اقبال شناسی… غورو فکر کے چند پہلو

دور پہاڑی ڈھلوان پردوآنکھیں چمکیں، شکاری ٹارچ نے ادھرکا رخ کیا اور روشن لہریں لپک کے سانبھر کی ان آنکھوں سے مل گئیں۔


دور پہاڑی ڈھلوان پردوآنکھیں چمکیں، شکاری ٹارچ نے ادھرکا رخ کیا اور روشن لہریں لپک کے سانبھر کی ان آنکھوں سے مل گئیں۔ فوٹو:فائل

اے عزیز، اب علامہ اقبال کا اور ہمارا معاملہ سنو!

ہم پچھلی گرمیوں میں مدراس سے کوڈائی کنال کے پہاڑی مقام پر اور پھر وہاں سے کیرالا کے چائے کے باغوں کی طرف چلے۔ کوئی دو سو میل لمبی، ٹوٹی پھوٹی سڑک، جنگلوں میں، پہاڑیوں میں بل کھاتی ہوئی، چھپتی، اُبھرتی جا رہی تھی۔ صبح ہم کار سے نکلے تھے، واپسی تک رات ہوگئی، شکار ہاتھ نہ آیا۔ غیر شعوری وجہیں تھیں کہ میں راستے بھر اقبال کی شاعری پر بات کرتا گیا اور بالآخر اپنے مشاق شکاری میزبان سے کہا جناب، وہ جو اس نے مرد مسلمان کے لیے کہا ہے، وہ خود اسی پر صادق آتا ہے۔

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفاں

تو کہیں وہ شبنم ہے، کہیں طوفاں۔ جب دل میں آگ لگی ہو، تشنگی ہو ذوق حیات کی، تو وہ شنبم کی سی تراوٹ بخشتا ہے اور جب دل دریا ہو، ولولوں کا ہجوم ہو تو ظالم طوفان کی سی یورش کرتا ہے۔ کہنے کو تو میں کہہ گیا مگر تسکین نہ ہوئی۔ سوچا ایک بات آخر میں اور:۔

جب ہم اس خلاق شاعر کے حضور میں، یا اس کے مخاطب ہوتے ہیں تو پوری طرح سے اس کے شکار ہوجاتے ہیں، کچھ اور نہیں سوجھتا، بس محصور ہیں، مسحور ہیں، جدھر وہ بلائے گا، جائیں گے اور۔۔۔۔

اچانک شکاری میزبان نے منہ پر آنگی رکھی۔ شی! خاموش!

ہم سب ٹھٹک گئے۔

دور پہاڑی ڈھلوان پر دو آنکھیں چمکیں، شکاری ٹارچ نے ادھر کا رخ کیا اور روشن لہریں لپک کے سانبھر کی ان آنکھوں سے مل گئیں۔ اب یہاں سے وہاں تک روشنی کی لہر رواں تھی۔ شکاری کی زبردست ٹارچ والی کرن ان دو روشن اور وحشی آنکھوں کے لیے دلنواز اور مقناطیسی رسی بن گئی تھی اور شکار، خود بخود، بلا ارادہ اس دھاگے میں بندھا ہماری طرف گویا پھسل رہا تھا۔ آخر وہ ذرا دیر میں اس جان لیوا قوت کے مرکز کے سامنے بے بس اور مسحور کھڑا ہوگیا۔ میرے میزبان نے بلا تکلف اسے ایک گولی میں شکار کرکے پیچھے کی جیپ میں باندھ لیا۔

خوش خوش گاڑی اسٹارٹ کی تو میں نے کہا: حضرت میرا اور اقبال کا یہی معاملہ ہے۔ وہ ایسے ایسے ساحرانہ کرشموں سے اپنی طرف بلاتا ہے، روشنی کی لہر پر ہم رواں ہوتے ہیں اور اپنے وجود سے بے خبر عجب ایک کیفیت میں مگن ہوکر سامنے پہنچ جاتے ہیں۔ آگے اس کی مرضی۔

اور جہاں شعور کا فتنہ بیدار ہوا، وہ سحر ٹوٹا، نظم کی رسی تڑا کر ہم نے رخ بدلا اور اس کی گولی کی زد سے نکل بھاگے۔ میں آجکل اسی عالم میں ہوں۔

٭٭٭

شعور کے چار سرچشمے

شعور کو فتنہ کی بیداری کہنا بھی اقبال نے سکھایا، ورنہ خود یہ شاعر ہماری زبان کا سب سے باشعور اور بیدار فن کار تھا۔ سچ پوچھیے تو بیسویں صدی میں اردو فارسی ادبیات نے اس ایک شاعر کی بیداری کی برکت سے کم از کم ایک صدی کا فاصلہ طے کیا اور وہ عالمی پیمانہ کے مسائل حاضرہ سے دو بدو بات کرنے کے قابل ہوئی۔

اقبال کی جس نظم و نثر کے ہم رسیا ہیں، وہ چالیس برس میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کی قدر و قیمت آنکنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اس کے اصلی سرچشموں پرـ ـ 'جو دراصل اجزائے ترکیبی بھی ہیں' نظر رکھیں۔ یہ چاروں ایک دوسرے سے گھلے ملے ہیں۔ میں انہیں سہولت کی خاطر یوں ترتیب دوں گا:

(1 مسلم پنجاب و کشمیر، 1857ء کے بعد،

(2 ہندوستان کا تہذیبی ریناساں(احیا) اور قومی آزادی کی تحریک،

(3 جرمنی (بسمارک کے بعد) اور جرمن کلاسیکی فلاسفی،

(4 یوروپ اور مغربی سیاست کے مثبت و منفی نتائج۔

بعد کے دونوں سرچشمے بظاہر ایک خانے ''فرنگ'' میں شمار ہوسکتے تھے، مگر نہیں، گہرائی میں اتریے تو ان کی اصلیت مختلف ہے، اور ان کے اثرات اقبال کے شعور پر بھی مختلف نتیجوں میں ظاہر ہوئے۔

سوال ہوگاکہ: اور اسلام؟

اقبال خود بار بار اعلان کرتے ہیں کہ:

''...میں نے اپنی زندگی کا زاید حصہ اسلام اور اسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعے میں صرف کیا ہے۔۔۔۔

''... میرا جو فلسفہ ہے وہ قدیم مسلمان صوفیہ و حکماء کی ہی تعلیمات کا تکملہ ہے بلکہ بالفاظ صحیح تر یوں کہنا چاہیے کہ یہ جدید تجربات کی روشنی میں قدیم متن کی تفسیر ہے۔۔۔۔''

تو عرض ہے کہ اسلام اور تصوف کے وسیع مطالعے نے، غور و فکر نے اور روحانی تجربات نے اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں جو اہم حصہ لیا، اسے مسلمانان پنجاب و کشمیر کے مادی حالات اور شعوری تحریکوں میں اور انہی کے ساتھ ہندو ریناساں (نشأۃ ثانیہ) کے بڑے فریم میں اور پھر جرمن، بعد الطبیعیات کے تعلق میں دیکھیں تبھی اس کے تاروپوو کا پتہ چلتا ہے۔ یوں الگ الگ اشعار اور خطبات و خطوط سے خود فکر اقبال میں اسلام اور تصوف کے بعض پہلو تو روشنی میں ضرور آجائیں گے، ان کے ارتقا کا راز نہیں کھلے گا۔

تصوف کا چلن اقبال کو اپنے والد بزرگوار سے ملا (ملاحظہ ہو عطیہ بیگم کابیان) مذہبی فرائض کی پابندی اور عقیدت کی شدت کشمیری نو مسلم خاندان سے پائی، اسلام اور تصوف کا بنیادی مطالعہ عربی اور فلسفے کی تعلیم نے مہیا کیا، لیکن پختہ عمر کو پہنچ کر اسلامیات کو اپنی نگاہ کا مرکز بنانا اور تصوف کی تاریخ میں اتر کر ایک مقررہ نہج کو اپنانا، اسے عہد حاضر کے حالات کی روشنی میں جانچنا اور ایک قطعی سمت کی تلقین کرنا۔ بلکہ سماجی تقاضوں کی کسوٹی پر اصرار کرنا، اسلام اور تصوف کے علمی پہلو سے زیادہ اس کے عملی امکانات اور اثرات پر متوجہ کرتا ہے۔

پروفیسر نکلسن نے ''اسرارِ خودی'' کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں لکھا تھا کہ اس مثنوی کی اشاعت نے ہندوستانی مسلمانوں کی نو عمر نسل میں طوفان برپا کردیا ہے اور اب آگے چل کر دیکھنا ہے کہ جن کا شعور بیدار ہوا ہے وہ کدھر قدم بڑھاتے ہیں۔ مقام خداوندی کا دور سے تصور کرکے کیا ان کی تسلی ہو جائے گی یا وہ اس نئے پیغام کو ایسے مقاصد کے لیے اختیار کریں گے جو خود مصنف (اقبال) کے ذہن میں بھی موجود نہیں۔۔۔۔ گویا پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد ''اقبال کے پیغام سے برپا ہونے والے طوفان'' کے متعلق ادبی نہیں، سماجی، سیاسی اندیشے سات سمندر پار تک محسوس کیے جانے لگے تھے اور وہ اس لیے کہ مقامی اور عالمی صورت حال سے ان کا گہرا رشتہ تھا۔

یہ پیغام جس خاک سے اٹھا تھا، بالآخر اسی میں جذب ہونے اور رنگ لانے والا تھا۔

اقبال کی تصانیف میں سب سے پہلے فارسی مثنوی ''اسرار خودی'' شائع ہوئی (1915ء) پھر رموز بے خودی (1918ء) اور پانچ سال بعد (1923ء) میں ''پیام مشرق'' منظومات، تینوں فارسی میں تھیں، تاہم سینہ بہ سینہ اور ترجمہ ہوکر ان کے مفہوم و معنی تعلیم یافتہ حلقوں میں عام ہوچکے تھے، جب ''بانگ درا' نکلی اور گونجی (1924ء)، تب سے اب (1977ء) تک، یکے بعد دیگرے دو نسلیں زندگی کے عملی اور فکری میدان میں اترچکی ہیں، ایک وہ جس کے ایماء، آرزو یا اعمال کے نتیجے میں ہندوستان دو مملکتوں میں تقسیم ہوا اور جس نے پاکستان کی تشکیل کو اقبال کے خواب کی تعبیر سمجھا، دوسری وہ نسل حاضر جو اس تاریخ ساز یا تاریخ شکن واقعے کے مابعد اثرات کا سامنا کررہی ہے اور اقبال کے پیغام کو ٹھیک اسی بے مروتی سے جانچنے کی بہتر پوزیشن میں ہے جس بے مروتی سے ہمارے شاعراعظم نے ہندوستان اور عجم کے تاریخی پس منظر میں اسلام، اسلامی تحریکات، خصوصاً علم الکلام اور تصوف کو جانچا تھا۔

ارتقائی دائرے کی صورت میں سفر مسلسل

اقبال نے شعر اور نثر دونوں میں جتایا ہے کہ وہ مجموعۂ اضداد ہیں۔ ''زہد اور رندی'' 1905ء سے پہلے کی نظم ہے جس میں ایک مولوی صاحب کی زبانی یہ طعنہ سنا کر اس کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ:

(اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے)

کئی سال بعد لندن میں (اپریل1907ء) وہ عطیہ بیگم کو جتاتے ہیں کہ:

''میں اصل میں دوہری شخصیت کا آدمی ہوں، باہر سے عملی اور کاروباری، اندر سے خواب و خیال کی دنیا میں رہنے والا، فلسفی اور ماورائی۔''

چنانچہ اقبال نے نکتہ چینیوں کی راہ آسان کردی کہ خود انہی کی تحریروں سے اثبات اور نفی کے پہلو ایک ساتھ نکل آتے ہیں اور محض بدنظر یا بدذوق لوگوں کے قلم سے نہیں، بلکہ وہ جنہوں نے اقبال کے مطالعے میں عمریں تیر کر دیں ان کے ہاں بھی نشانہ خطا کرجاتا ہے۔ یہاں ایک مثال کافی ہوگی۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی (50 برس تک مشرق و مغرب کے فلسفیانہ نظاموں میں غرق رہنے اور خود اقبال کے سامنے برسوں زانوئے ادب تہہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

''...میں جو یہ کہتا ہوں کہ اقبال مرحوم وحدۃ الوجود کے قائل تھے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں انہیں اپنا ہم عقیدہ ثابت کرنا چاہتا ہوں بلکہ اس لیے کہ ان کی تمام تصانیف میں وحدۃ الوجود کی تعلیم موجود ہے...''

پروفیسر خلیفہ عبدالحکیم کو بھی یہ دونوں سعادتیں نصیب تھیں اور وہ اپنی کئی تصانیف (فکر غالب اور متفرق مضامین) میں اقبال کی زبانی کہہ چکے ہیں کہ شیخ اکبر محی الدین ابن العربی (الاندلسی) کی تصنیف (فصوص الحکم) کفر والحاد سے آلودہ ہے:

''... اقبال نے اس انداز کی وحدۃ الوجود کو نظری لحاظ سے غلط اور عملی لحاظ سے مفر سمجھا لہٰذا مسلمانوں کے روایتی تصوف کا ایک بڑا عنصر اقبال کے ترقی یافتہ تفکر و تاثر میں سے غائب ہوگیا...''

میکش اکبر آبادی کا عمر بھر کا اوڑھنا بچھونا ہی وحدۃ الوجود کا نظریہ، اس کا پرچار اور اقبال کا کلام رہا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں:

''... معلوم ایسا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اپنے ابتدائی دور میں وحدۃ الوجود کے مخالف تھے جسے ''اسرار خودی کا زمانہ کہنا موزوں ہوگا۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ تصوف اور خصوصاً وحدۃ الوجود کا عقیدہ نفی خودی کے مترادف ہے اور جب انہیں اپنے خیال کے خلاف واقعہ ہونے کا علم ہوگیا تو انہوں نے صراحت سے وحدۃ الوجود کی تائید فرمائی۔۔۔۔''

اور خود اقبال کیا فرماتے ہیں:؟

ہنگامہ بست ازپتے دیدار خاکیے

نظارہ را بہانہ تماشائے رنگ و بوست

اب اسے چاہے وحدۃ الوجود کا ''ہمہ اوست'' کہیے یا واحدۃ الشہود کا''ہمہ ازوست''... دونوں کی گنجائش ہے۔ لیکن... اس صورتحال کے باوجود ہم اقبال کی چالیس برس کی کمائی کو مجموعۂ اضداد نہیں کہہ سکتے۔ وقت کی ترتیب اور مختلف اثرات کی سراغ رسانی اور احتیاط کے ساتھ چن کر دیکھیے تو ان میں مسلسل حرکت، مسلسل جستجو کا عمل دخل نظر آئے گا۔

البتہ یہ حرکت ایک سیدھی سمت میں نہ عمودی (Vertical) نہ اُفقی (Horizental) فکر اقبال کی سطحیں بدلتی جاتی ہیں اور ہر بار وہ بلند سطح پر نقطۂ آغاز کی جانب رخ کرتا اور کہانی کا سا دائرہ بناتا گزرتا ہے۔ غیر شاعرانہ (یا ٹیکنیکل) صورت اس کی کچھ یوں بنتی ہے۔ یعنی نہ تو وہ نقطۂ آغاز پر واپس آتا ہے، نہ اس سے مخالف سمت میں سفر تمام کرتا ہے، ارضی کشش فنکار کو اپنی طرف کھینچتی ہے، مابعد الطبیعیاتی تفکر اور عینی (Idealist) فلسفے اسے نیلگوں فضا کی طرف بلاتے ہیں اور ''پس چہ باید کرد'' کا سوالی مسلسل مسافرت میں بسر کرتا ہے، اپنے ماضی کو روکے بغیر اور مستقبل کی خوش خیالی سے دست بردار ہوئے بغیر وہ اپنے تاریخی دور کی حرکت و حرارت کی نمائندگی کرنے میں دیر تک کہیں نہیں تھمتا۔

کیا عجب، یہی سبب ہوکہ آج مختلف بلکہ متضاد سیاسی، سماجی نظاموں اور متصادم تہذیبی قدروں کے ماحول میں اس کے کلام کو پہلے سے بھی زیادہ سراہا جارہا ہے۔

اُردو، فارسی، عربی، انگریزی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے۔ لسانیات میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر انصاری نے شاہکار ادبی فن پاروں کو اُردو میں ترجمہ کرکے عالمی شہرت حاصل کی امیر خسرو، غالب اور علامہ اقبال پر اِن کا کام بھی بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔

مقبول خبریں