ایڈز اور ہم

ڈاکٹر عفان قیصر  اتوار 2 جون 2019
www.facebook.com/draffanqaiser

www.facebook.com/draffanqaiser

رات کے دو بج رہے تھے، سحری کا وقت قریب تھا۔ میں گاڑی میں اکیلا تھا،اشارے پر گاڑی روکی تو کسی نے شیشہ کھٹکھٹایا ، سنسان رات میں اشارے پر رات کے اس پہر یہ کون تھا جو بھیک مانگ رہا تھا۔ ایسا تو کبھی اسلام آباد، راولپنڈی کی سڑکوں پر نہیں ہوا اور یہ پھر ملتان تھا۔

یہ ایک خواجہ سراء تھا، خوب میک ایپ اور حسین لڑکی کا روپ، جیسے کوئی حور ہو۔ میں ایک دم بوکھلا گیا، ڈر کے مارے شیشہ نیچے نہ کیا، تو وہ اور زور سے شیشہ بجانے لگا، مجھے اس سے خوف آرہا تھا۔ ہمت کر کے شیشہ نیچے کیا تو کہنے لگا، بابو کچھ دے دو،عید قریب ہے۔ میں نے پیسے نکالے تو کہنے لگا،تھوڑے اور دے دو، مجھے ایڈز ہے ،اس کی تو میں دوائی لے لوں گی۔

میں دیر تک اس کی آنکھوں کی وحشت پڑھتا رہا، بٹوے میں جتنے پیسے تھے،اس کے ہاتھ پر رکھے اور آگے نکل گیا۔ ایک خواجہ سراء نے رات کے اس پہر مجھے ایک نئی سوچ دی تھی۔ میں ایڈز پر تحقیق میں یونائیٹڈ نیشن کی ایک تنظیم کے ساتھ تحقیق میں مصروف تھا،اور میرے لیے یہ سب حیران کن تھا کہ وہ بیماری جس میں مبتلا 1 لاکھ 45 ہزار پاکستانی،اس سے واقف ہی نہیں،اس خواجہ سراء کو اپنی اس بیماری کا علم بھی تھا،اور وہ اس کا کھلے عام اظہار بھی کررہا تھا اور علاج بھی کرارہا تھا۔مجھ جیسے محقق کے لیے اس میں حیرانی سے زیادہ خوشی کی بات تھی اور اس کا اندازہ مجھے تفصیلات جان کرہوا۔

دنیا میں اس وقت ایڈز کے مریضوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور ان میں 94 لاکھ مریض ایسے ہیں جن کو اپنی بیماری کے بارے میں کوئی جان کاری نہیں ہے۔پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ افراد میں ایڈز کا مرض ہونے کا خدشہ ہے،جن میں سے صرف بیس فیصد کو اپنی بیماری کا علم ہے، صرف 16 فیصد اپنا ٹیسٹ کراتے ہیں جب کہ علاج کے لیے صرف 9 فیصد لوگ حامی بھرتے ہیں اور انھی کو علاج تک رسائی ہے۔یہ خواجہ سراء ان 9 فیصد میں تھا۔ 2010ء سے اب تک ایڈز کے کیسز میں 45 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں ایڈز کا وائرس وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ستمبر 2017میں چنیوٹ پنجاب میں ایڈز کے 57 کیسز سامنے آئے ، جن میں 17 جان کی بازی ہار گئے اور جب اسکریننگ کیمپ لگا کر وہاں ایڈز کا پتہ چلایا گیا تو آنے والا افراد میں ستر افراد میں ایڈز کے مرض کے وائرس ایچ آئی وی کی تصدیق ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد محکمہ صحت ایکشن میں آیا تو نیشنل ہیلتھ سروسز کی جانب سے سروے کرایا گیا جس کے مطابق پنجاب میں اس وقت ایڈز کے 75 ہزار مریض موجود ہیں،جن میں 26 فیصد کا تعلق وزیر اعلی پنجاب کے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان سے ہے۔

سندھ میں اس وقت ایڈز کے ساٹھ ہزار مریض موجود ہیں، جب کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ایسے کیسز کی تعداد پندرہ ہزار ہے۔ پاکستان میں پندرہ سال سے زائد عمر کے ایک لاکھ 45 ہزار ایڈز کے مریضوں میں 99 ہزار مرد اور 43 ہزار خواتین ہیں۔ پاکستان میں 21 فیصد منشیات کے عادی افراد میں ایڈز کا وائرس موجود ہے۔اس وقت پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور سندھ میں لاڑکانہ میں یہ مرض بدترین صورتحال اختیار کر چکا ہے اور یہاں ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کی جانب سے صومالیہ طرز کی ایمرجنسی نافذ ہے۔

صرف ڈیرہ غازی خان میں سات ہزار افراد ایڈز کا شکار ہیں ۔ یہاں کا قصبہ کوٹ مبارک پورے پاکستان میں ایڈز کی وباء کا سب سے زیادہ متاثر علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ قصبہ سخی سرور، شاہ صدر دین اور جام پور میں بھی ایڈز کے کیسز کی تعداد حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ لاڑکانہ میں حال ہی میں ڈاکٹر مظفر نامی ایک ڈاکٹر کو رتو ڈیر و کے علاقے میںگرفتار کیا گیا۔ یہ بچوں کے ڈاکٹر تھے،ان کی وہاں اچھی خاصی پریکٹس تھی۔ان پر الزام یہ تھاکہ انھوں نے وہاں 45 بچوں کو استعمال شدہ سرنج استعمال کرکے اپنے جسم کا ایڈز کا وائرس منتقل کردیا۔

تحقیقات پر معلوم ہواکہ وہاں کی لوکل انتظامیہ لاڑکانہ میں ایڈز کی وباء پھوٹنے کی ذمے داری کسی پر ڈالنے چاہتی تھی اور یوں ڈاکٹر مظفر کو قربانی کا بکرا بنایا گیا،جب کہ وہ خود فرائض کی ادائیگی میں ایڈز کا شکار ہوئے تھے اور ان کو اس بات کا علم بھی اسکریننگ کے دوران ہی ہوا تھا۔ ملک میں سیاسی ماحول گرم ہوا تو سب سے زیادہ تنقید پاکستان پیپلز پارٹی پر کی جانے لگی کہ سندھ میں صحت کی سہولیات کا یہ حال ہے کہ لاڑکانہ میں بچے ایڈز سے مررہے ہیں اور اس پر توجہ نہیں دی جارہی، جب کہ سیاسی سے زیادہ پریشان کن صورتحال تھی۔ کیونکہ ایڈز کے وائرس کا سندھ ، پنجاب کے نواحی علاقوں اور اب بڑے شہروں میں پھیلنا خطرناک آفت کا پیش خیمہ ہے۔

صومالیہ میں ایڈز کے پھیلائو کی وجہ سے پوری دنیا میں وہاں کے باشندوں کو ویزے کے حصول میں جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،وہ ایک الگ کہانی سہی ، مگر ہمارے ہرے پاسپورٹ پر جب دہشت گردی کے ساتھ ایڈز کا داغ بھی لگ گیا تو ہم دنیا سے مکمل طور پر کٹ جائیں گے۔ سفارتی کے ساتھ ایڈز کا وائرس وبائی شکل اختیار کرتا پھیلتا چلا گیا تو یہ ہیپاٹائیٹس بی اور سی کی طرح پوری کی پوری بستیاں برباد کردے گا ، ہنستے بستے گھر اجاڑ دے گا اور اس طرف کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ہاں شرمناک حد تک ایڈزکے پھیلائو کی سب سے بڑی وجہ وہی ہے، جو افریقہ کے جنگلوں میں وائرس کے 1980 میں دریافت کے وقت پائی گئی تھی۔ یہ وائرس افریقہ میں بندروں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔