کیا کامیابی کےلیے صرف اخلاص اور محنت چاہیے؟

یونس مسعود  ہفتہ 25 مئ 2019
کامیابی کےلیے سمت کا تعین ہونا ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کامیابی کےلیے سمت کا تعین ہونا ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک مزدور اپنے حالات بدلنے کےلیے سردی اور گرمی کی پروا کیے بغیر دن رات سخت محنت کرتا ہے۔ وہ اپنے کام سے مخلص بھی ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود ایک خاص حد سے زیادہ رزق حاصل نہیں کرپاتا۔ اس کے مقابلے میں ایک مستری اس سے کم محنت کرکے اس سے زیادہ پیسے کماتا ہے، ایک ٹھیکیدار اس سے بھی زیادہ پیسے کماتا ہے۔ یہ زندگی کے ایک شعبے سے وابستہ افراد کی مثال ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہم دیگر کئی شعبوں سے بھی دے سکتے ہیں۔ جو بات اس سے ثابت ہوتی ہے، وہ یہ کہ کامیابی کے حصول کےلیے محنت اور خلوص ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ محنت اور خلوص آپ کس سمت میں کررہے ہیں۔ جو کامیابی آپ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں اس کےلیے آپ کے اندر مطلوبہ صلاحیتیں کتنی ہیں اور اگر آپ ٹیم ورک کررہے ہیں تو کیا آپ کی ٹیم میں بھی خلوص اور محنت کے علاوہ اپنے شعبے کی متعلقہ صلاحیتیں موجود ہیں یا نہیں۔ اور اگر ہیں تو کتنی؟ کیوں کہ یہی سب امور آپ کی کامیابی کا تعین کریں گے۔

کامیابی کا یہ بنیادی فلسفہ سمجھ لینے کے بعد آئیے اس کا اطلاق براہ راست پاکستانی سیاست پر کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں اس وقت وزیراعظم پاکستان عمران خان بہت سے لوگوں کی نظر میں ایک بہت بڑے لیڈر تصور کیے جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے ماننے والے ان کے دو ہی بنیادی اوصاف بتاتے ہیں، ایک یہ کہ وہ ایک مخلص آدمی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ بہت محنت کررہے ہیں۔ اگر ایک لیڈر کے یہی دو اوصاف اور کامیابی کی یہی دو شرائط ہوتیں تو پاکستان کے مسائل ہمیں ضرور حل ہوتے نظر آتے۔ ایسا اب تک نہ صرف نہیں ہوا بلکہ دور دور تک ایسا ہونے کے امکانات بھی دکھائی نہیں دیتے، اس لیے ہمیں ماننا پڑے گا کہ محنت صحیح سمت میں نہیں ہورہی۔ لیڈر اور اس کی ٹیم میں اپنے اپنے شعبے سے متعلق صلاحیتوں کی کمی ہے۔

اس کی صرف ایک مثال فواد چوہدری کی لے لیں، جنہوں نے ساری زندگی سائنس کے بجائے آرٹس کی تعلیم حاصل کی، انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر بنادیا گیا۔ ایسا کرنا اس وقت درست ہوتا اگر پاکستان میں کوئی بھی سائنس دان موجود نہ ہوتا، یا سائنس کے کسی شعبے میں کوئی پی ایچ ڈی کا حامل ہمیں دستیاب نہ ہوتا۔ یہ اقدام اس وقت بھی کسی حد تک جائز لگتا، اگر اس وزارت کی کوئی خاص اہمیت نہ ہوتی یا پھر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کچھ ایسا ہی کرتے۔ جبکہ ہر ترقی یافتہ ملک میں وزیر اپنے متعلقہ شعبے میں پی ایچ ڈی ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک اتنا بڑا لیڈر ایسے فیصلے کررہا ہے تو مستقبل کی بہتری کی امید ایک باشعور فرد کیسے لگائے؟

معیشت کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اگر بالفرض ابھی آئی ایم ایف سے اتنی کڑی شرائط پر قرضے لیے جارہے ہیں تو بعد میں معیشت کی بہتری کے کون کون سے مؤثر اور انقلابی اقدامات کیے جائیں گے؟ اس سوال کا جواب حکومت کا کوئی بھی نمائندہ بہتر طریقے سے نہیں دے پارہا۔

یہ بات درست ہے کہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ مگر اتنے عرصے میں حالات کی ایک مثبت سمت ضرور متعین ہوجانی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حالات اتنے عرصے میں اگر ٹھیک نہیں ہوسکتے تو کم از کم پہلے سے خراب نہیں ہونے چاہئیں، جو کہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

یونس مسعود

یونس مسعود

مصنف انگریزی زبان کے لیکچرار ہیں اور انہوں نے انگریزی لسانیات میں ایم فل کیا ہوا ہے۔ مختلف جرائد کے لیے سماجی و مذہبی موضوعات پر قلم کاری کرتے رہے ہیں اور اب اپنی صلاحیتوں کا رُخ بلاگنگ کی سمت کرنے میں مصروف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔