اسلاموفوبیا، پاکستان اور اقوام متحدہ

شکیل فاروقی  منگل 16 اپريل 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

شہیدوں کا لہوکبھی رائیگاں نہیں جاتا ، یہ ضرور رنگ لاکر رہتا ہے ۔ بالآخر باطل کا سر نیچا ہوتا ہے اور حق کو فتح حاصل ہوتی ہے۔

گزشتہ 2 اپریل بروز منگل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مکمل اتفاق رائے سے وہ تاریخی قرارداد منظورکرلی جس کے ذریعے مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو تشدد اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اس قرارداد کو پیش کرنے والوں میں پاکستان پیش پیش تھا۔ نیوزی لینڈ کا حالیہ سانحہ اس قرارداد کا بنیادی متحرک ثابت ہوا۔ اس اعتبار سے اس انتہائی سنگین سانحے کو اگر Blessing in Disguise یعنی خیر مستور کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔

ناسپاسی ہوگی اگر نیوزی لینڈ کی دھان پان سی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو تہہ دل سے خراج تحسین پیش نہ کیا جائے کہ جنھوں نے اس سانحے سے نمٹنے میں مردانہ وار ہمت و جرأت کا مظاہرہ کیا۔ اس موقعے پر نیوزی لینڈ کی پوری قوم اپنی بہادر وزیر اعظم کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔

نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے دوسری جنگ عظیم کے 90 سالہ ہیرو جون ساٹو (Jhon Sato) کا کہنا ہے کہ کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد ان کی رات کی نیند اڑ گئی ہے۔ جب انھیں ملک بھر میں اس واقع کے خلاف نکالے جانے والے جلوسوں کا علم ہوا تو انھوں نے نسلی امتیاز کے خلاف 4 بسوں کا اہتمام کرکے شرکت کی ۔ یاد رہے کہ اس سانحے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے نیوزی لینڈ میں جس خصوصی دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں تقریباً 20,000 لوگ شریک ہوئے تھے۔

انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے “Actions Speek Louder Than Words” کرائسٹ چرچ کے سانحے کے حوالے سے نیوزی لینڈ کی حکومت نے اس کہاوت پر حرف بہ حرف عمل کرکے اس کی صداقت پر مہر ثبوت ثبت کردی ہے۔ گزشتہ 2 اپریل کو نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں ایک نیا قانون بھاری اکثریت سے منظورکرلیا گیا جس کا مقصد بندوقوں سے متعلق قوانین کو سخت سے سخت تر کرنا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت ملٹری اسٹائل سیمی آٹو میٹک (MSSA) رائفلز پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔

یاد رہے کہ یہ وہی رائفل ہے جسے 15 مارچ کے دہشت گردی کے واقع میں استعمال کیا گیا تھا ۔ اس نئے قانون کی حمایت میں 119 ووٹ پڑے جب کہ اس کی مخالفت میں صرف 1 ووٹ پڑا جو برائے نام ہے۔ نیوزی لینڈ کے محکمہ پولیس کے وزیر اسٹوارٹ نیش (Stuart Nash)نے کہا ہے کہ دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ (Brenton Tarrant) نے مذکورہ رائفل استعمال کرکے یہ ظاہر کردیا ہے کہ نیوزی لینڈ میں ہتھیاروں پر عائد کی گئی پابندیاں ناکافی تھیں جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ۔

ڈیوڈ سِی مور (David Seymore) وہ واحد ممبر پارلیمان تھا جس نے نئے قانون کے خلاف ووٹ دیا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں اس کی پارٹی (ACT) کو صرف ایک نشست حاصل ہے۔ نیوزی لینڈ کی حکومت نے کرائسٹ چرچ کے واقع کا انتہائی سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ چنانچہ وہ اس نئے قانون کی منظوری کے بعد مطمئن ہوکر نہیں بیٹھے گی بلکہ اس سلسلے میں مزید اقدامات کرے گی۔ گویا یہ نیا قانون محض نکتہ آغاز ہے۔ نیوزی لینڈ کی حکومت ہتھیاروں کے معاملے میں مزید اقدامات کرنے کی خواہاں ہے جس میں گن رجسٹر رکھنے کا اہتمام اور ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی کے قوانین میں مزید سختی لانا شامل ہے۔

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ نیوزی لینڈ میں 1.5 ملین نجی ہتھیار ہیں جن میں تقریباً MSSA 13,500 بندوقیں بھی شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ نفرت آمیز تقریروں سے متعلق قوانین پر بھی جلد از جلد نظرثانی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن جن کی قائدانہ صلاحیت کی اسلاموفوبیا حملے کے حوالے سے دنیا بھر میں تعریف کی جا رہی ہے ، انھوں نے سوشل میڈیا سے بھی اسلاموفوبیا کے خلاف اپنا بھرپورکردار ادا کرنے کی پرزور اپیل کی ہے۔

کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت انتہائی برق رفتاری سے تمام ممکنہ اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔ چنانچہ ایسے بہت سے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے جن کے بارے میں یہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ وہ منافرتی مواد کی اشاعت میں ملوث ہیں یا جن کے پاس غیرقانونی ہتھیار موجود ہیں ۔ ایسے لوگوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جا رہا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر لوگوں کو دھمکیاں دینے میں ملوث ہیں۔

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے کی وجہ ’’ اسلاموفوبیا ‘‘ ہی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس درندہ صفت دہشت گرد کو جس نے سفاکی کی تمام حدیں عبور کرلیں، مغربی دنیا اسے ’’اسلاموفوبک‘‘ یعنی اسلام سے ڈرا ہوا شخص قرار دے کر اس کے جرم کو چھپانے کے لیے کوشاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ڈرا ہوا شخص ایسی گھناؤنی دہشت گردانہ کارروائی کرنے کی ہمت کرسکتا ہے؟ اس کا سیدھا سادہ اور منتقی جواب قطعی طور پر نفی میں ہے۔

دراصل مغربی دنیا ایسے جنونی شدت پسندوں کی پشت پناہی کرکے انھیں آزاد چھوڑنا چاہتی ہے۔ درحقیقت مغرب کے شدت پسند سیاستدان اور مغربی میڈیا اس گھناؤنی سازش میں برابر کے شریک ہیں اور یہ دونوں دن رات اسلام مخالف جذبات ابھارنے اور بھڑکانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے سانحہ نیوزی لینڈ کے حوالے سے اپنی ٹوئیٹ میں بالکل درست لکھا ہے کہ یہ حملہ نسل پرستی اور اسلام مخالف جذبات بھڑکانے کی تازہ مثال ہے۔

ابھی کرائسٹ چرچ کے المناک واقع کی خبر کی روشنائی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ اس کے اگلے ہی روز جب پوری دنیا پر سکتہ طاری تھا، لندن کی ایک مسجد کے باہر نسل پرستوں کی ایک ٹولی مسجد سے نکلنے والے نمازیوں پر ہتھوڑوں سے حملہ آور ہوگئی۔ خوش قسمتی سے انتہا پسندوں کی اس ٹولی کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا ورنہ انسانیت کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد ایک اور سنگین المیے سے دوچار ہوجاتی۔ نیوزی لینڈ کے دہشت گردی کے حالیہ واقع میں ملوث دہشت گرد کے قبضے سے جو منشور برآمد ہوا ہے۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ کوئی نفسیاتی مریض نہیں بلکہ ایک اسلام مخالف نظریے کا حامی ہے جس کے ڈانڈے صلیبی جنگوں سے جاکر ملتے ہیں۔ اس صلیبی دہشت گرد نے اپنی بندوقوں پر جو نام لکھے ہوئے تھے انھیں مسلم قاتل شمار کیا گیا تھا۔

قرآن پاک نے یہود اور مشرکین کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ نصاریٰ بھی مسلمانوں کے دشمنوں میں شامل ہیں۔ اﷲ رب العزت نے اپنی اس کتاب میں یہ پیشگوئی بھی فرمائی ہے کہ بالآخر یہود و نصاریٰ بھی ایک دوسرے کے دوست بن جائیں گے اور دونوں مسلمانوں کے دشمن ہوں گے۔ آج یہ پیشگوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے۔ مشرکین ہند اور اسرائیل کے یہودی مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے در پے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ان دونوں کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آچکا ہے۔ بھارت کے مشرکوں کو پاکستان اس لیے قبول نہیں کیونکہ اس کے وجود میں آنے سے ان کے اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے۔ اسرائیل کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ نہ صرف ایک اسلامی ملک ہے بلکہ واحد مسلم ایٹمی قوت ہے اور عظیم تر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی ممکنہ رکاوٹ ہے۔ چنانچہ مشرکین ہند اور یہودی اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔

یہود و ہنود کی اس گھناؤنی سازش میں امریکا اور یورپ کے نصاریٰ برابرکے معاون اور مددگار ہیں، لیکن انشا اللہ ان کے مکروہ و ناپاک عزائم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ یہ مملکت خداداد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے معرض وجود میں آئی اور اس کا محافظ بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے:

نورِ حق‘ شمعِ الٰہی کو بجھا سکتا ہے کون

جس کا حامی ہو خدا اُس کو مٹا سکتا ہے کون

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔