ترکی کے ڈرامے۔۔۔ معیشت سے سیاست تک

سید بابر علی  اتوار 12 مئ 2019
یہ تمثیلیں جغرافیائی سیاسی تصور تبدیل کرنے کی حکمت عملی ہے، جس کے دور رس اثرات مرتب ہورہے ہیں

یہ تمثیلیں جغرافیائی سیاسی تصور تبدیل کرنے کی حکمت عملی ہے، جس کے دور رس اثرات مرتب ہورہے ہیں

خلافتِ عثمانیہ دنیا کی وسیع ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ تین براعظموں پر محیط یہ خلافت چار سوسال تک 72 مختلف اقوام پر حکم رانی کرتی رہی۔

خلافت عثمانیہ میں یورپ سے البانیا، بوسنیا ہرزے گووینا، افریقی خطے سے سے الجیریا، مصر، اریٹیریا، صومالیہ، سوڈان، لیبیا، ایشیائی خطے سے فلسطین، سعودیہ عربیہ، عراق شام، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل تھے، ہندوستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور خان آف ترکک بھی خلافت عثمانیہ کے اطاعت گزار تھے۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں مشترکہ اسلامی تاریخ کی وجہ سے ترکی کا تاریخی اور ثقافتی پس منظر پچاس سے زائد ملکوں کے ثقافتی اور سماجی روابط کا شان دار مظہر ہے۔

علاوہ ازیں اس مشترکہ پس منظر سے جدید ترکی کو اپنی معاشی، ثقافتی اور سماجی اقدار کو فروغ دینے میں بہت مدد ملی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ترکی کی خلافت عثمانیہ کے ورثے نے دنیا بھر میں ترک عوام کو مسلم اقوام سے مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کبھی خلافت عثمانیہ کو ایک مضبوط اور مسلمانوں کی محافظ مسلم ریاست کے طور پر جانا جا تا تھا۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جدید ترکی کے عوام خلافت عثمانیہ دور کی مختلف نسلوں کے اجداد میں سے ہیں، اور کئی مسلم اقوام خلافت عثمانیہ کی وجہ سے ہی ترک عوام کے ساتھ اپنی قربت کو ظاہر کرتی ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد تقریباً ایک صدی کی تنہائی کے بعد ترکی نے مسلم ممالک سے سماجی اور ثقافتی روابط کو دوبارہ بحال کرنا شروع کیے۔

گذشتہ ایک دہائی میں ترکی نے اپنی کثیرالجہتی پالیسیوں کو مضبوط بناتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے دور کے اپنے اتحادیوں افریقا، مشرق وسطی اور ایشیا کے کچھ ممالک بشمول انڈونیشیا اور ملائیشیا کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ مستحکم کرنا شروع کردیے۔ ترکی کی ان پالیسیوں نے ان اقوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنایا۔ خلافت عثمانیہ سے وراثت میں ملنے والی مسلم اقوام کی مشترکہ خصوصیات نے ترکی کو زندگی کے کئی شعبوں بشمول دفاع اور حکمت عملی دیگر کئی شعبوں میں مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔

ترکی کی ایشیائی ممالک میں موجودگی کا آغاز خلافت عثمانیہ میں اس وقت ہوا، جب مغل سلطنت، بہمنی سلطنت (اس سلطنت کی بنیاد سلطان محمد بن تغلق کے نائب ظفر خان نے دکن کے سرداروں کے ساتھ مل کر رکھی اور علاؤ الدین حسن گنگو بہمنی کا لقب اختیار کیا، یہ سلطنت صرف اٹھانوے سال ہی برقرار رہ سکی) اور آچے سلطنت (سولہویں اور سترہویں صدی میں انڈونیشیا کے آج کے صوبے آچے میں قائم تھی، اس دور میں یہ سلطنت علاقائی طاقت کی مظہر تھی) کے ساتھ بہتر تعلقات بنائے۔

ایشیا میں خلافت عثمانیہ آچے سلطنت کی جانب سے آباد کاروں کے خلاف مدد کی درخواست کی وجہ سے قائم ہوئی، کیوں کہ اس وقت خلافت عثمانیہ کو مسلمانوں کی محافظ تصور کیا جاتا تھا۔ اس دور میں برصغیر کے مسلمانوں کی مدد اور وفاداری نے ایشیا میں خلافت عثمانیہ کی ایشیا میں موجودگی کو مستحکم کیا، مشترکہ مذہبی اور سماجی اثرات کی وجہ سے یہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے آج ترکی کے تعلقات انڈونیشیا، فلپائن، چین، انڈیا، پاکستان ، بنگلادیش، سری لنکا، کمبوڈیا اور میانمار (پرانا نام برما) کے ساتھ بہت اچھے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ترکی اور ترک لوگوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

کچھ لوگ ترکی کو حکم راں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اور اس کے سربراہ طیب اردغان کی وجہ سے جانتے ہیں، لیکن پاکستان میں ترکی کی شناخت کا اہم وسیلہ تاریخی اور ثقافتی ڈراموں اور ان کے کرداروں کے نام ہیں۔ پاکستان میں بہت سے ترک ڈرامے اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر ہوئے لیکن 2012 میں نشر ہونے والے ڈرامے ’عشق ممنوع‘ نے کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کردیے۔ اس مشہور رومانوی ڈرامے میں ایک خوب صورت جوان جوڑے بہلول اور ِبتر کی محبت دکھائی گئی ہے، جب کہ ِبتر کی شادی اس نوجوان کے چچا کے ساتھ طے ہے۔

اس ڈرامے میں بہلول کے کردار کو ترکی میں ’اسلامی بریڈ پٹ‘ کے لقب سے مشہور اداکارکیوانک تاتلیتغ نے ادا کیا، تاریخ اور سلیقے سے دکھائے گئے رومانوی مناظر سے بھرپور اس ڈرامے کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں دل چسپی کے ساتھ دیکھا گیا۔ اسی طرح 2008 ء میں ’غمز‘ کے نام سے بننے والے ڈرامے نے بھی مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا، اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی آخری قسط کو دنیا بھر کے دس کروڑ سے زائد ناظرین نے دیکھا تھا۔

ایشیا اور عرب ممالک میں بہت سے ٹی وی چینلز پر ترکی ڈرامے پیش کیے جار ہے ہیں۔ خصوصاً عرب ممالک میں انہیں پسند کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر ترک ڈراموں میں خاندانی مسائل کو پیش کیا گیا ہے جو کہ اپنے آپ میں بڑا چیلنج ہے۔ ترک ڈراموں کی کام یابی میں بہترین پروڈکشن اور خوب صورت لوکیشنز کا بھی اہم کردار ہے۔ ترک ڈرامے اس وقت ترکی کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں پیدا ہونے والی کاروباری مسابقت کے باوجود دنیا بھر میں ترک ڈراموں کے ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب ترک ناظرین لاطینی امریکا سے ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے سو سے زائد ممالک بشمول یورپ اور شمالی امریکا کے ٹی وی چینلز پر ڈیڑھ سو سے زائد ترک ڈرامے دیکھے جارہے ہیں۔ ان ڈراموں کی وجہ سے ترکی کو سالانہ برآمدات کی مد میں ساڑھے تین سو ملین ڈالر کا زرمبادلہ مل رہا ہے، اس میں ان ڈراموں کی وجہ سے ترکی کے خوب صورت مقامات دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی وجہ سے ملنے والا زر مبادلہ شامل نہیں ہے۔

لیکن، تُرک حکومت کی ترجیح انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے ہونے والے منافع سے زیادہ جغرافیائی سیاست کے فروغ پر ہے۔ ڈراموں کے ساتھ ترکی کے نام کی ’برانڈنگ‘ ہونے کی وجہ سے ترکی کو ملکی اور غیرملکی سطح پر اپنا جیو پولیٹیکل (جغرافیائی سیاسی تصور) امیج بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے ۔ جغرافیائی سیاست کے تصور کی بنیاد اس بات پر منحصر ہے کہ انٹرٹینمنٹ اور خوشی کے نام پر کیا دکھایا جار ہا ہے۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں جغرافیائی سیاست کرنے کی سب سے بڑی مثال امریکا کی ہالی وڈ کی جنگی فلموں میں ویت نام کی شمولیت ہے۔

امریکا کا انٹرٹینمنٹ کا شعبہ اس طریقۂ کار کو اختیار کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں سے ویت نام میں امریکی شکست کے تاثر کو زائل کرنے میں کافی حد تک کام یاب بھی رہا، امریکا نے اسی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے ترکی کے بین الاقوامی امیج کو بھی متاثر کیا۔ ترکی کے امیج کو سب سے زیادہ متاثر Billy Hayes کی1978 ء میں بننے والی فلم ’مڈنائٹ ایکسپریس‘ نے کیا۔ امریکا کی طرح ترکی بھی اپنے جغرافیائی سیاسی تصور کو بہتر بنانے کے لیے اپنے انٹرٹینمینٹ انڈسٹری کو استعمال کررہا ہے، جس سے برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ترکی کا بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی تصور بھی بہتر ہورہا ہے۔ یہ صنعت نہ صرف مالی فوائد دے رہی ہے بلکہ ترک قوم کے سیاسی بیانیے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر بھی کر رہی ہے۔

تُرک سنیما نے ابتدائی طور پر اپنی ثقافتی اور جغرافیائی سرحدوں کو 2000ٗ ء کے وسط میں پار کرنا شروع کیا، 2006ء میں ’ویلی آف دی وولف عراق‘ اور2000ء میں ’وولز فلسطین‘ کے نام سے ٹیلی ویژن سیریز کا آغاز کیا جس نے مشرق وسطی اور فلسطین کے بارے میں طویل عرصے سے موجود جغرافیائی سیاسی تصورات کو تبدیل کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ہلچل پیدا کرنے کا آغاز کیا۔ اس مووی سیریز نے نائن الیون سے پہلے ہالی وڈ کی جانب سے بنائے گئے جغرافیائی سیاسی بیانیے کو چیلینج کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موضوع پر بننے والی فلموں اور سیریز کو متنازع بنادیا، جن میں اشارتاً مسلمانوں اور مشرق وسطی کو ممکنہ طور پر دہشت گرد اور ان کی جغرافیائی حدود کو تشدد اور افراتفری سے بھرپور ظاہر کیا گیا تھا۔

’ویلی آف دی وولف عراق‘ کو دنیا کے منظرنامے پر لانے کا مقصد مسلمانوں کے بارے میں مغربی تصورات کا تدارک کرنا تھا۔ اس فلمی سیریز میں عراق جنگ اور امریکا کی عراقی تیل کے حصول کے درمیان ربط اور مشرق وسطی میں ہر صورت اسرائیلیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے امریکی ہتھکنڈوں کو ایکسپوز کیا گیا۔ ’ویلی آف دی وولف عراق‘ نے عراق میں امریکی موجودگی کی ازسر نو تشکیل کی۔ اس سیریز کے اسکرین پر ظاہر ہوتے ہی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشرق وسطی کے بارے میں پالیسیوں پر تنقید اور ستائش دونوں ہی کی گئیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس فلم کے ذریعے ترکی کو دنیا کی جغرافیائی سیاست کے منظرنامے میں ایک ایسے علاقائی کردار کے طور پر داخل ہونے کا موقع ملا جو مشرق وسطی کی سیاسی سمجھ بوجھ پر تسلط کو چیلینج کر سکتا ہے۔

جغرافیائی سیاسی تصور کو بہتر بنانے کے لیے تُرک انٹرٹینمنٹ  صنف کا دوسرا دور 2014 سے شروع ہوا جو اب تک جاری ہے، جس میں ترکی کا نام سرحدوں کو پار کرکے مشرق وسطی سے شمالی امریکا کے لاکھوں گھروں میں پہنچ چکا ہے۔ اس دور میں یہ ٹی وی ڈرامے ترکی کے خلاف بنائے گئے تصورات کو تہہ بالا کرنے سے کہیں زیادہ کام کر رہے ہیں۔ ترکی کے ٹی وی ڈراموں میں مختلف کہانیاں اور پلاٹ استعمال کیے جا رہے ہیں، جن سے نہ صرف لاکھوں ناظرین محظوظ ہورہے ہیں بلکہ یہ ڈرامے ناظرین کو دنیا کی سیاست کا متبادل فرق بتانے کے ساتھ ساتھ جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں ترک بیانیے کے فروغ کا کام بھی کر رہے ہیں۔ ترکش ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن کارپوریشن (ٹی آر ٹی) کی معاونت سے تیار کی جانے والی ٹی وی سیریلز تاریخی واقعات اور تفریح سے بھرپور ہیں جس نے ترکی کے جغرافیائی سیاسی تصور کو بدل دیا ہے۔ ’آخری شہنشاہ‘ ، ’سپاہی کُت ال امارہ‘ اور ان جیسے تاریخی پس منظر میں بننے والے کتنے ہی ڈرامے نہ صرف خلافت عثمانیہ کی شان و شوکت کو بیان کرتے ہیں بلکہ نئے جغرافیائی سیاسی تصورات، اور عوام کے لیے قومی بیانیے کو دوام بخش رہے ہیں۔

ڈراموں کی اس سیریز میں تاریخی اور جغرافیائی واقعات کو اس خوب صورتی کے ساتھ ڈھا لا گیا ہے جو کہ روایتی طریقے سے ترکی کی تاریخ اور جغرافیائی سیاست پڑھنے سے کسی طور مشابہت نہیں رکھتی۔ مثال کے طور پر ڈراما سیریز ’ریاست عبدل حامد ‘ میں خلافت عثمانیہ دور کے متنازعہ وقت کو پیش کرتے ہوئے عبدل حامد دوئم (جنہیں مغرب میں کزل سلطان یا سرخ بادشاہ کے نام سے جانا جاتا ہے) کی تاریخی کہانی بیان کی گئی۔ اس سیریز میں ان کی سرگذشت بیان کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ انہوں کیسے مغرب کی جانب سے کی جانے والی سامراجی مداخلت کا مقابلہ کرتے ہوئے خلافت عثمانیہ کو کئی دہائیوں تک زندہ رکھا۔

اس سیریز میں تاریخی پس منظر کو موجودہ واقعات سے اس طرح مربوط کیا گیا کہ اکثر و بیشتر یہ سیریز ناظرین کے لیے متبادل تاریخی بیانیے کے طور پر deja vu(ایک فرانسیسی اصطلاح جس میں دیکھنے والا خود کو اس منظر میں محسوس کرے) اثرات مرتب کرتی ہے۔ اگرچہ یہ سیریز تاریخی واقعات کا احاطہ کرتی ہے ، لیکن اس میں ناظرین کے لیے دیے گئے پیغام کو آج کے حالات کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ترکی کی انٹرٹینمنٹ کی صنعت، سنیما اور ٹی وی ڈرامے دونوں، بلاشبہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اصلاحی اور غیراصلاحی بیانیے کے ساتھ جغرافیائی سیاسی تصورات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ہالی وڈ کی ایکشن فلم ریمبو کی طرح جنگ کے موضوع پر بننے والی ترک فلم نے ترکی اور مشرق وسطی کے درمیان جغرافیائی سیاسی تصورات قائم کرکے تنازعات کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔

تاہم، حال ہی میں ٹی آر ٹی اور دیگر چینلز سے نشر ہونے والی ٹی وی سیریز نہ صرف جغرافیائی سیاسی مخالف پروڈکشن کے طور پر سامنے آئیں، جن کا مقصد غیرتعمیری بیانیہ قائم کرنا ہے بلکہ ترکی کی متبادل جغرافیائی سیاسی تصور کے لیے معقول پیغام ظاہر کرنا بھی ہے۔ ان سیریز کا مقصد تاریخ اور جغرافیہ کے ذریعے ترکی کے نئے بیانیے کو شدت کے ساتھ ابھارنا ہے۔ واضح رہے کہ ترکی کے وزیرثقافت و سیاحت نبی آوجی بھی چند ماہ قبل کہہ چکے ہیں ترک ڈراما سیریلز دیکھنے کی شرح سب سے زیادہ یورپ میں ہے۔

ڈیڑھ دہائی قبل تک ترکی میں گنتی کی فلمیں بنتی تھیں، لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر ڈیڑھ سو تک جاپہنچی ہے۔ ترکی میں بننے والی متعدد فلموں نے حالیہ چند برسوں میں بین الاقوامی فلمی ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ درحقیقت یہ فلمیں اور ڈرامے نہیں یہ ترکی کی معاشی ترقی اور سیاسی اثرورسوخ کے لیے طے شدہ لائحہ عمل کے تحت جاری تحریک ہے، جس میں وہ کام یابی حاصل کر رہا ہے۔

اس تناظر میں ہم اپنے ملک کی انٹرٹینمنٹ  انڈسٹری کا جائزہ لیں تو یہ جان کر نہایت افسوس ہوتا ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی ہم زوال کا شکار ہیں، حالاںکہ ہمارے ڈرامے پاکستان کی شناخت اور معیشت کے لیے بہت سودمند ثابت ہوسکتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستان میں شان دار ڈرامے بنتے تھے، جو بھارت میں بھی مقبول تھے، لیکن غیرسنجیدہ اور غیراخلاقی موضوعات، لچر پن، اور بوگس اسکرپٹ کی بھرمار پاکستان ناظرین کو چھوٹی اسکرین سے دور کر ہی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستانی ٹی وی ڈراموں کے آن ایئر ہونے پر گلیوں، محلوں میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ لوگ شادی کی تاریخیں بھی ان ڈراموں کے نشر ہونے کی تاریخ اور وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے متعین کی جاتی تھیں۔

سید بابر علی
 [email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔