ایک بے ڈھب بوڑھی خاتون

ایکسپریس اردو  جمعـء 6 جولائی 2012

میرا دادا مرا تو میری دادی بہتر سال کی تھی۔ بیڈن کے ایک چھوٹے سے شہر میں دادا کا ایک چھوٹا سا سنگی طباعت کا کاروبار تھا جس کو وہ اپنی وفات تک دو یا تین مددگار ملازموں کے ساتھ چلاتا رہا۔ تب میری دادی خادمہ کے بغیر گھر بار کا سارا کام خود کرتی‘ خراب خستہ مکان کی دیکھ بھال کرتی اور مردوں اور بچوں کے لئے کھانا پکاتی۔

وہ تیز‘ چھپکلی کی سی آنکھوں والی‘ ایک چھوٹی‘ دبلی سی عورت تھی‘ گو بات چیت کی دھیمی‘ بڑی ہی قلیل آمدنی پر اس نے اپنی کوکھ کے ساتھ بچوں میں سے پانچ کو پالا پوسا تھا۔ اس کے نتیجے کے طور پر وہ سالوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی ہوتی چلی گئی۔

اس کی دو بیٹیاں امریکا چلی گئیں اور بیٹوں میں سے دو بھی دور جا بسے۔ صرف سب سے چھوٹا‘ جو قدرے نازک سا تھا‘ چھوٹے شہر ہی میں ٹھہرا رہا۔ وہ چھپائی کا دھندا کرنے لگا اور اس کی کثیر عیال داری اس سے سنبھلتی نہ تھی۔

اسی طرح جب میرا دادا مرا‘ میری دادی گھرمیں تن تنہا رہ گئی۔

بچوں نے اس مسئلے پر بھی ایک دوسرے کو خط لکھے کہ اب دادی اماں کا کیا کیا جائے۔ ان میں سے ایک نے اسے اپنے گھر کی پیشکش کی اور چھپائی والا اس کے گھر منتقل ہو جانے کا خواہش مند تھا۔ مگر بوڑھی عورت نے ان تجویزوں پر کان نہ دھرے اور اپنے صرف ان بچوں سے جو اس کی استطاعت رکھتے تھے‘ قلیل گزارے کا خرچہ لینے پر رضا مند ہو گئی۔ سنگی طباعت کا کاروبار‘ جو اب اگلے وقتوں کا ہو چکا تھا‘ اونے پونے فروخت کر دیا گیا اور تھوڑے بہت قرضے بھی واجب الادا تھے۔

بچوں نے خطوں میں لکھا کہ جو بھی ہو‘ وہ بہر حال بالکل تن تنہا تو نہیں رہ سکتی۔ لیکن چونکہ اس نے اس بات پر مطلق توجہ نہ دی‘ انھوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ماہ بہ ماہ اسے تھوڑی سی رقم بھیجنے لگے۔ پھر ان کو یہ بھی خیال تھا کہ چھپائی والا بھائی تو ہے ہی‘ جو شہر میں رہ گیا تھا۔

علاوہ بریں‘ چھپائی والے نے اپنے بھائی بہنوں کو ان کی ماں کے بارے میں وقتاً فوقتاً اطلاع دیتے رہنے کا ذمہ لیا۔ چھپائی والے نے میرے باپ کے نام جو خط لکھا اور جو کچھ میرے باپ کو دیا‘ میری دادی کی تدفین کے دو سال بعد وہاں جانے پر پتا چلا۔ ان سے میرے ذہن میں ان دو سالوں کے حالات کی ایک تصویر بنتی ہے۔

یوں لگتا ہے کہ شروع ہی سے چھپائی والے کو بڑی مایوسی ہوئی کہ میری دادی نے اسے اپنے گھر میں منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا جو اچھا خاصا بڑا تھا اور اب خالی پڑا تھا۔ اس کے چار بچے تھے اور وہ تین کمروں میں رہتا تھا لیکن جو بھی سمجھو‘ بوڑھی عورت کے اس کے ساتھ تعلقات سرسری سے تھے‘ وہ بچوں کو اپنے ہاں اتوار کی اتوار سہ پہر کے وقت کافی پر بلاتی اور بس‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

تین مہینوں میں ایک آدھ بار وہ اپنے بیٹے سے ملنے چلی جاتی اور اپنی بہو کے ساتھ مل کر مربہ تیار کرتی۔ نوجوان عورت نے اس کی بعض باتوں سے یہ اندازہ لگایا کہ چھپائی والے کا چھوٹا سا گھر اسے تنگ اور گھٹا گھٹا لگتا ہے۔ چھپائی والے سے اس کی اطلاع دیتے ہوئے‘ حیرت کی علامت کا اضافہ کرنے سے نہ رہا گیا۔ میرے باپ نے لکھ پوچھا کہ بوڑھی عورت ان دنوں کیا کرتی پھر رہی ہے۔ جس کا چھپائی والے نے کچھ ٹکا سا جواب یہ دیا‘’’سنیما جاتی ہے‘‘۔

یہ جان لینا چاہئے کہ یہ کوئی مناسب بات ہرگز نہ تھی‘ کم از کم اس کی اولاد کی نگاہوں میں بالکل نہیں۔ تیس برس پہلے سنیما وہ نہیں تھا جو وہ اب ہے۔ ان دنوں سینما کا مطلب ایسی عمارت ہوتا تھا جہاں ہوا کا گزرنہ ہوتا تھا اور جو اکثر کاٹھ کباڑ سے ٹھونک ٹھانک کر کھڑی کر دی جاتی تھی۔ باہر قتل اور محبت کے المیوں کے بھڑک دار اشتہار چسپاں ہوتے تھے۔ سچ پوچھو تو حقیقت میں صرف وہاں نوجوان یا‘ اندھیرے کی وجہ سے‘ عشق کرنے والے جوڑے ہی جاتے تھے۔ ایک اکیلی بوڑھی عورت وہاں یقینا بہت ہی نمایاں ہوتی۔

اور اس سینما نوردی کا ایک اور بھی قابل غور پہلو تھا۔ بے شک داخلے کی رقم معمولی تھی مگر یہ تفریح کم و بیش عیاشی کے زمرے میں آتی تھی۔ اس لئے یہ روپے کا ضیاع تھا اور روپے کا اس طرح لٹانا شریفانہ فعل نہ تھا۔

مزید برآں میری دادی نہ صرف یہ کہ وہ اپنے چھپائی والے بیٹے کے ساتھ کوئی باقاعدہ میل ملاپ نہیں رکھتی تھی‘ بلکہ وہ اپنے دوسرے جاننے والوں میں سے کسی کو بھی اپنے گھر نہیں بلاتی تھی اور نہ ہی خود ان کے گھر جاتی تھی۔ وہ اس چھوٹے شہر میں کافی پارٹیوں میں بھی نہ جاتی۔ اس کے برعکس وہ ایک بدحال اور کچھ کچھ بدنام کوچے میں ایک موچی کی دکان پر اکثر‘ بالخصوص سہ پہر کو جایا کرتی‘ جہاں ہر قسم کے مشکوک کردار کے لوگ منڈلاتے ہوتے۔ بے روزگار خادمائیں اور سفری ہنر پیشہ‘ موچی ایک اوسط عمر کا آدمی تھا جس نے دنیا میں جگہ جگہ پاپڑ بیلے تھے‘ مگر اس سے اس کو کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ شراب پیتا تھا۔ بہر حال‘ وہ میری دادی اماں کے لئے کوئی مناسب ہم صحبت نہ تھا۔

چھپائی والے نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ اس نے اپنی ماں کو یہ بات جتائی تھی‘ جس کا بوڑھی عورت نے بڑا ٹھنڈا سا جواب دیا‘ وہ یہ کہ اس نے دنیا دیکھی ہوئی ہے اور یہاں یہ گفتگو ختم ہو گئی۔ میری دادی سے ان معاملات پر کوئی بات کرنا جنہیں وہ زیر بحث نہ لانا چاہتی ہو‘ آسان نہ تھا۔

دادا کے انتقال سے چھ ماہ بعد چھپائی والے نے میرے باپ کو لکھا کہ ان کی ماں اب ہر دوسرے دن ایک طعام خانے میں جا کر کھانا کھاتی ہے۔

فی الواقع یہ ایک خبر تھی۔ دادی اماں جو اپنی ساری عمر گھر کے ایک درجن لوگوں کے لئے کھانا پکاتی رہی تھی اور جو خود موٹا جوٹھا کھا کر صبر شکر کر لیتی تھی‘ اب ہوٹل میں کھانا کھاتی تھی۔ آخر اسے ہو کیا گیا تھا؟

اس کے تھوڑی مدت بعد میرے باپ کا اس شہر کے آس پاس کاروبار کے سلسلے میں جانا ہوا اور وہ اپنی ماں سے ملنے گیا۔ جب گھر پر پہنچا تو وہ کہیں باہر جانے کو تیار کھڑی تھی۔ اس نے پھر اپنا ہیٹ اتار دیا اور اپنے بیٹے کی سرخ شراب کے گلاس اور بسکٹ سے تواضع کی۔ وہ ایک بالکل پرسکون موڈ میں تھی ‘ نہ خاص طور پر خوش‘ نہ ہی خاص طور پر خاموش۔ اس نے ہم سب کا حال چال پوچھا‘ گو زیادہ تفصیل سے نہیں اور سب سے زیادہ وہ یہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا بچوں کو چیریاں دستیاب ہیں یا نہیں۔ یہاں وہ بالکل اسی طرح تھی جیسی وہ پہلے ہواکرتی تھی۔ بلاشبہ کمرہ چمکتا دمکتا ٹچن تھااور وہ صحت مند نظر آتی تھی۔

صرف ایک چیز جس سے اس کی نئی زندگی کا اظہار ہوتا تھا‘ یہ تھی کہ وہ میرے باپ کے ہمراہ قبرستان اپنے خاوند کی قبر پر جانے کو تیار نہ تھی۔ ’’تم خود ہو آئو‘‘ اس نے بے پروائی سے کہا‘ ’’گیارھویں قطار میں بائیں سمت کو تیسری قبر ہے۔ مجھے کہیں جانا ہے‘‘۔

چھپائی والے نے بعد میں کہا کہ اسے غالباً اپنے موچی کے ہاں جانا ہو گا۔ اس نے تلخی سے ماں کی شکایت کی۔ ’’یہاں میں اپنے کنبے کیے ساتھ اس سوراخ میں پھنسا ہوں۔ پانچ گھنٹے کی سخت محنت سے مجھے مناسب اجرت بھی نہیں ملتی۔ اس پر میرا دمہ مجھے پھر تنگ کر رہا ہے اور وہ بڑی گلی والا گھر خالی پڑا ہے‘‘۔

میرے باپ نے ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا۔ پھر بھی اسے توقع تھی کہ منہ رکھنے کو ہی‘ اس کی ماں اسے گھر میں آ رہنے کو ضرور کہے گی مگر دادی نے اس کا ذکر تک نہ کیا۔ تاہم ان دنوں جب گھر بھرا پرا ہوتا تھا‘ وہ اپنے بیٹے کو ان کے ساتھ نہ رہنے اور ہوٹل میں روپیہ خرچ کرنے پر ہمیشہ معترض ہوا کرتی تھی۔

لیکن ایسا لگتا تھا کہ اب اس نے خاندانی زندگی کو خیر باد کہہ دیا ہے اور اپنی زندگی کی ڈھلتی شام میں نئی راہوں پر چل نکلی ہے۔ میرے باپ نے‘ جس میں مزاح کی اچھی حس ہے‘ خوب شوخ وشنگ‘ خیال کیا اور میرے چھپائی والے چچا سے کہا کہ بوڑھی عورت جو کچھ چاہتی ہے‘ اسے کرنے دو۔

اور وہ کرنا کیا چاہتی تھی؟

دوسری چیز جس کی ہمیں خبر پہنچی یہ تھی کہ دادی اماں نے ایک ’بریک‘ کرائے پر لی تھی اور ایک بالکل عام جمعرات کے روز اس میں سیر و تفریح کی خاطر چل نکلی تھی‘ ’بریک‘ بڑی اونچی کمانیوں کی گھوڑے والی گاڑی ہوتی ہے جس میں کئی کنبے سما سکتے ہیں۔ اکثر جب ہم دادا سے ملنے شہر میں آتے‘ وہ ہمیں سیر کرانے کے لئے بریک کرائے پر کر لیا کرتا۔ دادی ہمیشہ پیچھے گھر میں رہ پڑتی تھی۔ وہ نفرت سے بازو لہرا کر ہمارے ساتھ سیر سپاٹا کرنے سے انکار کر دیتی۔ بریک والے واقعے کے بعد خبر ملی کہ دادی اماں نے ک… کے شہر کا سفر کیا ہے جو ریل سے دو تین گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ وہاں کوئی گھڑ دوڑ تھی اور میری دادی گھڑ دوڑ دیکھنے گئی تھی۔

چھپائی والا اب واقعی فکر مند ہو گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ دادی کے علاج کے لئے ڈاکٹر کو بلایا جائے۔ میرے باپ نے بھائی کا خط پڑھ کر سر کو جنبش دی مگر وہ ڈاکٹر کو بلانے کے خلاف تھا۔

میری دادی اکیلی نہیں گئی تھی۔ وہ اپنے ہمراہ ایک نوجوان لڑکی کو لے کر گئی تھی جو چھپائی والے کے خط کے مطابق کسی قدر باؤلی تھی۔ وہ اس طعام خانے میں باورچن کی نائب تھی جس میں بوڑھی عورت ہر دوسرے روز کھانا کھانے جاتی تھی۔

اس روز سے اس ’باؤلی‘ کا خوب ذکراذکار ہونے لگا۔ میری دادی اسے سینما اور سوچی کے ہاں لے کر جاتی(جس کا بقول چھپائی والے کے سوشلسٹ ہونا ثابت تھا‘ اور یہ بھی افواہ سنی گئی تھی کہ دونوں عورتیں انگوری شراب کے گلاس سامنے دھرے باورچی خانے میں تاش کھیلتی ہیں)۔

اب اس نے اس باؤلی کو گلابوں سے سجاہیٹ خرید دیا ہے‘ چھپائی والے نے مایوسی میں لکھا‘ اور ہماری اینا کے پاس گرجا جانے کے کپڑے تک بھی نہیں۔

میرے چچا کے خط کا فی ہذیانی سے ہونے لگے۔ ان کا واحد مضمون ہماری پیاری والدہ کا قابل افسوس طور طریقہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان خطوں میں کوئی اور بات نہ ہوتی تھی۔ باقی باتیں مجھے اپنے باپ سے معلوم ہوتیں۔

ہوٹل والے نے آنکھ مار کر میرے باپ سے کہا تھا‘ جیسا کہ کہتے ہیں‘ مسزج آج کل خوب عیاشیاں کر رہی ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ ان آخری سالوں میں بھی میری دادی کسی طور سے فضول خرچی سے نہیں رہتی تھی۔ جب وہ طعام خانے میں کھانا نہ کھاتی‘ وہ بالعموم گھر پر ایک چھوٹی انڈوں کی ڈش‘ کچھ کافی اور سب سے بڑھ کر اپنے محبوب بسکٹ پر قناعت کرتی۔ ہاں‘ وہ اپنے آپ کو ایک سستی سرخ شراب کی ڈھیل ضرور دیتی تھی‘ جس کا ایک گلاس وہ ہر کھانے کے ساتھ ضرور پیتی۔ وہ اپنے گھر کو بے حد صاف ستھرا رکھتی اور صفائی صرف سونے والے کمرے اور باورچی خانے تک ہی محدود نہ تھی‘ یہ تو تھا مگر پھر بھی اس نے اپنی اولاد کو بتائے بغیر مکان کو گروی کر دیا۔ اس روپے کا اس نے کیا کیا؟ اس کا پتا کبھی نہ چلا۔ قیاس غالب ہے کہ اس نے یہ روپے موچی کو دے دیئے۔ دادی کے مرنے کے بعد موچی ایک اور شہر کو نقل مکانی کر گیا اور سننے میں یہ آیا کہ اس نے وہاں ہاتھ سے بنے جوتوں کی اچھی خاصی تجارت قائم کر لی۔

سوچیں تو ہماری دادی اماں نے یکے بعد دیگر دو زندگیاں جیئیں۔ پہلی ایک بیٹی‘ بیوی‘ ماں کی حیثیت سے‘ دوسری بے تعلق مسزج کی حیثیت سے‘ سب ذمے داریوں کے بغیر۔ اس کے لئے اس کے پاس پر کفایت مگر اس کی ضروریات کے مطابق کافی وسائل تھے۔ پہلی ’زندگی‘ کوئی ساٹھ ایک برس تک رہی‘ دوسری صرف دو برس۔

میرے باپ کو پتا چلا کہ اپنے آخری چھ مہینوں میں اس نے اپنے آپ کو چند ایسی ’آزادیوں‘ سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دے دی تھی کہ جو نارمل لوگوں کے تجربے سے باہر ہیں۔ مثلاً کبھی گرمیوں کے موسم میں صبح کے تین بجے اٹھ کھڑی ہوتی اور اپنے چھوٹے شہر کے ویران گلی کوچوں میں گھومتی پھرتی اور یہ بھی بیان کیا جاتا تھا کہ جب پادری بوڑھی عورت کے پاس اسے اس کی تنہائی میں رفاقت مہیا کرنے آیا‘ اس نے اسے سنیما چلنے کی دعوت دی۔

وہ قطعاً تنہائی کا شکار نہ تھی۔ یوں لگتا ہے کہ خوش دل بے فکروں کا مجمع موچی کی دکان پر جمع ہو جاتا تھا اور مزے کی گپ شپ ہوتی رہتی تھی۔ وہاں وہ اپنے پاس اپنی سرخ شراب کی بوتل ضرور رکھا کرتی اور جب دوسرے گپ بازی کرتے وہ اپنی سرخ شراب سڑکتی اور بلدیہ کے کارکنوں کو کوسنے دیتی رہتی۔ یہ شراب اس کے اپنے لئے وقف ہوتی۔ گھر میں کبھی کبھی وہ اپنی گرہ سے وہاں موجود لوگوں کی زیادہ تند شراب سے تواضع کرتی تھی۔

خزاں کی ایک سہ پہر کو وہ اپنے سونے کے کمرے میں اچانک چل بسی۔ بستر پر نہیں بلکہ ایک سیدھی کرسی پر جو دریچے کے ساتھ رکھی رہتی تھی۔ اس نے اس شام اپنی ’باؤلی‘ لڑکی کو سنیما کی دعوت دے رکھی تھی اور اس طرح اس کے مرنے کے وقت لڑکی بھی اس کے پاس آئی ہوئی تھی… وہ چوہتر برس کی ہو کر مری۔

میں نے اس کا ایک فوٹو گراف دیکھا ہے جو بچوں کی خاطر لیا گیا تھا اور جس میں اسے جنازے کے لئے لیٹا ہوا دکھایا گیا ہے۔ اس فوٹو گراف میں جو دکھائی دیتا ہے وہ ایک ننھا سا‘ چھوٹا سا چہرہ ہے‘ بے شمار چھریوں سے بھرا ہو اور ایک پتلے ہونٹوں والا فراخ منہ‘ بہت کچھ چھوٹا چھوٹا‘ مگر دادی میں کوئی چھوٹا پن نہ تھا۔ اس نے اپنی غلامی اور خدمت گزاری کے طویل برسوں اور آزادی کے مختصر سالوں کا مزہ بھرپور طریقے سے چکھا تھا اور زندگی کی روٹی کو اس کے آخری لقمے تک کھایا تھا۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔