پشتو فلم ماضی اور حال

پشتو فلمیں بنانے والی اکثریت پختونوں کے رسم و رواج اور روایات کو نظر انداز کر رہی ہے؟


Cultural Reporter August 25, 2013
ڈرامہ اور فلم قوموں کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی کی اصلی پہچان اور شناخت کو روشناس کروانے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔فوٹو : فائل

فلم نہ صرف ایک مؤثر طاقتور نشریاتی اور ابلاغی ذریعہ ہے بلکہ اہم کاروبار اور سرمایہ کمانے کا بھی ایک اچھا وسیلہ ہے۔

فلم محض ذہنی عیاشی، وقتی مسرت اور زندگی کی تلخ حقیقتوں اور ذہنی تھکاوٹ سے کچھ دیر کیلئے فرار ہونے کا راستہ نہیں بلکہ ایک بامقصد اور صحت مند تفریح کے ساتھ ساتھ معاشرتی ، تہذیبی اور تعلیم و تربیت کا بھی ایک مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ آج پوری دنیا میں جس تیز رفتاری کے ساتھ میڈیا وار چل رہی ہے اور بیشتر ممالک کے باشندے جس لسانی و تہذیبی انتشار، معاشی بے چینی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار نظر آتے ہیں، ان حالات میں ڈرامہ اور فلم وغیرہ قوموں کی معاشرتی اور ثقافتی زندگی کی اصلی پہچان اور شناخت کو روشناس کروانے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اب جہاں تک پشتو فلموں کا تعلق ہے اور اس کی آرٹسٹک اقدار و اثرات سے باخبر اور آگہی کی بات ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پختونوں نے آج تک اس ذریعے اور شعبے کو معاشرتی اور تہذیبی مقصدیت کی نظر سے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی نکتہ نظر سے تو پشتو فلم اور پشتو فلم انڈسٹری نے خوب ترقی کی ہے لیکن تہذیبی ، اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں پر پختونوں کی زندگی میں وہ انقلاب اور تبدیلی نہیں لاسکی جو اس کی ضرورت تھی۔ تاریخی نکتہ نظر سے پشتو فلم کی باقاعدہ ابتداء تقسیم ہند سے تقریباً آٹھ نو سال قبل 1938ء کو ممبئی میں ہوئی تھی پہلی پشتو فلم ''لیلیٰ مجنون'' 1941ء میں مکمل ہوئی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد ایک لمبے عرصے تک پشتو فلموں کا فقدان رہا البتہ اس دوران لوگوں میں پشتو سٹیج ، تھیٹر اور ریڈیو کے ڈرامے دیکھنے اور سننے کا رواج عام تھا۔



1963ء میں پشتو زبان کی ایک دستاویزی فلم ''پلوشہ'' بنائی گئی جو ایک فیچر فلم تھی اور اسے پشتو زبان کے معروف شاعر ادیب اور ناول نگار مرحوم سدی رسول رسا نے سرحد حکومت کے تعاون سے بنایا تھا جس پر انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

1968 میں ''گل سانگہ'' نام کی ایک فلم بننے کی کوشش بھی ہوئی تھی لیکن اس فلم کے ڈائریکٹر کے غبن اور دھوکہ دہی کی وجہ سے یہ کوشش کارگر ثابت نہ ہو سکی۔

اسی دوران 1968ء کے لگ بھگ دوسری پشتو فلم ''یک یوسف اوشیر بانو'' لاہور کے ایورنیو سٹوڈیو میں بنانے کا آغاز ہوا جس کا افتتاح معروف مزاحیہ اداکار رنگیلا نے کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار جمیل احمد خان تھے جو ممتاز علی خان کے استاد تھے۔

خبر آئی کہ فلمساز نذیر حسین مدد علی مدن اور علی حیدر جوشی نے مل کر پشتو فلم '''یوسف خان شیر بانو'' بنانے کا آغاز کردیا جس کے ہدایت کار عزیز تبسم۔ہیرو بدر منیر جبکہ ہیروئن یاسمین خان تھی۔

یوسف خان شیر بانو نے ریکارڈ مقبولیت حاصل کی کراچی سے خیبر تک اس فلم کو فلم بینوں نے کافی پسند کیا۔ اس فلم کے گیت آج بھی لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ اس کے بعد تیسری فلم ''کلہ خزان کلہ بہار'' کے نام سے بنی اور کراچی میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں چند مناظر ایسے فلمائے گئے تھے جو کراچی کے پختونوں کو اپنی ثقافت اور اجتماعی نفسیات کے منافی لگے لہٰذا اس فلم کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے اس سینما کو آگ لگائی جہاں فلم کلہ خزان کلہ بہار چل رہی تھی اور اس طرح پشتو کی تیسری فلم پختون مکمل فلاپ ہوئی۔

بعد میں اردو زبان کے معروف شاعر ، ادیب اور نغمہ نگار قتیل شفائی نے جنگ آزادی کے معروف ہیرو عجب خان آفریدی کی زندگی اور جدوجہد پر مبنی فلم '' عجب خان آفریدی'' کے نام سے بنائی جس کے فلم ساز وہ خود تھے اور یوں پشتو فلم بنانے کا سلسلہ چل پڑا۔ آدم خان درخانئی، موسی خان گل مکئی اور درہ خیبر جیسی مشہور فلمیں بنائی گئیں جس کے گیت پشاور کے معروف شاعر قاسم حسرت نے ، کہانی حبیب اللہ اور مکالمے یونس قیاسی نے تحریر کئے تھے۔



درہ خیبر کی کامیابی کے بعد علاقہ غیر، ملتانے، چمنے خان، اوربل، دیدن جس کی کہانی دلیپ کمار کی فلم دیدار سے لی گئی تھی لیکن پختون ثقافت اور ماحول کے سیاق و سباق کو بہترین انداز میں پیش کرنے کی وجہ سے آج بھی پختونوں میں مقبول فلم ہے۔ اسی طرح ارمان، اوربل اور اقرار ، بہادر خان، چراغ الہ دین، ٹوپک زمان قانون، باز او شہباز، دپختون طورہ، زما بدل، زرتاجہ، رحمداد خان، جوارگر، خانہ بدوش، غازی کاکا، قیدی، ''دوطن مینہ'' کو بے حد پذیرائی ملی اور کئی کئی ہفتوں تک زیر نمائش رہی۔

1971ء تا 1980ء تک کا زمانہ اس حوالے سے یادگار دور یاد کیا جاتا ہے کہ اس دوران جتنی بھی فلمیں بنائی گئیں ان میں پختونوں کی معاشرتی زندگی ، ثقافت اور روایات کی بھرپور عکاسی کی گئی لیکن 1981ء کے بعد بننے والی پشتو فلمیں اپنی اس روایت کی پٹڑی سے نیچے اتر کر کچھ عجیب قسم کے خطرناک راستوں پر چل پڑی۔ آج کل ایسے ایسے نام رکھے جاتے ہیں جنہیں پڑھتے وقت سنجیدہ پختون کے منہ سے پتہ نہیں کیا کیا نکلتا ہے۔ اس ضمن میں ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ پشتو فلمیں جس اجنبی ماحول میں بنتی ہیں وہاں پشتو فلم کا بننا خود ایک سنسنی خیز خبر ہے جن سٹوڈیوز میں پشتو فلم کی شوٹنگ ہوتی ہے وہاں جا کر دیکھئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سکرین پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ صرف پردے پر نہیں ویسے بھی دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا کیونکہ ان نگار خانوں میں اکثر اداکاراؤں کا لسانی اور نسلی تعلق پختونوں سے نہیں ہے۔ بھلا ان گونگے اور اجنبی کرداروں کو کیا پتہ کہ پختونوں کے رسم و رواج اور روایات کیا ہیں؟ ان کی زبان پشتو کا لب و لہجہ اور بولنے کا فطری انداز کیا ہے؟

انہیں تو بس نوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی حرکات و سکنات پر پشتو کی ڈبنگ کی جاتی ہے۔ ایک عام پشتو فلم دس لاکھ سے بیس لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کی جاتی ہے۔ اتنے کم سرمائے سے جو فلم محض پیسہ کمانے کی خاطر بنے گی ظاہر ہے اس فلم کا معاشرتی اور ثقافتی معیار گھٹیا ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ آج زیادہ تر پشتو فلموں کے مصنفین، فلمساز، ڈائریکٹرز ، اداکار ، موسیقار اور ڈسٹری بیوٹرز نہ تو خود پختون ہیں اور نہ پختونوں کی روایات و اقدار سے واقف ہیں بلکہ یہ سب ''کرائے کے گوریلے'' ہیں۔

مقبول خبریں