نتھو رام ، گاندھی اور مودی

جاوید قاضی  اتوار 2 جون 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

صوفی ، سادھو سنت فقیروں سے جڑتا تھا گاندھی۔ بھکشو وں جیسا لباس زیب تن کرتا تھا۔ پیشے کے اعتبار سے بیرسٹر تھا مگر اندر میں اھنسا اتنی رچ بس گئی کہ پھر گاندھی نہ یہ رہا نہ وہ۔ وہ آئن سٹائن کے بقول ’’نہ جانے کتنی آئندہ کی نسلیں آئیں گی، کتنا مشکل ہوگا ان کے لیے یہ یقین کرنا کہ کوئی ایسا بھی شخص اس دھرتی پر رہتا تھا۔‘‘

یہ سب گجراتی تھے ۔ جناح ، گاندھی ، پاٹیل اور آج کا مودی۔ جناح نے ہندوستان کا بٹوارہ کیا مگر پاٹیل کے پیروکار مودی نے ہندوستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی سوچ رکھی ہے۔ آج جناح درست نظر آتا ہے۔ اب گاندھی جیسی سوچ کی صرف ایک ہی شخصیت موجو دہے وہ ہے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم، جیسنڈا آرڈین۔ باقی آسٹریلیا میں بھی ان کے چنائو میں کم و بیش مودی جیسی حکومت کی شکل بنی ہے۔ اٹلی ، برازیل، امریکا ، برطانیہ سینٹرل یورپ ، غرض کہ یہ وباء اتنی پھیل چکی ہے کہ آج اگر ہندوستان اس کا شکار ہوا ہے تو کوئی انوکھی بات نہیں۔ وہ ہندوستان جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جسکے جمہوری ادارے بہت مضبوط ہیں، وہ ہٹلر جیسی اس ابھرتی فسطائیت کو ضرور مات دیں گے۔

ہٹلر نے جرمن نیشنلزم کو جنم دیا۔ مودی نے ہندو نیشنلزم کو بیلٹ باکس کی چوٹ پر جتوایا۔ امرتا سین لکھتی ہیں کہ وہ مودی جو پچھلی بار معاشی ایجنڈا لے کر الیکشن میں کودا تھا وہ توپورانہ کر سکا لیکن ہندوستان میں بیروزگاری کے 45 سالا ریکارڈ ٹوٹ گئے اور اس بار وہ ہندو نیشنلزم، نفرت اور پاکستان دشمنی کے ایجنڈا لے کر میدان میں اترا ہے۔ اس بار مودی کو تازہ ہوا پلوامہ میں ہونے والے حملے نے بھی جتوایا۔ اس کا بس ایک ہی نقطہ نظر تھا وہ تھا ’’ڈر‘‘ پاکستان ہندوستان کو برباد کر دیگا! مودی میدان ما رگیا ۔ وہ گاندھی ، نہرو کی پارٹی جس نے تیس سال مسلسل حاکمیت کی ۔ نہ صرف بری طرح ہاری بلکہ اس کے مستقبل میں ہندوستان کی دوسری بڑی پارٹی ہونے والے رتبے پر بھی سوال اٹھنے لگے اور ہندوستان کا سیکیولرزم اکھڑتا نظر آرہا ہے ، اقلیتوں کے بد ترین دن آنے کو ہیں۔

جو انگریزوںکی تاریخی عمارات جو ان سے منسوب ہیں ان کو مٹادیا۔ چلو وہ اب ہندوستان میں نہیں رہتے ٹھیک ہے مگر وہ جو مسلمانوں کے نام سے منسوب ہیں ان کو کیوں مسمار کیا جارہا ہے ۔ ہندوستان میں تو اب بھی مسلمان کروڑوں کی تعداد میں رہتے ہیں!! ظلم ہوگیا چھ سو سال مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت کی ۔ ہندوئوں پے ظلم کیا اور یہ ہے وہ بیانیہ جو مودی کے بنائے ہندو نیشنلزم کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔

ہندوستان میں دو طرح کے مسلمان ہیں ایک وہ مسلمان جو کشمیریوں پر ڈھائے ستم پر ہندوستان کے بیانیہ کو اپنا بیانیہ سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہیں جو اپنے آپ کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ کیا سوچیں گے اب ہندوستانی مسلمان ۔ جن کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان ہیں ۔ شبانہ اعظمی ہوں یا شاہ رح خان۔ مگر ایسے کئی سیکیولر ہندو بھی ہیں جو غدار ٹھرتے ہیں ۔ اب جو رسم چلی ہے ہندوستان میں سب کے سب غدار ٹھہرے ، خود گاندھی بھی!!!بی جے پی کے لوک سبھا میں جیت کے آنے والے ایک ممبر پرگیا ٹھاکرے نے کہا ہے کہ نتھو رام گوڈسے جس نے گاندھی کے سینے میں تین گولیاں پیوست کی تھیں وہ محب وطن تھا۔

نتھو کے ماں باپ کے ہاںتین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی اور پیدا ہونے کے کچھ ہی زمانوں بعدوہ وفات پاگئے جب نتھورام پیدا ہوا تو ماں باپ نے پرانت و پنڈتوں کے کہنے پے اس کی پالنا بیٹی بنا کر کی۔ اس کی ناک میں سوراخ کروایا اور اسے نتھ پہنا دی اور اس طرح برھمن خاندان میں پیدا ہوئے اس بچے پر نتھورام کا نام پڑا۔

عجیب تھا گاندھی ، کہتے ہیں وہ قران شریف بھی پڑھتا تھا ۔ جب مسلمانوں کو کلکتہ میں فسادات کا سامنا ہوا توان ہجرت کے زمانوں میں یہ مرن گھڑی تک کا برت رکھ کے بیٹھ گئے ۔ شیخ مجیب اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ گاندھی نہ ہوتے تویہاں بھی اتنا ہی خون خرابہ ہوتا جتنا کہ پنجاب کے بٹوارے سے پیدا ہونے والی ہجرت سے ہوا تھا۔

کلدیپ نیئر لکھتے ہیں کہ جب گاندھی قتل ہوا تو سب کی نگاہیں ولبھ بھائی پاٹیل کی طرف اٹھیں۔ اور یہ باور کیا گیا کہ گاندھی کے خون کرانے میں پاٹیل کا ہاتھ ہے ۔ پاٹیل کہتا رہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ غالبأ کوئی کمیٹی بھی نہرو نے اس حوالے سے بنائی تھی لیکن کلدیپ کہتے ہیں کہ جب گاندھی نے زور دیا کہ پاکستان کو اثاثوں میں اس کا اپنا حصہ دو ورنہ میں روزہ رکھوں گا تو پاٹیل کھل کے گاندھی کے خلاف آئے اور کھلی کچھریوں میں ان کو برا بھلا کہتے تھے کہ ‘‘اس بڈھے کو اب مر جانا چاہیے‘‘ یہاں سے سنا تھا نتھورام نے جو خود آر آر ایس کا سرگرم رکن تھا اور پھر نتھو نے وہ کام کر ڈالا جو پاٹیل نے کہا۔

مودی نے اپنے پچھلے دور میں پاٹیل کا اتنا طویل قامت مجسمہ گجرات میں بنوا کے کھڑا کیا ہے ۔

لگ بھگ 75 ارب روپے اس مجسمے کے پروجیکٹ پر لاگت آئی اور ا س پر وجیکٹ نے تمام دنیا کے بتوں کو لمبائی میں اپنی ساخت میں پیچھے چھوڑدیا ۔ ہو سکتا ہے مودی اب اپنے اس دور میں ہندو نیشنلزم کے دوسرے بڑے ہیرو نتھو رام کا مجسمہ بھی اسی شان و شوکت سے بنوائے۔

مودی کا جیتنا ہندوستان کی فتح نہیں ہے، یہ اس کی شکست ہے۔ کبھی کبھی دہائیاں لگ جاتیں ہیں سچ کا عام آنکھ تک عیاں ہونے میں ۔ ہٹلر کا جیتنا جرمنی کی فتح نہیں تھی، یہ اس کی شکست تھی ۔ آج اس خطے میں بھی ایک فسادی طاقت ابھری ہے۔

یہ ہندوستانی ہمارے اپنے ہیں ۔ ہم کل تک ایک تھے آج اگر الگ بھی ہیں تو ہم اس تاریخ سے انحراف نہیں کر سکتے جو ہماری ہے ، وہ طبلہ ، وہ شہنائی ، ستار۔ امیر خسرو کی قوالی وہ بھجن میرا بائی اور کبیر۔

گاندھی اس روزقتل نہیں ہوا تھا ۔ گاندھی اب مر ا ہے جب بی جے پی نے کہا کہ نتھو رام محب وطن تھا ۔ اس روز تو اس کے جسم سے لہو بہا تھا اور آج تو پورا سیکیولر ہندوستان لہولہاں ہوا ہے ۔ جناح نے صحیح دیکھا تھا اور آج جناح صحیح ثابت ہوئے۔ کم از کم ہندو نیشنلزم کی ڈھتی ان بنیادوں نے 72 سال کے بعد جناح کے بارے میں جو ہمیں ابہام تھے کہ شاید ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہونا چاہیے تھا وہ غلط ثابت ہوا۔

یہ اور بات ہے کہ ہمارے اپنے وجود میں جو مسائل ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت کو پروان تو چڑھانہ سکے ۔ہم امریکا کی گود میں بیٹھ گئے اور پھر ایک طویل داستان ہے۔ لیکن آج ہمارے اندر ہندوستان دشمنی نہیں ہے جو کل تک تھی اور یہاں بھی لوگوں نے وہ دھندہ کرنے کی کوشش کی تھی جو مودی وہاں کرتا ہے۔

مودی چاہے گا کہ وہ پاکستان کی معاشی پریشانیوں میں ہمیںاور پیچھے دھکیلے اور ہمیں بھی پتہ ہونا چاہیے کہ معاشی لحاظ سے مضبوط پاکستان خود اپنا دفاع بھرپور انداز میں کرسکتا ہے۔ ہمارے بیانیہ میں جو ہمیں گاندھی سے نفرت کروانا سکھائی گئی تھی وہ غلط تھی۔ اچھا کیا مودی نے ہمیں گاندھی کی اصل شکل دکھادی۔ اسٹینلے وولپرٹ لکھتے ہیں کہ گاندھی چاہتا تھا کہ مولانہ آزاد کانگریس کے صدر بنیں ۔ نہر و اور پاٹیل اس کے لیے رکاوٹ بن گئے ۔ گاندھی کو کانگریس نے کاٹ دیا ۔ مولانہ آزاد لکھتے ہیں کہ پاکستان جناح نے نہیں نہرو اور پاٹیل نے بنایا تھا ۔ آج مودی نے ثابت کردیا کہ آزاد نے صحیح کہا تھا۔ مگر اس گاندھی سے آج مجھے بہت قربت ہونے لگی ہے، وہ گاندھی جس کا ہندوستان میں رہنا بہت تنگ ہوگیا ہے اس کی اہنسا ، اس کی سیکیولرزم کا قتل ہوگیا ہے۔

کبھی کبھی سیاست کتنی بے رحم اور خود غرض بن جاتی ہے ۔ آج اس عظیم ہندوستان جس کو کوئی حملہ آور فتح نہیں کر سکا اور وہ تب جاکے شانت ہوا جب اکبر اعظم نے ان کی طرح ہونا پسند کیا۔ اس ہندوستان کو آج کوئی اور نہیں خود مودی سے خطرہ ہے، کسی اور نظریئے سے نہیں، ہندو نیشنلزم کے نظریئے سے خطرہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔