بھارت کی صوتی جارحیت کے سامنے ریڈیو پاکستان بے دست و پا کیوں؟

غلام محی الدین / بشیر واثق  اتوار 28 اپريل 2019
سرکاری تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور پولیس کی طرح ریڈیو عوامی خدمت کا ادارہ ہے جس سے آمدن حاصل کرنے کا تصور درست نہیں۔ فوٹو: فائل

سرکاری تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور پولیس کی طرح ریڈیو عوامی خدمت کا ادارہ ہے جس سے آمدن حاصل کرنے کا تصور درست نہیں۔ فوٹو: فائل

27 مارچ 2012  ء کے روز ڈھاکہ کے بنگا بندھو انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں دنیا بھر سے اُن شخصیات، ممالک اور اداروں کے نمائندوں کو اکٹھا کیا گیا۔ جنہوں نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تقریب میں آل انڈیا ریڈیو کو پاکستان کو تقسیم کرنے کی کوششوں کے شراکت دار ہونے کے اعتراف میں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے سرکاری ایوارڈ دیا گیا۔

48 سال قبل بھارت نے اپنے سرکاری ریڈیو کے ذریعے پاکستان کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کی جس حکمت عملی پر کام کیا تھا آج وہ اُس حکمت عملی کو دوبارہ استعمال کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔اس حوالے سے بھارت آل انڈیا ریڈیو کے انفراسٹراکچر کو تیزی سے بڑھاتا اور ترقی دیتا جارہا ہے۔ جس کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ 2017-18 میں آل انڈیا ریڈیو نے ملک میں 52 نئے ٹرانس میٹرز لگائے۔ اور 2016-17 سے2017-18 کے دوران 49 نئے اسٹیشنز قائم کئے۔جبکہ وہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ نئے اور جدید طاقتور ٹرانس میٹرز کی تنصیب بھی کر رہا ہے۔

اس وقت پاکستان سے ملحقہ بھارت کی تین ریاستوں پنجاب، راجستھان، گجرات اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں آل انڈیا ریڈیو کے 83 اسٹیشنز اور 105 ٹرانس میٹرز کام کر رہے ہیں۔یہ تعداد آل انڈیا ریڈیو کے تمام اسٹیشنز کا 17.3  اور تمام ٹرانس میٹرز کا 15.4 فیصد ہے۔سب سے توجہ طلب پہلو یہ ہے بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تحریک آزادی کو دبانے ، آزاد جموں کشمیر، گلگت  بلتستان اور دیگر پاکستانی علاقوں میں اپنا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے سرکاری ریڈیو کے نیٹ ورک میں اضافہ اور اسے مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔

اس وقت مقبوضہ علاقے میں آل انڈیا ریڈیو کے 24 اسٹیشنز اور 41 ٹرانس میٹرز کام کر رہے ہیں۔جس میں میڈیم ویوز کے14 ، شارٹ ویوز کے 3 اور ایف ایم کے24 ٹرانس میٹرزشامل ہیں۔ بھارت نے آل انڈیا ریڈیو کے لئے مقبوضہ جموں میں جدید DRM ٹیکنالوجی کا حامل 300 کلوواٹ کا میڈیم ویو ٹرانس میٹرنصب کیا ہے جبکہ سری نگر میں بھی 300 کلوواٹ کا میڈیم ویو کاٹرانس میٹرموجود ہے ۔ اسی طرح کارگل میں 200 کلوواٹ پاور کا میڈیم ویو ٹرانس میٹرکام کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ 10 کلو واٹ کے6 ٹرانس میٹرز بھی سرگرم عمل ہیں۔جبکہ مقبوضہ جموں کشمیر  میں مختلف مقامات پر نئے ایف ایم ٹرانس میٹرز کی تنصیب کا کام بھی تیزی سے جاری ہے ۔ کچھ ہی عرصہ قبل ہیPatnitop  کے مقام پر 10 کلوواٹ کا ایف ایم ٹرانس میٹرنصب کیا گیاہے جس نے 02.09.2018 سے کام شروع کردیا ہے۔ اسکے علاوہ Naushera کے مقام پر 10 کلوواٹ کے نئے ایف ایم ٹرانس میٹرکی بھی تنصیب کی گئی ہے اس ٹرانس میٹرکو 01.11.2018 سے فعال کردیا گیاہے۔ اسی طرح Udhampur کے مقام پر بھی 10 کلوواٹ کا نیاایف ایم ٹرانس میٹرلگایا گیا ہے جو  21.01.2019 سے کام کررہا ہے۔

علاوہ ازیں اس وقت بھارتی پنجاب میں آل انڈیا ریڈیو کے 18 اسٹیشنز اور11 ٹرانسمیٹرزموجود ہیں۔ جن میں میڈیم ویو کے 2 اورایف ایم کے9 ٹرانس میٹرز ہیں۔ صوبے میںمیڈیم ویوز کے سب سے طاقت ور ٹرانس میٹرز جالندھر میں نصب ہیں۔ جہاں جدید DRM ٹیکنالوجی کا حامل 300 کلوواٹ کا اور میڈیم ویو 200 کلوواٹ کا ٹرانسمیٹرلگایا گیا ہے۔ راجھستان میں 25 اسٹیشنز اور میڈیم ویو ز کے 8 ،شارٹ ویو کا ایک اور ایف ایم کے 23 ٹرانس میٹرز یعنی مجموعی طور پر 32 ٹرانس میٹرز ہیں۔

اجمیر میں 200 کلوواٹ کا DRM ٹیکنالوجی کا حامل میڈیم ویو ٹرانس میٹراور سورت گڑھ میں بھی اس ٹیکنالوجی کا حامل 300 کلوواٹ کا ٹرانس میٹرنصب گیاہے۔ جبکہ جودھ پور میں 300 کلوواٹ کا میڈیم ویو ٹرانس میٹرکا م کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست گجرات میں سرکاری ریڈیو کے 16 اسٹیشنز اور 21 ٹرانس میٹرز کام کر رہے ہیں جن میں 6 میڈیم ویوز اور 15 ایف ایم کے ٹرانس میٹرز ہیں۔گجرات میں راج کوٹ کے مقام پر انڈیا نے سب سے طاقتور1000 کلوواٹ کا DRM ٹیکنالوجی کا حامل میڈیم ویو ٹرانس میٹرکے ساتھ ساتھ اسی ٹیکنالوجی کا حامل 300 کلوواٹ کا ایک اور ٹرانس میٹر بھی نصب کر رکھا ہے۔یوںان انڈین ریڈیو اسٹیشنز کی ایک نمایاں تعداد کو پاکستانی علاقوں میں واضح طورپر سنا جاسکتاہے۔بھارتی پنجاب میں پاکستانی بارڈر کے ساتھ بھی آل انڈیا ریڈیو کے نئے ٹرانس میٹرز لگانے کا کام جاری ہے۔

اس تناظرمیں امرتسر Ghrindaکے مقام پر 20 کلوواٹ کا نیاایف ایم ٹرانس میٹر ایک ہزار فٹ کی بلندی کے حامل انٹینا کے ساتھ نصب کیا ہے۔جو پاکستان کے علاقوں سیالکوٹ، گجرانوالہ اور لاہور میں سنا جا سکتا ہے۔اس ٹرانس میٹرنے 24.09.2018 سے کام شروع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان بارڈر پر  Fazilka کے مقام پر 20 کلو واٹ کا ایف ایم ٹرانسمیٹربھی نصب کیا گیاہے۔جو پاکستان کے علاقوں پاکپتن، حویلی لکھا، بصیر پور، دیپالپور، حجرہ شاہ مقیم، کنگن پور، منچن آباد، اللہ آباد، پیال کلاں، چونیاں، پتوکی ، رینالہ خورد اور اوکاڑہ تک پہنچ رکھتا ہے۔ یہ ٹرانس میٹر25.12.2015 سے متحرک ہے ۔اسی طرح بھارت نے راجھستان میں Chautan Hill کے مقام پر بھی 20  کلو واٹ کا ایف ایم ٹرانس میٹرلگایا ہے جس نے01.10.2018 سے کام شروع کردیا ہے۔بھارت پاکستان بارڈر کے ساتھ اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل لوکیشنز پر88 نئے ٹرانس میٹرز لگانے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ بھارت ریڈیو کے میڈیم کا استعمال کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اور وہ ایف ایم ریڈیو کا سہارا کیوں لے رہا ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا چاہے ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر ریڈیو ہر جگہ سنا جاتا ہے ۔ یونیسکو کی 2015 ء کی رپورٹ’’ ری شیپنگ کلچرل پالیسیز‘‘ بتاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے43 فیصد اور ترقی یافتہ مما لک کے 56 فیصد افراد روزانہ ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتے ہیں۔جبکہ ورلڈ ویلیوز سروے کی ویو 6 کے مطابق دنیا کے43.2 فیصد افراد ریڈیو  کے ذریعے باخبر رہتے ہیں۔برطانوی ادارے کی 2015  میں شائع ہونے والی رپورٹ کلچرل ٹائمز دی فرسٹ گلوبل میپ آف کلچرل اینڈ کریٹیو انڈسٹریز کے مطابق 2012 ء میں دنیا بھر میں ریڈیو نے 46 ارب ڈالر کا ریونیو پیدا کیا اور 5 لاکھ 2 ہزار افراد کو ملازمتیں مہیا کیں۔اسی سال سب سے زیادہ ریڈیو ریونیو امریکہ میں حاصل ہوا جو عالمی ریونیو کا 45 فیصد تھا۔ جبکہ سب سے زیادہ ریڈیو ملازمتوں کے مواقع ایشیا میں پیدا ہوئے جو 35 فیصدتھیں۔اعداد وشمار کی یہ جھلک اُس دنیا کی ہے جہاں ذرائع ابلاغ کی ہرجدید صورت ناصرف موجود ہے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے لئے دیگر تمام ذرائع/ وسائل بھی دستیاب ہیں۔یعنی بجلی ہروقت اور سب کو دستیاب ہے۔

انٹرنیٹ ہر کسی کی پہنچ میں ہے۔ قوتِ خرید بھی موجود ہے اور خواندگی بھی 100  فیصد۔لیکن پھر بھی وہ ریڈیو سے اتنا کیوں جڑے ہوئے ہیں؟ یہی بات امریکی صدر کو ہر ہفتہ ریڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کی روایت کے احیاء اور اسے برقرار رکھنے کا موجب ہے۔لیکن ہمارے پالیسی ساز اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔جبکہ بھارت اس حقیقت کا پورا ادراک رکھتا ہے۔ اُس کے پیش نظرہمارے وہ زمینی حقائق بھی ہیں جو ریڈیو کو پاکستان میں آج بھی موثر ذریعہ ابلاغ بنا تے ہیں۔یعنی بجلی سے محروم پاکستان کی 5 کروڑ 9لاکھ آبادی( ماخذ: ورلڈ انرجی آوٹ لک2017 ) اور طویل لوڈشیڈنگ کی شکار دیگر آبادی سے ابلاغ کرنا ریڈیو کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

پاکستان کے 10 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 42  فیصد ناخواندہ افراد ( ماخذ: اکنامک سروے آف پاکستان 2017-18 )سے رابطہ کا اہم ذریعہ صرف ریڈیو ہی ہے۔کم خرچ ہونے کی وجہ سے خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 24.3 فیصد پاکستانیوں ( ماخذ: اکنامک سروے آف پاکستان 2017-18 )سے تعلق ریڈیو ہی جوڑ سکتا ہے۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں سہولیات کی محرومی اور شہری علاقوں میں زندگی کی تیزی ریڈیو کی ضرورت کو دوچند کررہی ہے۔اس کے علاوہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ان شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں رہتی ہیں جو بھارت کے بارڈر کے قریب100 کلومیٹر سے کم فاصلہ پر آباد ہیں۔ اور ان آبادیوں کی ایک نمایاں تعداد تک ریڈیو پاکستان کے سگنلز اپنی پوری طاقت سے نہیں پہنچتے۔ سرحد کے قریب پاکستان کے چھوٹے شہروں ،قصبوں اور دیہاتوں میں سے اکثر میںریڈیو پاکستان کو کوئی اسٹیشن یا ٹرانس میٹرموجود نہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ وہاں پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو یا ایف ایم ٹرانس میٹربھی نہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میںکافی ابلاغی خلا موجود ہے جس میں آسانی سے گھسا جاسکتا ہے۔ اس آبادی کو معیاری ایف ایم سگنلز اور موسیقی کے ذریعے بھارت اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔

جتنا طاقتور ایف ایم ٹرانس میٹرہوگا اتنا ہی وہ صاف طور پر اپنے ریڈیس کے اندر ہر جگہ سنا جائے گا اور اپنے ساتھ قریب کی ایف ایم فریکونسیوں پرجب ان کی نشریات بند ہو تو بھی سنا جاسکتا ہے۔اسی طرح جس فریکونسی پر وہ کام کررہا ہوگا اُس فریکونسی پر کام کرنے والے کسی دوسر ے کم طاقت کے ایف ایم ٹرانس میٹرپربھی غالب آجاتا ہے ۔ عموماً ہرایف ایم ٹرانس میٹرکی پہنچ 50 کلو میٹر تک ہوتی ہے ۔ لیکن انٹینا کی بلندی میں اضافہ کر کے اسے 10 سے30 کلومیٹر تک مزیدبڑھایا جاسکتاہے۔ اگر ہوا کارخ ٹارگٹ علاقہ کی جانب ہو تو کوریج میں اضافہ یقینی ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ اسے باآسانی موبائل فون پر بھی سنا جاسکتا ہے۔اور ریڈیو سیٹ پر بھی یہ قابلِ سماعت ہے۔ اس کے برعکس میڈیم ویو اور شارٹ ویوٹرانس میٹرکی پہنچ ایف ایم سے اگر چہ کئی گنا زیادہ ہوتی ہے لیکن موسمی حالات اس کی پہنچ اور سگنلز کے معیار پر کافی اثر ڈالتے ہیں۔اور ان کی نشریات کو سننے کے لئے ریڈیو سیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ موبائل پر نہیں سنے جاسکتے(اس طرح کے ٹرانس میٹراس وقت ضروری ہوجاتے ہیں جب آپ نے زیادہ فاصلہ تک موجود آبادی کو یا پھردور اور بکھری ہوئی آبادی کو کور کرنا ہو)۔ بھارت سرحدکے قریب چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں آباد پاکستانیوں کی اُس خواہش کا استعمال کرنا چاہتا ہے جو ایف ایم سننے کے حوالے سے اُن علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ نوجوانوں میں یہ خواہش زیادہ شدت سے ہے جن کے پاس خصوصاً اور باقی عمر کے افراد کے پاس عموماً موبائل فون سیٹس کی موجودگی پاکستان کے ان علاقوں میںایف ایم ریڈیو سننے میںمزید سہولت فراہم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاک بھارت سرحد سے ہٹ کر بھی بھارت ہمارے دیگر علاقوں کو ٹارگٹ کر رہا ہے جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ آل انڈیا ریڈیو نے اپنی بلوچی سروس کو ازسر نو مرتب کرتے ہوئے اس کے لئے نئی ویب سائیٹ اور ایپ متعارف کروائی ہے۔ روزانہ ایک گھنٹہ دورانیہ کی یہ سروس میڈیم ویوز پر بھی پیش کی جاتی ہے۔

اس تمام صورتحال میں ضروری ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا ریڈیو پاکستان اس قابل ہے کہ وہ بھارت کی اس صوتی جارحیت کا مقابلہ کرسکے۔اعداو شمار بتاتے ہیںکہ اس وقت پورے ملک میں ریڈیو پاکستان کے براڈکاسٹنگ ہاوسز/ اسٹیشنز کی تعداد 32ہے(براڈکاسٹنگ ہاؤس / اسٹیشن سے مراد ریڈیو پاکستان کی وہ عمارت جہاںاسٹوڈیو کی سہولت موجود ہو اور وہاں سے ایک یا ایک سے زائد چینلز کی نشریات پیش کی جاتی ہوں)۔ ریڈیو پاکستان کے پاس ٹرانسمیٹرزکی تعداد74ہے۔ جن میں سے22 میڈیم ویوز، 02 شارٹ ویوز اور 50 ایف ایم کے ہیں۔بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول اوربارڈرسے قریب اس وقت ریڈیو پاکستان کے05 اسٹیشزمیر پور، مظفر آباد ، سیالکوٹ، نارووال اور لاہور میںموجودہیں۔یہ پانچ اسٹیشنز مجموعی طور پر13ٹرانس میٹرز کی مدد سے نشریات پیش کر رہے ہیں۔

جن میں 03 میڈیم ویوز کے اور 10ایف ایم کے ٹرانس میٹرز ہیں۔ان اسٹیشنز میں میرپور میں 100 کلوواٹ کا میڈیم ویو کا ایک ٹرانس میٹراور 2 کلوواٹ فی کس کے دو ایف ایم ٹرانس میٹرکام کر رہے ہیں۔ جبکہ مظفر آباد میںایک کلوواٹ کاصرف ایک ایف ایم ٹرانس میٹرفعال ہے۔ یعنی آزاد جموں و کشمیر کی حدود میں ریڈیو پاکستان کے 2 اسٹیشنز اور 04ٹرانس میٹر کام کر رہے ہیں۔ریڈیو پاکستان کے سیالکوٹ اسٹیشن پر اس وقت ایف ایم کا ایک ٹرانس میٹر موجود ہے جس کی طاقت02کلوواٹ ہے۔ نارووال ریڈیو اسٹیشن پر ایک ایک کلوواٹ کے دو ایف ایم ٹرانس میٹر کام کر رہے ہیں۔جبکہ لاہور میںمیڈیم ویوز کے دو ٹرانس میٹرنصب ہیں جن کی طاقت 100 کلوواٹ فی کس ہے۔

جبکہ 5 کلوواٹ کے ایک ٹرانس میٹرکے ساتھ ساتھ اڑھائی اڑھائی کلوواٹ کے دو اور02 کلوواٹ کا ایک ٹرانس میٹرکام کر رہا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان ٹرانس میٹرز کی اکثریت بلکہ ملک بھر میں موجود ریڈیو پاکستان کے ٹرانس میٹرز کی بھی اکثریت کوان کی پوری طاقت پر نہیں چلایا جاتا کیونکہ وہ پرانے ہونے کی وجہ سے اس قابل ہی نہیں کہ اُنھیں پوری طاقت پر چلایا جائے۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس میڈیم ویو کا سب سے طاقت ور ٹرانس میٹر 500 کلوواٹ تک کا ہے۔ جو250 کلوواٹ کے دو ٹرانس میٹرز کو ملا کر بنا یا گیا ہے۔

اورایف ایم کے زیادہ سے زیادہ ٹرانس میٹرکی ہمارے ہاں طاقت 5 کلوواٹ ہے۔ جبکہ ہمارے مشرقی ہمسائے میں ان ٹرانس میٹرزکی زیادہ سے زیادہ طاقت بالترتیب ایک ہزار اور 20 کلوواٹ تک ہے۔تیسرا المیہ یہ ہے کہ جو ٹرانس میٹرخراب ہوتا ہے اُسے ٹھیک کرنے یا پھر تبدیل کرنے کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کو فنڈز کی شدید قلت کا سامنا رہتا ہے۔ اور یوں چند میڈیم ویو،شارٹ ویو اور ایف ایم ٹرانس میٹرزخراب ہونے کے بعد بند ہوچکے ہیں۔چوتھاا المیہ یہ کہ ہمارے ہاں سرحد کے قریب ٹرانس میٹرزکے ریلے سینٹرز بنانے پر کوئی کام ہوا ہی نہیں۔جہاں ریڈیو اسٹیشنز ہیں اکثر ٹرانس میٹرزبھی وہیں ہیں۔جبکہ ہمارا پڑوسی مختلف علاقوں میں ریڈیو کے ریلے اسٹیشنز قائم کرکے اپنی پہنچ میں وسعت لا رہا ہے۔

ریڈیو پاکستان کو درپیش ان المیوں اور دیگر مسائل کی بنیادی وجہ ہمارے منصوبہ سازوں اور فیصلہ سازوں کا اس مفروضے کی قید میں جکڑے ہونا ہے کے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں ریڈیو کون سنتا ہے؟ تاہم ایسا سوچتے ہوئے وہ ان حقائق کو بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی صرف22 فیصد آبادی (44.61 ملین پاکستانی) انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ 18 فیصد آبادی (37 ملین) سوشل میڈیا کے Active users  ہیں(ماخذ: گلوبل ڈیجیٹل رپورٹ2019 )۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں ریڈیو لسننگ کے رجحانات کو جانچنے کی باقاعدہ کوئی سائنٹفک کوشش کی ہی نہیں جاتی۔اس لئے ہمارے کرتا دھرتا ریڈیو کو ایک مرتا ہوا میڈیم خیال کرکے یہ رائے بنا چکے ہیں کہ پاکستان میں اب ریڈیو سنا نہیں جاتا۔اس رائے کو اگر حقیقت مان لیا جائے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ملک میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ 142 پرائیویٹ کمرشلایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ کا عمل بھی جاری ہے۔ ہمارا کاروباری طبقہ بہت عقل مند طبقہ خیال کیا جاتا ہے ۔ اگر ملک میںریڈیو مقبول نہیں رہا تو پھر ریڈیو پر اشتہارات جن کی مالیت دو ارب کے لگ بھگ ہے کیوں دیئے جاتے ہیں؟ اگرریڈیو مقبول نہیں تو پرائیویٹ سیکٹر نے ایف ایم انڈسٹری میں 1000 ملین روپے کی انویسمنٹ کیوں کر رکھی ہے؟

اس کے علاوہ بدقسمتی سے ہماری تقریباً ہر آنے والی حکومت ریڈیو پاکستان جیسے اہم قومی ادارے کو ایک مردہ ادارے سمجھ کر اس سے جان چھڑانے والا طرز عمل اپنا ئے رکھتی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ ادارہ کما تا نہیں اس لئے خزانے پر بوجھ ہے۔ تو پھر سرکاری سکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال، پولیس،عدلیہ وغیرہ کون سا کماکر حکومت کو دیتے ہیں ۔یہ تمام وہ ادارے ہیں جو قوم کو Serve کرتے ہیں۔ ان کا کام کمانا نہیں بلکہ قوم کو بنانا،اُس کی آبیاری کرنا اور ملک و قوم کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔

ہر ریاستی ادارہ معاشرے میںاپنی ایک خاص ضرورت رکھتا ہے ۔ جسے کوئی دوسرا پورا نہیں کرسکتا۔ جب یہ ادارے اپنے فرائض کو پورا کرتے ہیں تو کچھ کی آؤٹ پُٹ ظاہری طور پر نظر آتی ہے اور کچھ کی آؤٹ پُٹ نظر نہیں آتی بلکہ محسوس کی جاتی ہے۔ ریڈیو پاکستان بھی ان اداروں میں شامل ہے جس کی آؤٹ پُٹ صرف محسوس کی جاسکتی ہے ظاہری طور پردیکھی نہیںجاسکتی۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں جو دِکھتا ہے وہی بکتا ہے۔اس کے برعکس دنیا بھر میں کہیں بھی سرکاری ریڈیو کا کام کمرشل بزنس حاصل کرنا نہیں ہے۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، ڈوئچے ویلے، سی آر آئی، این ایچ کے اور آل انڈیا ریڈیو وغیرہ کی ترجیحات میں کمرشل بزنس کے حصول میں سرگرم رہنا قطعاً شامل نہیں بلکہ ان کی ترجیحات میںصرف ریاستی ذمہ داریوں کی ادائیگی ہے اس لئے ان کی مالی ضروریات متعلقہ حکومتیں پوری کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں جو بھی حکومت آتی ہے وہ یہی کہتی ہے کہ ریڈیو پاکستان کماتا نہیں۔ چلیں ریڈیو پاکستان اپنی قومی ذمہ داریاںچھوڑ کر پوری دنیا کے سرکاری ریڈیو کے اداروں کے برعکس کمانے کی کو ئی نئی روایت ڈال لیتا ہے۔لیکن جب ادارے کے ٹرانسمیٹرہی پرانے ہوں۔ لوڈشیڈنگ میں جنریٹر کیلئے فیول نہ ہو۔اسٹوڈیو کے اندر اور باہر جو ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہو وہ بوسیدہ ہو۔ جو چیز خراب ہو جائے اُسے ٹھیک کرنے کے فنڈز نہ ہوں۔پروگرامنگ کے لئے پیسے نہ ہوں۔ حاضر سروس ملازمین اور پینشنرز مسائل سے دوچار ہوں تو ادارہ کیسے کمائے؟ہماری حکومتیں ریڈیو کے حوالے سے اپنے حصے کا کام تو کرتی نہیں لیکن ریڈیو پاکستان سے کمائی کی خواہاں رہتی ہیں۔

ہم اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ریڈیوپاکستان جیسے ادارے کی ضرورت اور اہمیت کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔جبکہ ہمسایہ ملک ریڈیو کے میڈیم کو اپنے مزموم مقاصدکے لئے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر چکا ہے کیونکہ بھارت کے پالیسی ساز ریڈیو کی طاقت کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم آل انڈیا ریڈیو پربطور وزیراعظم ’’ من کی بات ‘‘ نامی پروگرام خودHost کرتے ہیں۔

ریڈیو پاکستان غلط پالیسیوں کا شکار تب سے ہونا شروع ہوا جب ریڈیو میں غیر پیداواری شعبوں میں پیداواری شعبوں کی نسبت زیادہ بھرتیوں کا آغاز کیا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کے موجودہ مستقل ملازمین کی مجموعی تعداد کا 51.6 فیصد (47 فیصد ایڈمنسٹریشن اور4.7 فیصد اکاؤنٹس) کا تعلق ایڈمنسٹریشن اور اکاؤنٹس جیسے غیر پیداواری شعبوں سے ہے ۔ یقینا کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے ان شعبوں کی ضرورت اور اہمیت کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ان شعبوں میں اتنی زیادہ تعداد کو بھرتی کر لیا جائے کہ وہ پیداواری شعبوں میں موجود افرادی قوت کو اقلیت میں بدل دیں۔ ریڈیو پاکستان کا کام تفریح، معلومات اور اطلاعات پر مبنی پروگرام پیش کرنا ہے جن کی تیاری اور پیشکش شعبہ پروگرام کرتا ہے۔

یوں ریڈیو میں پروگرامنگ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر شعبہ جات میں نیوزسیکشن کی ذمہ داری خبروں کی تیاری اور پیشکش ہے اس لئے پروگرامنگ کے بعد شعبہ نیوز کو ریڈیو میں اہمیت حاصل ہے۔لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت ریڈیو پاکستان میں موجودمستقل ملازمین کاصرف 11.6 فیصد پروگرام اور 3.3 فیصد نیوز کے اسٹاف پر مشتمل ہے۔جبکہ وہ شعبہ جات جنہوں نے پروگرام اور نیوز سیکشن کی صرف دفتری امور میں معاونت کرنی ہے انکے ملازمین کی تعداد پروگرام اور نیوز کی تعداد سے تین گنا زیادہ ہے۔ کیا دنیا بھر میںمیڈیا کے کسی بھی ادارے میں ایسا ہے؟اس کے بعد دوسری نمایاں غلط پالیسی سیاسی بنیادوں پر اور غیر ضروری طورپر، PC-Iکی منظوری کے بغیر ملک کے طول و عرض میں کئی اسٹیشن اور چینلز کے کھولے جانے کی صورت میں سامنے آئی۔ جن کی کوئی فیزیبلٹی سٹڈی ، ایڈوانس پلاننگ یا فنانس منسٹری کی منظوری بھی نہیں لی گئی۔

موجودہ جاری اخراجات اورہیومن ریسورس سے نئے اسٹیشنوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ادارے کے موجودہ وسائل پر بوجھ آن پڑا ۔ اس بوجھ میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ادارے میں سیاسی دباؤ ، سفارشی بنیادوں اور ذاتی پسندپر لوگوں کو عارضی حیثیت میںرکھنے کا عمل شروع ہوا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ادارے میں عارضی ملازمین کی تعداد ساڑھے سات سو کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔جو موجودہ مستقل ملازمین کی تعداد کے 30 فیصد کے برابر ہیں۔ ان عارضی ملازمین کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح پالیسی تشکیل نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے اُنھیںسیلری ہیڈ کے بجائے پروگرام ہیڈ کی اُس رقم سے تنخواؤں کی مد میں ادائیگی کی جا رہی جو دراصل فنکاروں ،کمپیئرز، اناؤنسر، گلوکاروں، لکھاریوں اور Rjsکے لیے مختص ہے جس کی وجہ سے ریڈیو پاکستان میں پروگرام پروڈکشن کی سرگرمیاں تقریباً منجمد ہوکر رہ گئی ہیں اور شعبہ پروگرام کی کارکردگی شدید طور پر متاثر ہوئی۔

گزشتہ مالی سال کے دوران پروگرام اخراجات کے لیے دستیاب مجموعی طور پر 210ملین کا تقریباً80فیصد یعنی 16کروڑ 60 لاکھ روپے عارضی ملازمین کی تنخواہوں کی نذر ہوگیا۔ ان عارضی ملازمین کو دی جانے والی تنخواہ کا تعین اور اضافہ کسی اصول کے تحت نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ ادارے کی مینجمنٹ کے بعض اقدام بھی ادارے پر معاشی بوجھ کا باعث بنے۔ مثلاً 2015میںادارے میں پروگرام ، نیوزاور انجینئرنگ کے شعبوں میں بھرتیاں کی گیں۔ لیکن تاحال ان بھرتیوں کی فنانس ڈویژن سے منظور ی نہیںلی گئی۔جس کی وجہ سے رکھے گئے نئے اسٹاف کی تنخواہوں اور مراعات کے لئے اضافی فنڈز نہیں مل پارہے اور ادارے کو اپنے بجٹ سے ہی ان اخراجات کو پورا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس کے علاوہ ادارے میں مختلف شعبہ جات کے درمیان مراعات اور ترقی کی بھی کوئی یکساں پالیسی نہیں۔ باقی شعبوں میں اَپ گریڈیشن کی گئیں، اُن کے اسکیل بڑھائے گئے، اسپیشل الاؤنس جاری کیے گئے۔ اس بناء پر پروگرام افسران کی تنخواہیں دیگر شعبہ جات سے کم ہیں۔ شعبہ پروگرام کی مروجہ ترقیاںاکثر غیر ضروری انتظامی قدغنوں کا شکار رہتی ہیں جس کی وجہ شعبہ میں ترقیوں کی رفتار باقی شعبہ جات کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ پی بی سی رولز کے تحت ہر تین ماہ میںبورڈ کی ایک میٹنگ ضرور ہونی چاہیئے تاکہ فوری نوعیت کے اور اہم فیصلوں میں تاخیر نہ ہو۔لیکن ریڈیو پاکستان کے بورڈ کی میٹنگز تواتر کے ساتھ منعقد نہیں کی جاتیں۔ جبکہ ریڈیو پاکستان شعبہ جات کے ڈائریکٹرز کی ایک یا ایک سے زائدپوسٹوں (خاص کر ڈائریکٹر پروگرامزکی پوسٹ)کو اکثر غیر ضروری طور پر طویل عرصہ کے لئے خالی رکھا جاتا ہے(اس وقت بھی ڈائریکٹر پروگرامز کی پوسٹ خالی ہے)۔جس سے شعبہ کی آواز پی بی سی کے اس اہم پلیٹ فارم تک نہیں پہنچ پاتی۔

اب وقت آچکا ہے کہ ہمیں اس بات کو تعین کرلینا چاہیئے کہ آیا ریڈیو پاکستان کا کام کمرشل بزنس کا حصول ہے یا اُسے اپنی ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ اور اس کے مسائل کو حقیقی بنیادوں پر کیسے حل کرنا ہے۔ کیونکہ آج بھی یہ ہی وہ ادارہ ہے جس کا حوالہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے عوامی جلسوں میں دیتے ہیں۔اور یہی ادارہ بھارت کی صوتی جارحیت کا حقیقی معنوں میں مقابلہ کر سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔