’’میلہ دو دن کا‘‘ یہاں بیٹھ کسے نہیں رہنا

چوہدری فرہاد علی اختر  اتوار 21 اپريل 2019
امریکا کے شہر ہینفرڈ میں ہونے والے سالانہ دوروزہ میلے کا دل چسپ احوال۔ فوٹو: فائل

امریکا کے شہر ہینفرڈ میں ہونے والے سالانہ دوروزہ میلے کا دل چسپ احوال۔ فوٹو: فائل

دنیا کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ دو دن کا میلہ ہے، یہاں ہمیشہ کسی کو نہیں رہنا۔ اس میلے کو اسی طرح چھوڑ کے چلے جانا ہے لیکن جس دو دن کے میلے کا احوال میں آپ کو بتانے چلا ہوں وہ اتنا خوب صورت اور دل چسپ تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اب اگلے سال کا میلہ بھی ضرور دیکھوں۔

یہ میلہ ہر سال یکم اور دو اپریل کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کی کنگز کائونٹی کے شہر ہینفرڈ میں لگتا ہے اور یہ 1979ء سے بلا ناغہ ہر سال منعقد ہورہا ہے۔ اس میلے کا نام RENAISSANCE OF KINGS FAIRE ہے۔

میں جب میلے میں پہنچا تو لوگوں کا ہجوم دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد و زن سبھی خوشی سے دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ میلہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ میں نے ایسی خواتین کو بھی دیکھا جو چند دن کے نوزائیدہ بچے کو گلے سے لٹکائے خوش خوش میلے کو انجوائے کررہی تھیں۔ میں نے ایک نوجوان خاتون سے پوچھا کہ اتنے چھوٹے بچے کو ساتھ لے کر میلہ دیکھنا مشکل کام نہیں؟ وہ ہنسی اور بولی پھر دوسرے میلے کے لیے ایک سال انتظار کرنا پڑتا۔

ایک بڑی اماں جی وہیل چیئر پر میلہ دیکھنے آئی تھی ان کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ جو محترمہ وہیل چیئر دھکیل رہی تھیں وہ ان کی بیٹی تھیں جو اپنی ماں سے بھی زیادہ بوڑھی دکھائی دے رہیں تھیں۔ بیٹی نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ بیمار رہنے کی وجہ سے میں ماں سے بھی بوڑھی دکھائی دیتی ہوں اور یہ کہ میری والدہ معذور ہیں چل نہیں سکتیں، اور میں اپنی والدہ سے 27 سال چھوٹی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میلہ دوبارہ ایک سال کے بعد لگے گا، اس لیے میری والدہ اور میں یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی تھیں۔

آپ نے اب اچھی طرح اندازہ کرلیا ہوگا کہ میلہ کتنا دل چسپ تھا۔ میلے میں کئی دل چسپ تفریحی پروگرام شامل تھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر تھا۔ مجھے سب سے زیادہ انگلینڈ کے بادشاہ کا کھیل پسند آیا۔ یہ غالباً 16ویں صدی کا زمانہ تھا۔ انگلینڈ کا بادشاہ ہنری ہشتم فرانس کے ساتھ جنگ میں مصروف تھا۔ اسٹیج پر ملکہ عالیہ اور دوسرے درباری وہی پرانے 16ویں صدی والے شاہی لباس میں کھڑے تھے۔ محافظ سپاہی تلواریں اور نیزے لیے چوکس کھڑے تھے۔ ملکہ عالیہ اپنے اعلیٰ عہدے دار سے بڑے وقار کے ساتھ بات کررہی تھیں ۔ اچانک وردی میں ملبوس ایک فوجی نے دربار میں بادشاہ کی آمد کی اطلاع دی، جس کے بعد کنگ ہنری ہشتم اپنے شاہی لباس میں تلواریں اور نیزے بردار محافظوں کے جلوے میں تشریف لائے۔ بادشاہ فتح یاب ہوکر واپس لوٹا تھا۔

بادشاہ کی شخصیت بہت رعب دار اور باوقار تھی۔ پھر بادشاہ کا ملکہ عالیہ اور اپنے کمانڈر سے مکالمہ ہوا۔ تماشائی زور زور سے بادشاہ کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ بادشاہ کے تمام درباری مرد و خواتین بھی بادشاہ کے لیے تحسین و آفرین کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ ایک متاثر کن کھیل تھا جسے اس کے تمام اداکاروں نے بڑی خوبی سے نبھایا۔ خاص طور پر پرانے یورپی لباس نے اس خوب صورت کھیل میں حقیقت کا رنگ بھردیا۔ اس ڈرامے کے مکالمے بھی متاثر کن تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم واقعی بادشاہ ہنری ہشتم کے دربار میں بیٹھے ہیں۔ ہر درباری اور سپاہیوں نے وہی پرانے یورپی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ملکہ کی شخصیت بھی متاثر کن تھی۔

لوگوں نے انہماک سے یہ کھیل دیکھا اور پسند کیا۔ یہ 20-15 افراد پر مشتمل ایک ٹیم تھی جس نے بڑی مہارت اور محنت سے یہ متاثر کن کھیل پیش کیا۔ میلے کے دوسرے روز بھی یہی کھیل دوبارہ پیش کیا گیا اور لوگوں نے اسی دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے بعد میں ملکہ عالیہ اور شاہ ہنری سے ان کے ’’محل‘‘ میں ملاقات کی۔ بادشاہ کا کردار ادا کرنے والے نوجوان نے مجھے بتایا کہ ہم کوئی پیشہ ور ایکٹر نہیں ہیں، بلکہ شوقیہ یہ کھیل پلے کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا کاروبار یا ملازمت کرتا ہے اور ہم صرف لوگوں کو پرانے زمانے کی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو اس زمانے کی تہذیب و تمدن اور کاروبار سلطنت چلانے کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ہم اس جذبے کے تحت اکھٹے ہوکر یہ ’’پلے‘‘ کرتے ہیں، پھر ہر کوئی اپنی اپنی جاب پر چلا جاتا ہے اور جب دوبارہ کہیں کھیل پیش کرنا ہو تو ہم اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں چلے جاتے ہیں۔ مجھے ان کے اس رضاکارانہ جذبے نے بہت متاثر کیا۔ ان کی پوری ٹیم کے ارکان بہت بااخلاق تھے وہ لوگوں کی طرف سے معلومات کے لیے پوچھے گئے ہر سوال کا جواب مسکراتے ہوئے دیتے تھے۔

مداریوں کی پارٹیاں بھی میلے کی ایک اہم رونق تھیں۔ ان کے ساتھ بھی 7-5مرد و خواتین کی ٹیم ہوتی ہے۔ ایک مداری صاحب کا قد ساڑھے چھے فٹ سے زیادہ تھا۔ انہوں نے مختلف کرتب دکھائے۔ کئی کرتب تو واقعی حیران کن تھے۔ ایک مداری بڑی بڑی 3 چھریوں کو اپنے ہاتھوں سے مسلسل 10-8 منٹ تک فضا میں اچھالتا رہا۔ اس کے ہاتھ اس طرح باری باری چھری کو پکڑتے تھے کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی تھی۔ لوہے کے رنگ میں سے اپنے پورے بدن کو گزار دیتا جس میں سے بظاہر ایک پتلا دبلا لڑکا بھی نہیں گزرسکتا۔ پھر جلتی ہوئی آگ کو منہ میں ڈال کر بجھانا، لوہے کے رنگ میں آگ لگاکر اس میں سے گزرنا غرض بے شمار حیران کن کمالات دکھائے گئے۔ ایک پارٹی نے ایک اور حیرت انگیز مظاہرہ کیا۔ دو مداری ایک دوسرے کی طرف لکڑی کے گول گول سے بنے ہوئے رولر جو ایک طرف سے ذرا موٹے تھے، تیزی کے ساتھ پھینکتے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں 3-3 رولر تھے۔

دیکھنے والے حیران رہ گئے کہ 2 رولر تو ہر وقت ہوا میں رہتے ہیں۔ مداری کے دونوں ہاتھ مسلسل رولر کو پکڑ پکڑ کر ہوا میں دوسرے کی طرف اچھال رہے تھے۔ یہی عمل دوسرا مداری بھی کررہا تھا اور کمال یہ تھا کہ کوئی رولر نیچے نہیں گرتا تھا۔ یہ کرتب مسلسل تیزی کے ساتھ 10-8 منٹ جاری رہا۔ بعض دفعہ ہمیں اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ تماشائی کرتب دیکھ کر بہت محظوظ ہورہے تھے اور دل کھول کر مداری کو داد دے رہے تھے۔ مداری اپنے کرتبوں کے ساتھ ساتھ جگت بازی بھی کرتے ہیں۔ ان کی جگت بازی پر تماشائی دل کھول کر ہنستے ہیں۔ یہاں کے لوگ ہر کھیل کو پوری طرح انجوائے کرتے ہیں۔ جب مداری جان بوجھ کر گرتے تھے تو لوگ ان کے گرنے پر بھی ہنس ہنس کر بے حال ہوجاتے تھے۔ لوگ داد دینے کے لیے ہا ہا ہوہو کی زوردار آوازیں نکالتے تھے اور ان داد دینے والے لوگوں میں بچے بوڑھے جوان سبھی شامل تھے۔

اب آئیے جناب 16ویں صدی کے بیڑے کی طرف چلتے ہیں۔ یہ ایک بادبانی کشتی ہے جو 20-18 فٹ لمبی ہے۔ اوپر جھنڈے لہرارہے ہیں۔ رسیاں بادبانوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں۔ اندر سمندر میں کام آنے والا سارا سامان بھی اسی 16ویں صدی کے زمانے جیسا ہے اور تو اور کشتی کے ناخدا اور اس کی فیملی نے بھی اپنا سارا لباس وہی پرانے ڈیزائن اور رنگوں کا پہنا ہوا ہے جو بہت تاریخی اور خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔ کشتی کے ساتھ ایک خوب صورت دوشیزہ جل پری بنی ہوئی بیٹھی ہے جو اوپر سے لڑکی اور نیچے سے مچھلی دکھائی دیتی ہے۔ لوگ خاص طور پر بچے جل پری کے ساتھ کھڑے ہوکر تصاویر بنواتے ہیں۔ کشتی کے ساتھ ایک چھوٹی سی سیڑھی لگی ہوئی ہے جہاں سے بچے بڑے چڑھ کر کشتی پر جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر تصاویر بنواتے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ یہاں بھی کشتی کا سارا عملہ بچوں اور بڑوں کے ہر سوال کا جواب خندہ پیشانی سے دے رہے تھے اور اس طرح بچے بحری سفر کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کررہے تھے۔

اب چلیے ایک دوسرا فن دیکھتے ہیں۔ یہ زیادہ تر بچوں کے لیے ہے۔ بچے آگے چلے جاتے ہیں اور ان کے والدین سامنے تصاویر اور مووی بناتے رہتے ہیں۔ بچوں کو تلوار چلانے کی مشق کروائی جاتی ہے۔ تلواریں لکڑی کی یا کسی ہلکی دھات کی ہوتی ہیں۔ عمر کے لحاظ سے مختلف سائز کی تلواریں ہوتی ہیں۔ بچے تلواریں پکڑ کر مشق کرکے بہت خوش ہوتے ہیں۔ پھر جھوٹ موٹ کا مقابلہ کرواتے ہیں اور فن سکھانے والا بچے کے وار سے نیچے گرجاتا ہے۔ بچہ اس کی چھاتی پر پائوں رکھ کر فتح کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ اس طرح بچوں کو اپنا بچائو کرنے کا طریقہ آتا ہے اور بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ یہاں بھی فنکار بچوں بڑوں کے ہر سوال کا جواب خوش دلی سے دے رہے تھے۔

میرا خیال ہے کہ اب آپ تھک گئے ہوں گے، بھوک بھی تنگ کررہی ہوگی۔ یہاں 3-2 جگہوں پر سائے کا انتظام کرکے لوگوں کے بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا تھا، جہاں لوگ ذرا دم لیتے تھے اور وہیں بیٹھ کر کھا پی بھی لیتے ہیں۔ کھانے پینے کے بہت سے اسٹال تھے جہاں سے ہر قسم کے کھانے ملتے تھے۔ روایتی طریقے سے بھی پیزا وغیرہ تیار کیا جارہا تھا۔ میکسیکو اور یورپین تمام کھانے دست یاب تھے۔ لوگ قطاروں میں لگ کر خوراک خرید رہے تھے۔ سوڈا واٹر اور پانی بھی دستیاب تھا۔

اب آپ نے کھا پی بھی لیا اور کچھ آرام بھی کرلیا۔ اب آئیے ذرا کچھ شاپنگ بھی کرلیں۔ کہیں مردانہ اور زنانہ کپڑوں کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ کہیں خواتین کے ہار سنگھار کی اشیاء ہیں۔ کسی اسٹال پر جیولری بک رہی ہے ۔ ایک اسٹال پر سمندر اور پہاڑوں سے حاصل کیے گئے طرح طرح کے تراشیدہ پتھر رکھے تھے جو بہت دل کش رنگوں میں تھے۔ آئیے ایک بڑے اسٹال پر لوگوں کا بہت رش ہے ذرا دیکھتے ہیں وہاں لوگ کیا خریداری کررہے ہیں۔ یہاں طرح طرح کی خوب صورت تلواریں، کلہاڑیاں اور تیر کمان رکھے ہوئے ہیں۔ طرح طرح کے چھوٹے بڑے چاقو اور خنجر بھی رکھے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو دھڑا دھڑ یہ چیزیں خرید کر دے رہے ہیں۔

بڑے بھی خوب صورت تلواریں خرید کر کمر کے ساتھ باندھے پھرتے تھے۔ میلے میں 16-15 اور 17ویں صدی کا رنگ زیادہ نمایاں تھا۔ اس لیے لوگ تلواریں کمر کے ساتھ باندھے اسی زمانے کے کپڑے پہنے ہوئے گھوم رہے تھے۔ خواتین نے شوقیہ عجیب و غریب لباس زیب تن کیے ہوئے تھے، جن میں پرانے زمانے کی کشیدہ کاری اور موتی وغیرہ لگے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ پرانے زمانے کے فوجی لباس سرپر لوہے کا خود رکھے ہوئے تھے۔ لوگ مختلف GET UP بنائے ہوئے تھے۔ جو بہت خوب صورت لگ رہے تھے۔ کئی لوگوں کو روک کر میں نے ان کے لباس کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے بتایا کہ یہ لباس کس دور کی عکاسی کرتا ہے اور خوشی سے تصاویر بھی بنوائیں۔

لوگ ہینفرڈ کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی یہ میلہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ کئی لوگوں نے ’’جوکر‘‘ کا بہروپ بنایا ہوا تھا اور وہ اپنی حرکتوں سے دوسروں کو محظوظ کررہے تھے۔ ایک صاحب نے مکمل ’’ڈینوسار‘‘ کا روپ دھارا ہوا تھا۔ پتا نہیں چلتا تھا کہ اصلی ڈینوسار ہے یا نقلی۔ جب وہ اچانک کسی کے پیچھے نمودار ہوتا تھا تو بعض دفعہ بچے ڈر جاتے تھے۔ لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہوکر تصاویر بنوا رہے تھے۔

آئیے جناب! بینڈ باجے اور ڈھول تاشے کی آوازیں آرہی ہیں۔ اس طرف دیکھتے ہیں کیا ہورہا ہے؟ اسٹیج پر پرانے زمانے کا دلکش لباس پہنے ہوئے خواتین بیلے ڈانس کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ ڈانس کے مختلف انداز ہیں۔ ایک ڈانس ختم ہوتا ہے تو دوسرا ڈانس شروع ہوجاتا ہے۔ ڈانس میں اعلیٰ فن کاری کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ کبھی تلوار سر پر اس طرح رکھی جاتی تھی کہ مجال ہے کہ تلوار اپنی جگہ سے ذرا سی بھی ہلے۔ کبھی سر پر مٹکے رکھ کر ڈانس کیا جارہا تھا۔ 12-10 خواتین کا گروپ موسیقی کی ہر تال پر قدم ناپ تول کر رکھ کر ڈانس کررہی تھیں ۔ کبھی میوزک تیز ہوجاتا تھا کبھی ہلکا۔ اسی طرح رقص کے انداز بھی فوراً بدل جاتے تھے۔

ایک فنکار نے سر پر تلوار رکھے ہوئے نیچے بیٹھ کر جھک کر منہ کے ساتھ گلاس اٹھایا اور بغیر ہاتھ لگائے پانی بھی پیا لیکن ڈانس بھی جاری رکھا۔ لوگوں نے کھل کر داد دی۔ تالیاں بجائیں۔ بینڈ میں بھی 12-10 لوگوں کی ٹیم تھی۔ ان سب لوگوں نے بھی 16ویں صدی والے لباس پہنے ہوئے تھے۔ ایک صاحب نے عربی لباس پہنا ہوا تھا۔ بینڈ بھی مختلف دھنیں بجارہا تھا۔ کبھی عربی کبھی یورپین لیکن پرانے طریقوں کے مطابق۔ یہ رقص کافی دیر جاری رہا اور آخر کار رقاصائوں نے جھک کر حاضرین کو سلام کیا اور داد وصول کی۔

واہ بھائی واہ سارنگی کی دلکش آواز آ رہی ہے۔ چلیے دیکھتے ہیں، لوگوں کا رش لگا ہوا ہے۔ یہاں12-10 خواتین اور مرد انگلینڈ کے شاہ ہنری ہشتم کے زمانے کا لباس پہنے ہوئے اس زمانے کا رقص پیش کررہے ہیں۔ ایک شخص سارنگی سے دھنیں بکھیررہا ہے۔ یہ بھی بڑا دلکش رقص تھا۔ رقاص ایک دوسرے کا بازو پکڑ کر آگے پیچھے ہوکر رقص کررہے تھے۔ فوراً ساتھی بدل لیتے تھے۔ اب کسی اور کا بازو ہے پھر فوراً قطاریں بدل جاتی تھیں۔ غرض یہ بھی دل چسپ رقص تھا۔

اچانک کنگ ہنری ہشتم اپنے دربار سے اٹھ کر تلوار اور نیزہ بردار محافظوں کے ساتھ ملکہ عالیہ کے ہمراہ چہل قدمی کرتے ہوئے وہاں آجاتے ہیں۔ رقص کرنے والی پارٹی فوراً جھک کر آداب بجا لاتی ہے اور ان کا انچارج انہیں کہتا ہے کہ بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ تشریف لائے ہیں ان کے اعزاز میں رقص پیش کیا جائے۔ بادشاہ بڑے وقار سے اجازت دیتا ہے اور رقص شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بہت دل چسپ منظر تھا۔ بادشاہ سلامت پرانے زمانے کے شاہانہ لباس میں سر پر تاج رکھے ملکہ کے ساتھ کھڑے رقص دیکھ رہے ہیں اور رقص کرنے والے بھی وہی 16ویں صدی والے لباس پہنے رقص کررہے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ہم واقعی شاہ ہنری ہشتم کے دور میں انگلینڈ میں کھڑے یہ رقص دیکھ رہے ہیں۔ رقص ختم ہوا۔ رقاصوں نے جھک کر سلام کیا۔ بادشاہ نے ان کی مہارت پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور واپس دربار میں چلے گئے۔

اب دیکھیں کہ دوسری طرف کیا ہورہا ہے۔ لوگ ہنس ہنس کر تصویریں لے رہے ہیں اور وہی پرانے زمانے کے لباس پہنے ہاتھوں میں کوڑے لیے پولیس کے جوان کھڑے ہیں۔ ایک نوعمر لڑکے کی گردن اور ہاتھوں کو لکڑی کے ایک تختے میں جکڑا ہوا ہے اور کوڑابردار اس پر کوڑا تانے رعب کے ساتھ کھڑا ہے۔ ساتھ 4-3 چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہتھکڑیاں پہناکر گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے والدین خوش ہوکر تصاویر بنارہے ہیں۔ بچے بھی جکڑے ہوئے ہنس رہے ہیں۔ یہاں لوگوں کو پرانے زمانے کے ملزموں کو گرفتار کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ بچے بہت خوشی خوشی گرفتار ہورہے تھے۔ والدین بعد میں اس پارٹی کو کچھ نذرانہ دے دیتے تھے۔

اچھا بھائی اب دوسرے پلاٹ کی طرف چلتے ہیں۔ وہاں دیکھیں ڈھول اور باجے کی آوازیں آرہی ہیں۔ یہاں کچھ خواتین پرانے زمانے کے یورپ کے خانہ بدوشوں جنہیں ’’جپسی ‘‘ کہا جاتا ہے کا لباس زیب تن کیے ’’جپسی ڈانس‘‘ کررہی ہیں۔ ان کا ڈانس بھی کمال کا تھا۔ ان کا بڑا سا خیمہ بھی جپسی ثقافت کو ظاہر کررہا تھا۔ ڈھول تاشے بھی وہی پرانے زمانے کی طرز والے تھے۔ یہاں ڈانس کرنے والی ایک لڑکی سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے باقاعدہ یہ پیشہ اختیار کیا ہے؟ اس نے ہنس کر جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں شوقیہ یہ کررہی ہوں۔ میں نے باقاعدہ ڈانس کی تربیت لی ہے۔ اب میں ان لوگوں کے ساتھ جب دل چاہے شامل ہوجاتی ہوں۔ بس یہ مجھے پسند بہت ہے۔ ویسے میں یونیورسٹی کی طالبہ ہوں۔

آئیے اب آپ کو پرانے دور کی ایک اور دل چسپ عدالت دکھاتے ہیں۔ عدالت لگی ہوئی ہے 17-16 ویں صدی والے لباس پہنے سرکاری اہل کار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مجرموں کو سزا دینے کے لیے ٹکٹکی رکھی ہوئی ہے جہاں مجرم کے ہاتھ پائوں باندھ کر لٹکا دیا جاتا ہے جب میں وہاں یہ سب دیکھ رہا تھا تو ایک فیملی آئی 3-2 خواتین اور بچے تھے۔ ایک 18سال کا نوجوان لڑکا بھی تھا۔ ایک لڑکی نے عدالت کو ان کے مخصوص کاغذ پر درخواست دی اور لڑکے پر کوئی الزام لگایا۔ اہلکار فوراً اٹھے اور لڑکے کو گرفتار کرلیا اور اس کا جرم اسے بتایا پھر جج نے اس کی عمر پوچھی تو لڑکے نے 18-17سال بتائی جج نے کہا عمر کم ہونے کی وجہ سے ٹکٹکی پر نہ باندھا جائے بلکہ ایک طرف لگے تختے کے سوراخ میں اس کی گردن ڈال کر اور ہاتھوں کو بھی جکڑ دیا گیا۔ اب لڑکا کوئی حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ گھر والے ہنس رہے تھے اور مووی بنارہے تھے۔ گرفتار لڑکا بھی ہنس رہا تھا پھر ایک سپاہی نے اس کے منہ پر ٹھنڈا پانی ڈالا اور مسلسل بالوں والا برش اس کے منہ پر پھیر رہا تھا۔ اب لڑکے کی ہنسی بند ہوچکی تھی۔ آخر کار سزا کے بعد لڑکے کو آیندہ جرم نہ کرنے کا وعدہ لے کر رہا کردیاگیا۔ رہائی کے بعد لڑکا ہنس تو رہا تھا لیکن چہرہ ذرا سرخ ہوگیا تھا۔

میں نے آگے بڑھ کر لڑکے کی والدہ کو بیٹے کی رہائی پر مبارک باد دی۔ وہ اور ہنسنے لگے اس کی والدہ کہنے لگی۔ اس کی گرل فرینڈ کو مبارک دیں۔ اچھا میں نے تو اس کو لڑکے کی بہن سمجھا تھا۔ گرل فرینڈ ہنس ہنس کر بے حال ہوگئی اور کہنے لگی۔ میں نے ہی تو عدالت میں درخواست دے کر اسے گرفتار کروایا تھا۔ رہائی کے بعد دونوں دوست گلے ملے اور ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔ ایک دفعہ میں دوبارہ وہاں سے گزرا تو دیکھا کہ ایک نوجوان کو ٹکٹکی پر ہاتھ پائوں باندھ کر لٹکایا گیا تھا اور سپاہی اس کے سارے جسم پر بار بار ٹھنڈا پانی ڈال رہا تھا اور قہرآلود نظروں سے اس کو کہہ رہا تھا اب بتائو دوبارہ جرم کروگے؟ اس کے تمام گھر والے ہنس رہے تھے اور اس کی تصاویر بنارہے تھے۔ آخر کار سزا کے بعد اس کو رہا کردیا گیا لیکن آیندہ جرم نہ کرنے کے وعدہ پر ۔ لڑکے کا سارا جسم کپڑے پانی سے تر تھے اور لڑکا بھی ہنس رہا تھا۔ گھر والے تو بہت انجوائے کررہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ لڑکا دوبارہ گرفتار ہونے کا نہیں سوچے گا۔ اس قسم کے کھیلوں میں جرم و سزا کے بارے میں بچوں کو آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

اگر آپ نے بھی یہ دلچسپ میلہ دیکھنا ہے تو اب ایک سال انتظار کیجیے۔ اگلے سال پھر اکتوبر کی یکم دو کو اس خوب صورت شہر میں آئیے اور دو دن کا میلہ ضرور دیکھیں لیکن کہتے ہیں کہ یہ دنیا بھی دو دن کا میلہ ہے یہاں کسی کو نہیں رہنا لیکن دنیا امید کے سہارے قائم ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ سب کو سلامت اور صحت مند رکھے اور مجھے بھی۔ پھر آیندہ میلہ اکٹھے دیکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔