صحافتی تنظیموں کا صحافیوں کے تحفظ میں کردار

کامران سرور  جمعـء 17 مئ 2019
صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے اقوام متحدہ میں قرارداد جمع کروائی ہے، صدر پی ایف یو جے

صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے اقوام متحدہ میں قرارداد جمع کروائی ہے، صدر پی ایف یو جے

 کراچی: جس طرح جمہوری حکومتوں کی ترقی میں صحافت انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے ویسے ہی صحافت کو فروغ دینے اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے صحافتی تنظیموں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ آزادی اظہار رائے اور درست معلومات کی ترسیل ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے، اس خواب کو پورا کرنے والے صحافیوں کو ماضی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب بھی کرنا پڑتا ہے اور اس ضمن میں سیکڑوں صحافی جان کی بازی ہارچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں صحافیوں کو اغوا، تشدد اور ہراسانی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ہم بات کریں پاکستان کی، تو ماضی میں انہی صحافتی تنظیموں نے مختلف تحریکوں کے ذریعے صحافیوں کے معاشی اور جانی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اہم کردار ادا کیا لیکن آج صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ماضی کے مقابلے میں صحافتی تنظٰیموں کا کردار انتہائی محدود دکھائی دیتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے 60 کی دہائی میں 4 ملازمین کی برطرفی پر احتجاج نے مالکان کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا تھا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ پی ایف یو جے بھی مکمل طور پر صحافیوں کو مالی وجانی تحفظ دینے میں ناکام دکھائی دیتی ہے اس کے علاوہ پریشر گروپس کی جانب سے من مانی خبر کے حصول کے لیے صحافیوں کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے لیکن صحافتی تنظیمیں یہ سلسلہ بھی روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے صحافی یا تو خودساختہ سنسرشپ کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں یا پھر اپنی جان پر کھیلتے ہوئے اس خبر تک پہنچتے ہیں جس کی بہترین مثال پی پی ایف کے ریکارڈ میں موجود ولی خان بابر کیس ہے۔

اگر دیکھا جائے تو ٹیکنالوجی خاص کر سوشل میڈیا کی وجہ سے اب ماضی کے مقابلے میں زیادہ کیسز منظر عام پر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود صحافتی تنظیمیں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات اٹھانے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ صحافتی تنظمیوں کا کردار نہ صرف محدود ہوگیا ہے بلکہ ان کی ترجیحات بھی اب تبدیل ہوچکی ہیں۔ ملک میں درجنوں صحافتی تنظیمیں ہونے کے باوجود صحافی خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے صحافتی تنظیمیں بھی ہمیں بے بس دکھائی دیتی ہیں۔

پی پی ایف رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ بندی میں پاکستان اس وقت آزادی صحافت کی فہرست میں 142ویں نمبر پر موجود ہے۔ صحافیوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات کے حوالے سے پاکستان پریس فریڈیم کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو 02-2001 میں کل 13 واقعات سامنے آئے لیکن 2014 سے 2016 تک ان واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ تعداد 95 تک جا پہنچی یعنی 12 سال کے دوران اگر ہم اوسطاً ان واقعات کا جائزہ لیں تو یہ 6 سے 32 تک جا پہنچی ہے۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق  جن میں تشدد، اغوا اور قتل جیسے واقعات شامل ہیں جب کہ 2018 میں 58 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے آنے سے آن لائن ہراساں کیے جانے کے ان گنت واقعات سامنے آئے۔ ویب سائٹ ’بول بھی‘ کے مطابق سوشل میڈیا پر متنازعہ پوسٹ پر 2017 سے 2019 کے درمیان 20 لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس میں کچھ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تو کچھ کو حراست میں بھی لیا گیا۔

صحافی اور صحافتی تنظیمں آزادی اظہار کے حصول کے لیے قیام پاکستان سے ہی جدوجہد کرتی آرہی ہیں، آزاد صحافت شہریوں کو باخبر رکھتی ہے تاکہ وہ اپنی نجی و سماجی زندگی میں بہتر فیصلے کرسکیں تاہم عوام تک خبر پہنچانے کی پاداش میں اب تک سیکڑوں صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں معلومات تک رسائی کو ہر شہری کا قانونی حق قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود آزادی اظہار ایک خواب ہی دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کی آواز کو مختلف طریقوں سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں نہ صرف حکومت بلکہ ریاستی ادارے بھی پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی صحافت میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کسی بھی صحافی کے قتل یا پھر اسے ہراساں کیے جانے کے واقعے پر کچھ دن تک ماتم منایا جاتا ہے اور اس پر مختلف پروگرامز اور سیمنارز وغیرہ منعقد کیے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد پھر سب اپنی دنیا میں مگن ہوکر اس واقعہ کو بھول جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سلسلہ آج تک نہیں رک سکا اور اب روزنہ کی بنیاد پر ملک بھر سے صحافیوں کے قتل، اغوا، تشدد یا انہیں ہراساں کیے جانے کی خبریں آنا اب معمول کی بات ہوگئی ہے لیکن ہم پاکستان کی صحافتی تنظیمی نمائندوں اور دیگر صحافیوں سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ صحافتی تنظیمیں غیر موثر کیوں ہوگئی ہیں اور وہ صحافیوں کو تحفظ دینے میں کیوں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔

صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کے مطابق 2002 سے لے کر 2019 تک صحافیوں پر تشدد کے 699 واقعات ریکارڈ ہوئے۔ پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران 72 صحافیوں کا قتل ہوا جس میں 48 صحافیوں کو خبر دینے کی پاداش میں جب کہ دیگر 24 صحافیوں کو بھی دوران ڈیوٹی دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا جب کہ اب تک صرف 5 کیسز کی تحقیقات مکمل ہوئیں اور ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں 2002 میں وال اسٹریٹ جنرل کے رپورٹر ڈینئل پرل، جیو کے رپورٹر ولی خان بابر، خبرون کے رپورٹر نثار احمد سولنگی، روئل ٹی وی کے رپورٹر عبدالرزاق جاورا اور ڈیلی کرک ٹائمز کے رپورٹر ایوب خان خٹک شامل ہیں۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر موجود رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ سال مئی سے اب تک 55 صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے اور پاکستان میں سینسرشپ کے سیکڑوں واقعات ریکارڈ کیے گئے جس کی تعداد 130 سے زائد بنتی ہے۔

صحافیوں کے قتل اور گمشدگی کے خلاف وقتاً فوقتاً ملک کی تمام صحافتی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہتی ہیں لیکن میرے خیال میں شاید ان کی آوازیں یکجا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ صحافیوں کو تحفظ دلوانے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور متحرک پریس کلب کے نمائندے اور نامور صحافی نصراللہ چوہدری کو بغیر اطلاع کے حراست میں لیا جاتا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں نصراللہ چوہدری کے واقعے پر تمام صحافتی تنظیمیں ہمیں یک زبان دکھائی دی اور ان کی رہائی کے لیے تمام کوششیں کی گئی جس کی بدولت انہیں عدالت سے ضمانت پر رہائی حاصل ہوئی۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ڈیٹا بیس کے مطابق کاؤنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے صحافی نصراللہ چوہدری کی گرفتاری کے لیے کراچی پریس کلب پر بھی چھاپہ مارا تھا اور ایسا کراچی پریس کلب کی 60 سال کی تاریخ میں پہلی بار ہوا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پریس کلب پر چھاپہ مارا ہو۔ روزنامہ نئی بات کے سینئر سب ایڈیٹر نصراللہ چوہدری کو 11 نومبر 2018 کو بغیر اطلاع کے انہیں گھر سے حراست میں لیا گیا۔ بعد ازاں ان کی اہلیہ کی جانب سے پولیس میں شکایت درج کی گئی جب کہ اگلے ہی دن سندھ ہائی کورٹ میں ان کی گمشدگی کی پٹیشن دائر کی گئی جس کے بعد سی ٹی ڈی نے انہیں عدالت میں پیش کیا جہاں انہیں 2 دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا، اگلی پیشی پر سی ٹی ڈی نے نصراللہ چوہدری پر الزام لگایا کہ ان کے پاس سے جہادی مواد برآمد ہوا ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے نصر اللہ چوہدری کو 5 دن کے لیے جیل بھیجا دیا گیا اور پھر انہیں ضمانت پر رہائی ملی۔

اس کیس کے حوالے سے سینئر صحافی نصراللہ چوہدری کا موقف لینے کے لیے ان سے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

صحافیوں کی ملکی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر جی ایم جمالی صاحب سے جب میں نے بات کی تو انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ صحافتی تنظیمیں آپس میں تقسیم کا شکار ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم کے اندرونی اختلافات ہیں، جو چند رہنماؤں کے تو ہوسکتے ہیں لیکن مجموعی مفاد کی خاطر نہیں ہوسکتے، جب بات صحافت کی آتی ہے تو کوئی بھی تنظیم پیچھے نظر نہیں آتی اور ہم نے ماضی میں بھی یہ ثابت کیا ہے کہ آزادی اظہار کیلیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں اور آج بھی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے تمام واقعات جس میں جبری گمشدگیاں اور جھوٹے مقدمات شامل ہیں، اس پر ساری صحافتی تنظیموں کی ایک ہی رائے ہے اور نصراللہ چوہدری سے لے کر مطلوب حسین کے واقعے تک صحافتی تنظیمیں ایک پیج پر دکھائی دیں لیکن ریاستی ادارے پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں جو آئین وقانون کو بالائے طاق رکھ کر صحافیوں کے خلاف یہ اقدامات کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم صحافیوں کو رہا کروانے میں کامیاب رہے۔ جی ایم جمالی سے جب میں نے پوچھا کہ صحافیوں کی گمشدگی اور ان کے خلاف مقدمات پر آپ نے کیا اقدامات اٹھائے تو انہوں نے کہا کہ پی ایف یو جے نے کراچی، لاہور اور نیشنل پریس کلب کے ساتھ ملکر صحافیوں کے خلاف حالیہ واقعات پر وزیراعلیٰ سندھ کو بھی خط لکھا، جس میں ہم نے واضح طور پر کہا کہ پولیس گردی کو روکا جائے اور ذاتی بنیاد پر صحافیوں کے خلاف مقدمات درج نہ کیے جائیں اور ہوسکتا ہے ہم بہت جلد صحافیوں کے خلاف ہونے والی زیادتی پر پولیس کے خلاف پٹیشن فائل کریں۔

جی ایم جمالی نے مجھے بتایا کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے اقدامات صرف پاکستان تک محدود نہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی صحافیوں کے ساتھ ریاستی دہشتگردی ہورہی ہے جس کے لیے ہم نے اقوام متحدہ میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنسلٹ میں ایک قرداد جمع کروائی ہے جس میں ہم نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قوانین کو یکساں کیے جائیں اور تمام ممالک کو پابند کیا جائے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔ حال ہی میں ہم نے حامد میر سمیت دیگر صحافیوں کے ساتھ ملکر سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری سے ملاقات کی جس میں ہم نے موقف اختیار کیا کہ صحافیوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، جس پر انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ بہت جلد اس حوالے سے بل قومی اسمبلی میں پیش کریں گی جس میں صحافیوں کے تحفظ، لائف انشورنس، ہیلتھ انشورنس کے حوالے سے تمام نکات شامل ہیں اور ہم نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس بل میں ریاستی اداروں کو بھی پابند کیا جائے تو کہ وہ صحافیوں کو ہراساں نہ کرے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے سینئر نائب صدر رضوان بھٹی سے جب میں نے پوچھا کہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں آپ کا کیا کردار ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ورکر کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانونی معاونت سمیت ہر ممکن مدد فراہم کرتے ہیں لیکن جو بندہ کلیئر نہ ہو یعنی غیر صحافتی کاموں میں ملوث پایا جائے تو وہاں ہم سپورٹ نہیں کرتے بلکہ اس سے اظہار لاتعلقی کرلیتے ہیں۔ میں نے ان سے ان واقعات کی تفصیلات طلب کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ایسے بہت سے کیسز ہیں، 2016 میں ہم نے صحافت چھوڑ جانے والوں یا سرکاری نوکریاں حاصل کرنے والے کراچی پریس کلب کے 30 ممبران کی رکنیت معطل کردی تھی۔ رضوان بھٹی نے صحافتی تنظیموں کے کمزور ہونے کی وجہ تنظیموں کی تقسیم اور ملک کے موجودہ حالات کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے تب تک مسائل چلتے رہیں گے، ہم ہر معاملے پر ایکشن کمیٹی تو بنا دیتے ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیں، تمام یونینز مستقل بنیادوں پر ایک ہونا پڑے گا لیکن چند لوگ اپنے ذاتی مفاد کی وجہ سے تنظیموں کو اکھٹا ہونے نہیں دے رہے، لوگوں کی انا کا مسئلہ آّجاتا ہے۔

صحافتی تنظیموں میں نمائندگی کے حوالے سے رضوان بھٹی نے مجھے بتایا کہ کراچی پریس کلب میں  فعال ممبران کی تعداد 1700 ہے جو لاہور (3500) اور اسلام آباد پریس کلب (4000) کے مقابلے میں بہت کم ہے کیوں کہ ہمارا انتخاب کا طریقہ کار بہت سخت اور بہتر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی یونین آف جرنسلٹ (دستور) کے ممبران کی تعداد 1800 اور کراچی یونین آف جرنسلٹ (برنا) کے ممبران کی تعداد 2200 ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر جی ایم جمالی کے مطابق پی ایف یو جے کے ممبران کی تعداد 20 ہزار ہے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے نائب صدر شمس کھیریو سے جب میں نے پوچھا کہ کسی بھی صحافی کی تنظیم میں شمولیت کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ تنظیم میں شمولیت سے پہلے ہر صحافی کو ممبرشپ فارم بھرنا ہوتا ہے جس میں ان سے تمام ریکارڈ طلب کیا جاتا ہے اور پھر اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے جس کے بعد تنظیم میں نمائندگی دی جاتی ہے تاہم ہمارے صحافیوں میں تربیت کی کمی ہے، اکثر صحافی پولیس سے لڑتے جھکڑتے اور انہیں گالیاں دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے صحافیوں کی بھی تنظیم مدد کرتی ہے جس کی وجہ میں سمجھتا ہوں کہ صحافتی تنظیمیں کمزور ہوگئی ہیں کیوں کہ صحافیوں کے بجائے ذاتی مفاد رکھنے والے لوگ اوپر آرہے ہیں، اس لیے ہمارا اثرورسوخ بھی کم ہوگیا ہے جس کے بحالی اور تنظیموں کے لیے ہمارے لیڈران کو اپنی انا ختم کرنا ہوگی اور اتفاق و اتحاد سے کام لینا ہوگا اور جب تک ہمارے لوگ ذاتی مفاد ختم نہیں کریں گے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ نصراللہ چوہدری کو حراست میں لیے جانے پر انہوں نے کہا کہ تمام تنظیموں نے ملکر فوری طور پر احتجاج کیا جس کی بدولت انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔

کراچی یونین آف جرنلسٹ (برنا) کے صدر حسن عباس نے صحافتی تنظیموں کی تقسیم کے حوالے سے مجھے بتایا کہ یہ تقسیم آج کے دور میں نہیں ہوئی بلکہ ضیاالحق کے مارشل لاء کے خلاف احتجاج کرنے والی تنظیم (پی ایف یو جے) کے صدر منہاج برنا سمیت دیگر نامور شخصیات کو گرفتار کیا گیا اور اس دوران میڈیا پر اپنی گرفت رکھنے اور اپنی مرضی کی خبریں چلوانے کے لیے ایک نئے دھڑے کا اعلان کردیا گیا جس میں اسٹبلشمنٹ کے حاضر سروس افسر شامل تھے، اس کےعلاوہ پارلیمانی رپورٹس ایسوی ایشن، کلچر رپورٹرز ایسوسی ایشن ، الیکٹرانک میڈیا رپورٹر ایسوی ایشن بناکر صحافیوں کو مزید تقسیم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے مرکزیت ختم ہوگئی ہے جیسے پہلے ایک کال پر سب اکھٹا ہوجایا کرتے تھے تاہم ابھی حال ہی میں پاکستان یونین آف جرنسلٹ کا اجلاس ہوا تھا اور میں بھی اس کا حصہ تھا جس میں (برنا گروپ) کے تمام دھڑوں کو بلایا گیا تھا اور ان کی تجاویز لی گئی جب کہ ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ ہم پھر سے ایک ہوجائیں۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ صرف برنا گروپ ہی کیوں اوروں کے ساتھ اتحاد کیوں نہیں ہوسکتا، جس پر حسن عباس کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں برنا کا ٹائٹل ایک ہوجائے پھر ہم دستور گروپ سے بات کریں اور اس حوالے سے ہماری بات ان کے چند سنجیدہ لوگوں سے ہوتی رہتی ہے۔ پریس کلب کی ممبر شپ کے حوالے سے انہوں نے مجھے بتایا کہ پچھلے سال بھی میں نے کلب کی باڈی کو یہ تجویز دی تھی کہ ایک لائحہ عمل بنادیں، جو لوگ مسلسل 2 بار فارم بھر چکے ہیں پہلے انہیں ممبرشپ دی جائے اور پھر تجربہ کی بنیاد پر دی جائے اور پھر جو لوگ رہ جائیں انہیں اعزازی ممبر شپ دی جائے تاکہ وہ کلب میں آجائیں اور پھر چند سال بعد انہیں رکنیت دے دی جائے، اس سے اصل صحافیوں کو رکنیت مل جائے گی۔

کراچی پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ارمان صابر سے جب میں نے صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں سے متعلق پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ کسی صحافی کو اگر دھمکیاں ملتی ہیں تو پریس کلب بھی صحافتی تنظیموں کے ساتھ ملکر اس کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور جو بھی متعلقہ ادارے ہیں وہاں بات بھی کرتا ہے اور اس دھمکی کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ نصراللہ چوہدری کے معاملے پر پریس کلب کی لیگل ٹیم معاملے کو آگے لے کرگئے اور عدالت میں بھی ان کی ہرممکن مدد کی اور ہمارے دباو کی وجہ سے وہ جلد باہر آئے۔ کلب کی ممبرشپ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس میں مختلف کیٹکریز ہیں جس میں کاؤنسل ممبر، ایسوسی ایٹ ممبرز، لائف ممبر اور اعزازی ممبرشپ شامل ہے تاہم صحافیوں کو صرف کاؤنسل ممبر بنایا جاتا ہے۔

کراچی پریس کلب کے سابق صدر طاہر حسن خان سے جب میں نے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ آج کل جس کا دل چاہتا ہے صحافتی تنظیموں کو نشانہ بناتا ہے، ہم نہ صرف حکومت بلکہ میڈیا مالکان کے نشانے پر بھی ہیں یہاں تک کہ ریاستی اداروں کی جانب سے بھی ہمیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ صحافتی تنظیموں کی تقسیم پر انہوں نے کہا کہ مالکان نے پہلا کام تنظیموں کو توڑا جس کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں اور ریاستی اداروں میں بھی ہماری کوئی سنوائی نہیں ہوتی تاہم ہم نے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں تمام تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں اور اس کمیٹی نے بہت اچھے اور مثبت فیصلے کیے ہیں۔ سابق صدر سے جب میں نے ان فیصلوں کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے وہ بتانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہم ابھی منظر عام پر نہیں لاسکتے۔

ایکسپریس  نیوز کراچی کے بیورو چیف فیصل حسین جو کے یو جے (برنا) کے ممبر بھی ہیں، ان سے جب میں نے پوچھا کہ کراچی میں صحافیوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے صحافتی تنظیموں کا کیا کردار ہے، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جس طرح سیاست میں چند خاندان کا قبضہ ہوگیا ہے ویسے ہی صحافتی تنظمیوں کو بھی چند لوگوں نے یرغمال بنالیا ہے اور جب تک ان ہائی جیکرز سے ان تنظیموں کو آزاد نہیں کروایا جائے گا تب تک ان سے کسی اثرانگیز رویے کی توقع نہیں کرسکتے، یہ تنظیمیں جس مقصد کیلیے قائم کی گئی تھی اس سے ہٹ چکی ہیں، یہ اب صرف شخصیت پرستی کے گرد گھومتی ہیں اور کچھ اشخاص کا نام ہی صحافتی تنظٰیم ہوچکا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ حال میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جن میں تنظیموں نے صحافیوں کی مدد کی جس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ نصراللہ چوہدری کی گرفتاری بھی صحافتی تنظیموں کی کمزوری تھی، کیوں کہ انہیں گرفتار کرنے والوں کو پتہ تھا کہ صحافتی تنظیموں میں اتنا دم خم ہی نہیں کہ اس کارروائی پر کوئی رد عمل دے سکیں، ایسی کارروائی آج سے 10 سال پہلے نہیں کی جاسکتی تھی جب کہ صحافتی تنظیموں میں اتنی گنجائش نہیں کہ کسی کی مدد کرسکیں وہ صرف بیانات کی حد تک محدود ہیں اور وہ بیانات بھی اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کی لیے دیے جاتے ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، صحافیوں کے حالیہ بحران میں بھی صحافتی تنظیموں کا کوئی کردار دکھائی نہیں دیا۔

جیو نیوز میں بطور ایسوسی ایٹ پروڈٰیوسر فرائض انجام دینے والے صحافی اور کے یو جے (دستور) کے ممبر فاروق عبداللہ بھی صحافتی تنظیموں کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے، انہوں نے مجھے بتایا کہ ان تنظیموں کا کردار محدود ہے جس کی اہم وجہ پرائیوٹ اداروں کی پالیسی ہے، چونکہ یہ نمائندے کسی نہ کسی پرائیوٹ ادارے سے وابستہ ہیں اس لیے یہ ایسے اقدامات نہیں اٹھاسکتے جو مالکان کے خلاف ہوں۔ ان سے جب میں نے تربیت کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کے یو جے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر سیمینار منعقعد کرواتی رہتی ہے۔

ایکسپریس نیوز سے وابستہ صحافی اور کے یو جے (دستور) کے ممبر وقار احمد نے مجھے بتایا کہ مختلف صحافتی تنظٰمیں آپس میں ہی تقسیم کا شکار ہیں اور ہر تنظیم اپنے مفاد کے لیے کام کرتی ہے، اگر انہیں صحافیوں کے مفادات کے لیے کام کرنا ہے تو یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب تمام تنظٰمیں یکجا ہوں اور ملکر صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔