پی ایم ایل ن کی انوکھی منطق

محمد اعظم عظیم اعظم  ہفتہ 11 مئ 2019
نوازشریف کو جیل تک چھوڑنے میں کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نوازشریف کو جیل تک چھوڑنے میں کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جہاں قومی لٹیرے اور بدمعاش دولت کے زور پر باعزت، شرفا اور قابل احترام مانے جائیں اور جہاں جھوٹ سچ اور سچ جھوٹ لگنے لگے؛ تو وہاں کرپٹ حکمران اور سیاستدان ہی امربیل کی طرح پھلتے پھولتے ہیں۔ عوام کے دامن بے آرامی اور بے سکونی سے لبالب ہوتے ہیں۔ عوام کے چہروں سے خوشیاں روٹھ کر کوسوں دور چلی جاتی ہیں۔ غریبوں کی دہلیز پر بھوک وافلاس کے ڈیرے ہوتے ہیں۔

اِس حال میں بھی اگر عوام کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنا مسیحا اور حاجت روا سمجھ کر انہیں سروں پر بٹھائے پھریں، ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اندھیرا ہی آتا ہے اور ماتھے پر محرومیوں کے سیاہ دھبے مقدر بن جاتے ہیں۔

آج پاکستانی قوم کو لٹیرے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے چھٹکارا پانے کے لیے دانشمندانہ فیصلہ خود کرنا ہوگا؛ اور اپنا مقدر اپنے ہاتھوں بنانا ہوگا۔ ورنہ قومی لٹیرے اِسے اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتے رہیں گے۔

گزشتہ دِنوں ایک مرتبہ پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف ضمانت کی مدت پوری ہونے کے بعد رات گئے کارکنوں کے جلوس، ڈھول کی تھاپ اور رقص و بھنگڑوں کے سائے میں کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے۔

اِس پیش منظر میں ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ن لیگ والوں کو خبروں میں زندہ رہنے کا ڈھنگ خوب آتا ہے۔ بس انہیں کوئی بہانہ مل جائے، پھر دیکھیں ن لیگ والے خبروں میں کیسے سرگرم رہتے ہیں۔ اس واقعے کو ہی دیکھ لیں کہ جب ایک لمبے عرصے خودساختہ جلاوطنی کے بعد گرفتاری کےلیے نوازشریف کی وطن واپسی ہوئی، تب ن لیگ کے قائد کو بڑی توقعات تھیں کہ اِن کے استقبال کےلیے ہمدردوں کا سمندر امڈ آئے گا، اور کارکنان اِنہیں خوش آمدید کہنے کےلیے رن وے تک پہنچ چکے ہوں گے، ہر طرف ن لیگ کے کارکنوں کے سر ہی سر نظر آرہے ہوں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ سب ن لیگ کے قائد کی توقعا ت کے برخلاف ہوا ۔جس سے انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ کیوں کہ زمین اور فلک والوں نے دیکھا کہ نوازشریف کی توقعات کے برخلاف ن لیگ کے کارکن انہیں ایئرپورٹ پر خوش آمدید کہنے نہیں پہنچ سکے۔ اُس وقت بھی ن لیگ والوں نے اِس معاملے کو اچھال کر خود کو خبروں میں زندہ کیے رکھا۔ حالانکہ ساراقصور ملک میں موجود ن لیگ کی قیادت اور اِن کے کارکنان کا تھا کہ یہ خود سے اپنے قائد نوازشریف کو ایئرپورٹ پر لینے کے لیے نہیں پہنچ سکے تھے۔ مگر اپنی نااہلی کا ملبہ حکومت کے سر پر ڈال دیا اور اپنی نالائقی کا رونا اِس طرح روتے رہے کہ جیسے اِنہیں ایئرپورٹ جانے سے حکومت نے روک رکھا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ن لیگ والے کسی انجانے خوف کی وجہ سے خود نہیں چاہتے تھے کہ یہ اپنے قائد نوازشریف کا استقبال ایئرپورٹ پر جمع ہوکر کریں۔

بہرکیف، گزشتہ دِنوں کوٹ لکھپت جیل نوازشریف کیسے پہنچے؟ یہ منظر بھی چشم فلک نے دیکھا کہ اس میں ن لیگ والوں کی عجیب و غریب اور انوکھی منطق رہی ہے۔ گویا اس مرتبہ پارٹی کارکنان نے پچھلی ساری کسر پوری کرلی، جب پہلے روزے کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد وسابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کی سزا پر سپریم کوٹ کی جانب سے دی گئی چھ ہفتوں کی ضمانت کی مدت ختم ہونے پر ان کے گھر جاتی امرا سے دوبارہ قیدی بنانے کےلیے ن لیگ کے کارکنان تزک واحتشام سے اپنے قائد کو کوٹ لکھپت جیل چھوڑ کرگئے۔

حالانکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ ن لیگ والوں نے اپنے قائد کے ساتھ کیا۔ جبکہ ہر زمانے کی ہر تہذیب میں تو یہ ہوتا آیا ہے کہ کارکن اپنے لیڈر کو جیل سے نکالنے (رہائی دلانے) کےلیے جیل آتے ہیں۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پارٹی کے مرکزی عہدیدار اور کارکنان ضمانت کی مدت ختم ہونے پر اپنے قائد کو ناچ گا کر خود جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے کو چھوڑ کرجائیں۔ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ پاکستان میں پیش آیا جب پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی مدتِ ضمانت ختم ہونے پر ان کے کارکن خوشی خوشی انہیں خود کوٹ لکھپت جیل چھوڑ کرگئے۔

راقم الحروف کے نزدیک اپنے قائد سے اِس ستم ظریفی پر ن لیگ والوں کا چیخ چیخ کر دنیا کو اس بات کا یقین دلانے کا عمل ضرورت سے کہیں زیادہ قابل افسوس ہے۔ نوازشریف کو جیل تک پہنچانے کےلیے پچاس ہزار سے زائد اور ایک لاکھ سے ذرا کم کارکنوں کا ہجوم اپنے قائد کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر کوٹ لکھپت جیل چھوڑ کر کیسے اور کیوں گیا؟ اِس عمل کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ نوازشریف کو جیل تک چھوڑنے میں نہ صرف کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی بلکہ ن لیگ والے اِس پر بھی بضد ہیں کہ سابق وزیراعظم جاتی امرا سے جیل روانہ ہوئے تو والدہ کی دعاؤں کے ساتھ رخصت ہوئے، اِن کی بیٹی مریم نواز بھی ساتھ تھیں، قائد کے بھتیجے حمزہ شہباز خود گاڑی ڈرائیو کررہے تھے۔ گاڑی کا جگہ جگہ استقبال کیا گیا اور کوٹ لکھپت جیل کی جانب رواں دواں نوازشریف کے قافلے پر منوں ٹنوں پھول کی پتیاں نچھاور کیے جانے کا عمل بھی جاری رہا۔

آج جسے ن لیگ والے اپنا بڑاتاریخی کارنامہ گردان رہے ہیں، دراصل اِن کا یہ کارنامہ یا عمل اپنے قائد سے بیزاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بس سمجھ سمجھ کی بات ہے، کوئی نہ سمجھے تو اس کی سمجھ پر افسوس کے سِوا کیا کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح نوٹوں کی گڈی ایک جیب سے دوسری جیب میں جاتے ہی رکے ہوئے کام ہوجاتے ہیں۔ اِسی طرح ن لیگ اور پی پی پی کے قائدین لوٹی ہوئی قومی دولت واپس کردیں تو یہ سب خود کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے اور کال کوٹھری سے اپنی جانیں چھڑا سکتے ہیں۔ ورنہ اب یہ چاہے کتنی ہی نوٹنکی اور ریلیاں لے کر جیل جانے کی جتنی بھی ڈرامہ بازی کرلیں، لوٹی ہوئی قومی دولت وطن واپس آنے تک ساری پاکستانی قوم انہیں قومی مجرم ہی جانے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔