فضائل و اعزازِ قرآن الکریم

ڈاکٹر فرحت ہاشمی  جمعـء 17 مئ 2019

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور بے شک یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترے ہیں۔ آپؐ کے دل پر، تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں۔‘‘

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا لازوال کلام ہے، جس میں باطل کسی طرف سے راہ نہیں پاسکتا۔ ’’اور بے شک یہ البتہ ایک زبردست کتاب ہے۔ اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ ایک کمال حکمت والے، تما م خوبیوں والے کی طرف سے نازل کردہ ہے۔‘‘ سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز میں تشہد کے بعد یہ الفاظ کہتے تھے: ’’سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے اچھا طریقہ محمدﷺ کا طریقہ ہے۔‘‘

سیدنا زید بن ارقم ؓسے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اے لوگو! سنو میں ایک انسان ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا میرے پاس آئے تو میں اسے قبول کروں اور میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے تو تم اللہ کی کتاب کو پکڑے رکھو اور اس کے ساتھ مضبوطی سے جڑے رہو اور آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب پر بہت زور دیا اور اس کی خوب رغبت دلائی، پھر آپؐ نے فرمایا: ’’(دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں، میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم)

سیدنا زید بن ارقم ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے، جو اس کی پیروی کرے گا، وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گم راہی پر ہو گا۔‘‘

’’بے شک یہ قرآن اس (راستے) کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے کہ بے شک ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ سلامتی کی راہیں دکھانے والی کتاب: ’’اے اہل کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارا رسولؐ آیا ہے، جو تمہارے لیے ان میں سے بہت سی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے، جو تم کتاب میں سے چھپایا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔ یقینًا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور (ایسی) واضح کتاب آئی ہے جس کے ذریعہ اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور انہیں اپنے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔‘‘

ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت اور ظالموں کے لیے باعث خسارہ: ’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت آئی اور اس کے لیے شفا جو سینوں میں ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘

بابرکت کتاب : ’’جو کتاب ہم نے آپؐ کی طرف نازل کی ہے بڑی بابرکت ہے تاکہ وہ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور اہل عقل نصیحت حاصل کریں۔‘‘

’’الکریم‘‘ ایسی چیز کا جامع نام ہے جس کی تعریف کی جائے اور قرآن اس لیے الکریم ہے کیوں کہ اس میں ایسی چیزیں ہیں جن کی تعریف کی جاتی ہے جیسا کہ ہدایت، نور، بیان، علم اور حکمتیں تو فقیہ انسان اس سے دلیل لیتا ہے اور اس سے حکم اخذ کرتا ہے اور حکیم انسان اس سے مدد اور دلیل اور حجت حاصل کرتا ہے اور ادب سکھانے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے ساتھ تقویت حاصل کرتا ہے، ہر عالم اپنے علم کی بنیاد اسی قرآن سے حاصل کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کو الکریم اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ دوسری کتابوں کے برعکس اس کتاب کو ہر کوئی بڑا اور چھوٹا، ذہین اور کند ذہن بھی حاصل کرلیتا ہے اور اس کو حفظ کرلیتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کلام کو بار بار پڑھا جائے تو سننے والے اس سے اکتا جاتے ہیں اور آنکھوں میں اس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے اور کان اس سے اکتا جاتے ہیں لیکن قرآن معزز اور کریم ہے، کثرت تلاوت کی وجہ سے اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی اور بار بار لوٹانے سے یہ پرانا اور بوسیدہ نہیں ہوتا اور نہ سننے والے اس سے بے زار ہوتے ہیں، نہ ہی یہ زبانوں پر بھاری ہوتا ہے بل کہ یہ قرآن ہر زمانے کے لیے تر و تازہ رہتا ہے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جو شخص علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ قرآن میں غور و فکر کرے اس لیے کہ اس میں پہلے اور آخری تمام علوم موجود ہیں۔

’’اور بلا شبہ یقینًا ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔‘‘ ابن قیمؒ کہتے ہیں قرآن کا نصیحت کے لیے آسان ہونا، یہ آسانی کی کئی اقسام پر مشتمل ہے: پہلی: اس کے الفاظ کا حفظ کرنے کے لیے آسان ہونا۔ دوسری: فہم حاصل کرنے کے لیے اس کے معانی کا آسان ہونا۔ تیسری: اس کے احکام و نواہی کا عمل کے لیے آسان ہونا۔

’’ اور ہم نے آپؐ پر یہ کتاب نازل کی، جوہر چیز کا واضح بیان ہے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوش خبری ہے۔‘‘ اس کتاب میں دین کے اصول و فروع، دنیا و آخرت کے احکامات اور ہر وہ چیز جس کے بندے محتاج ہیں، واضح الفاظ اور نمایاں معانی کے ساتھ مکمل طور پر بیان کر دیے گئے ہیں، کیوں کہ یہ قرآن ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اس لیے یہ تمام انسانوں پر اللہ کی حجت ہے، اس کے ذریعے ظالموں کی حجت منقطع ہوگئی اور مسلمانوں نے اس سے استفادہ کیا اور وہ ان کے لیے راہ نما بن گیا، وہ اپنے دینی اور اپنے دنیاوی امور میں اس سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں اور قرآن اُن کے لیے رحمت بن گیا، وہ اس کے ذریعے دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کو حاصل کرتے ہیں۔

’’کہہ دیجیے ! اگر تمام انسان اور جن جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو۔ اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثال پھیر پھیر کر بیان کی مگر اکثر لوگوں نے کفر کے سوا (ہر چیز سے) انکار کر دیا۔‘‘

’’ اور ہم نے آپؐ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اُن پر نگران ہے۔‘‘ سیدنا واثلہ بن اسقعؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ مجھے تورات کی جگہ سات (ابتدائی طویل) سورتیں دی گئیں اور مجھے زبور کی جگہ سو (آیات والی سورتیں ) دی گئیں، انجیل کے بدلے مثانی (وہ سورتیں جن میں بعض آیات بار بار آتی ہیں) دی گئیں اور مجھے مفصل سورتوں (سورۃ محمد سے اخیر تک) کے ساتھ فضیلت دی گئی۔‘‘

سابقہ کتب کے مقابلے میں قرآن کی وسعت: سیدنا ابن مسعود ؓرسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ پہلی کتابیں ایک باب (موضوع) پر اور ایک لہجے میں نازل ہوئی تھیں اور قرآن سات ابواب (موضوعات) پر سات لہجوں میں نازل ہوا۔ (اس میں) تنبیہات، احکام، حلال، حرام، واضح احکام (فیصلہ کن)، متشابہات اور مثالیں ہیں۔ پس اس کے حلال کو حلال کر لو، اور اس کے حرام کو حرام ٹھہراؤ۔ جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہ کرو اور جس سے تمہیں روکا گیا ہے اس سے رک جاؤ اور اس کی مثالوں سے عبرت حاصل کر لو اور اس کے محکم (واضح) احکام پر عمل کرو اور اس کے متشابہہ پر ایمان لاو ٔاور کہو کہ ہم اس پر ایمان لے آئے سب کا سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔