررہی ہے اس رویے اورداخلوں میں غیرمعمولی تاخیرکے سبب یہاںسوشل سائنسز کاریسرچ پروگرام بند ہوگیاہے اورطلبا کاایک سال یقینی طورپرضائع ہورہاہے۔

عرفان عزیزنے بتایاکہ وائس چانسلرڈاکٹرالطاف حسین نے کہا تھا کہ اساتذہ کایہ مطالبہ درست ہے سابق ڈائریکٹر ایڈمیشن کمیٹی کی غلطی کے سبب داخلوں میں تاخیر ہوئی ہے۔ عرفان عزیزکے مطابق وائس چانسلرنے یہ بھی کہاتھاکہ میں بھی بروقت اس معاملے کودیکھ نہیں سکا۔

مقبول خبریں