نان ایشوز کے بادل!

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 4 جون 2019
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ملک کاایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ نان ایشوزکواس قدر بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا ہے کہ حقیقی مسائل چھپ جاتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں عیدکے چاند نظر آنے کو بھی ایک بڑے مسئلے کے طور پر لیا گیا اورگزشتہ برسوں کے مقابلے میںاس سال کچھ زیادہ ہی بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک شرعی مسئلہ کوکھینچ تان کر سائنس سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر عقلی دلیلوں سے ایک طوفان میڈیا پر چلتا ہے کہ جیسے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے۔ جید علماء کا واضح موقف ہے کہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے جس کے تحت رویت ہلال ،رسول ﷺ کے حکم کے سامنے کسی کا حکم نہیں۔

جب ہم اپنی زندگی کے معاملے میں اپنے جید علماء کی رائے کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر بلا وجہ غیر علماء کو یا دنیا دارقسم کے لوگوں کی رائے کو ان جید علماء کی رائے پر فوقیت کیوں دیں اور بلاوجہ مسئلہ بڑھائیں؟ جب علماء کی اکثریت رویت کی قائل ہے تو پھر اس میں بحث کی کیا ضرورت؟ افسوس ہر تھوڑے عرصے بعد ہمیں میڈیا پر ایسے ہی نان ایشوز دیکھنے کو ملتے ہیں اور عوام کے اصل مسائل پر بات ہی نہیںہوتی۔

اس وقت عوام جن مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ان میں تین قسم کے مسائل ان کی روزمرہ کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ ان تین مسائل میں ایک صحت کی سہولیات ، دوسرا ذاتی رہائش اور تیسرا مسئلہ معیاری تعلیم کا ہے۔ یہ وہ تین مسائل ہے جن سے عوام بری طرح متاثرہیں ۔صحت کے مسائل ہر دوسرے فرد کے ساتھ نظر آتے ہیں،کبھی اچانک کسی حادثے کی یا وبائی مرض کی صورت میں بھی لوگوں کو سامناکرنا پڑتا ہے ، چنانچہ ایسے میں مالی طور پرکمزور عوام تو دورکی بات مڈل کلاس کے لوگوں کی ہمت بھی اس وقت جواب دے جاتی ہے کہ جب انھیں کسی اسپتال کا سامنا کرنا پڑے۔ قیمتی ٹیسٹ کرانے کے بعد اگر خدانخواستہ آپریشن کا مرحلہ آپہنچے تو بڑے بڑوں کی مالی حالت جواب دے جاتی ہے۔

جو لوگ اس صورتحال سے گزرتے ہیں ان سے پوچھیے کہ مہنگی دواؤں کا، اسپتال کے بلزکا اور آپریشن کے خرچے کا کتنا بڑا ایشو ہے ، نیز پھر ان میں مزید چھپے ہوئے ایشوزکتنے ہیں، یعنی دوائیں اس قدر مہنگی کیوں ہیں؟آپریشن کے نام پر لاکھوں روپے کیوں لیے جا رہے ہیں؟ پھر اس میں آگے مزید ایشوز چھپے ہیں مثلاً بلاوجہ مہنگی ادویات مریض کو لکھ کرکیوں دی جا رہی ہیں؟ بلاوجہ ٹیسٹ کیوں کروانے کا کہا جا رہا ہے اور اسی طرح بلا ضرورت آپریشن کرانے کی ترغیب کیوں دی جارہی ہے یا نا کرانے پر ڈرایا کیوں جا رہا ہے؟

یوں صحت کے معاملے میں بہت بڑی بڑی مافیائیں کام کر رہی ہیں مگر افسوس یہ ایشو کسی کو نظر نہیں آتا ! غورکیا جائے تو روزمرہ کے معمولات میں بھی لوگوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ علاج ومعالجے پر خرچ ہو جاتا ہے جب کہ یہ ریاست مدینہ تو دورکی بات ایک سیکولر ریاست میں بھی مفت سہولت دستیاب ہونی چاہیے۔ اس وقت سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ہے،اس پر صرف اپنے مشاہدات لکھوں توکئی قسط وارکالم میں شایع ہو۔صحت کے یہ مسائل چھوٹے دیہی علاقوں سے لے کر کراچی جیسے بڑے شہر تک موجود ہیں مگر افسوس ہمیں چاند کے مسائل نظر آتے ہیں یہ مسائل نہیں نظر آتے۔

دوسرا بڑا اہم ترین مسئلہ ذاتی رہائش کا ہے جو شہروں میں کرائے داروں کی جان نکالے ہوئے ہے، جو شخص جتنا کماتا ہے اس کی آدھی کمائی ہر مہینے مکان کے کرائے ادا کرنے میں چلی جاتی ہے۔ شہرکے لوئر مڈل کلاس علاقوں میں بھی دو سے تین کمروں کے مکان یا فلیٹ کے کرائے بیس ہزار سے کم نہیں ہیں نیز جب سال دو سال بعد یا کسی وجہ سے کم عرصے ہی میں ایک مکان چھوڑکر دوسرا مکان کرائے کا لینا پڑجائے تو پچاس ہزار سے زائد خرچہ تو اوپرکے اخراجات کی مد میں ہوجاتا ہے، پندرہ سے بیس ہزار روپیہ تو ٹرک والوں کو سامان لانے ، لیجانے کے لیے ادا کرنا پڑتا ہے۔غرض ان اخراجات اور پریشانیوںکی بھی ایک طویل فہرست ہے جو صرف بھگتنے والے عوام ہی جانتے ہیں ، ٹی وی پر بیٹھ کر چاند نظر آنے یا نہ آنے کے معاملے پر دھواں دھار بھاشن دینے والے نہیں جانتے۔

تیسرا اہم ترین مسئلہ تعلیم کا ہے۔ یہ نچلے درجے کے عوام سے زیادہ لوئر مڈل کلاس کا مسئلہ ہے جنھوں نے اپنی معاشی اور زندگی کی جنگ ہی تعلیم کی بنیاد پر لڑنی ہوتی ہے۔ ملازمت حاصل کرنے کے لیے دور حاضر میں کسی اچھے انگلش میڈیم سے تعلیم حاصل کرنا بے حد ضروری ہے تاہم ان کی جو فیس اور دیگر اخراجات ہیں وہ لوئر مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں ، چنانچہ اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں پڑھانے کے لیے کوئی پارٹ ٹائم یا ڈبل ملازمت کرتا ہے یا ملک سے باہر جانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے،کوئی کمیٹی ڈالتا ہے، کوئی لون، ایڈوانس حاصل کرنے کی تگ ودو میں سارا سال لگا رہتا ہے۔اس چکر میں بہت کم تعداد ہی اپنے بچوں کوکسی معیاری اسکول میں پڑھا پاتی ہے ورنہ تو حسب استطاعت گلی محلوں کے انگریزی کے اچھے ناموں والے غیر معیاری اسکولوں میں اکثریت اپنے بچوں کو داخل کرا دیتی ہے، حالانکہ ان کی فیسیں بھی اور اخراجات بھی عام آدمی کے لیے بہت بھاری ثابت ہوتے ہیں لیکن بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے یہ بوجھ عوام کی اکثریت اٹھانے پر مجبور ہے۔

یوں تو عوامی مسائل بہت ہیں مگر راقم نے یہاں ان تین مسائل کاذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ مسائل عوام کے ساتھ کسی جونک کی طرح چمٹے ہوئے صبح وشام خون چوس رہے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں کہ عوام کسی طور ان سے بچ نہیں سکتے، یہ ہر وقت ان کے ساتھ بھی ہیں اور ان کی مالی پوزیشن پر سخت اثر انداز ہو رہے ہیں جس سے ان کے گھرکا ماہانہ بجٹ بھی متاثر ہورہا ہے ۔ان تین بنیادی مسائل سے نمٹنے کے لیے ابھی تک حکمرانوں کی جانب سے کوئی منظم حکمت عملی یا منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے۔

اس ملک کی زمینیں کوڑیوں کے مول بڑے بڑے بلڈرز وغیرہ کو دے دی جاتی ہیں مگر افسوس عوام کو ایک سوگزکا پلاٹ تک نہیں دیا جاتا۔ اس سلسلے میں راقم نے اپنے کئی کالموں میں مختلف تجاویز پیش کیں کہ کس طرح عوام کوکم ازکم زمین ہی مفت میں دی جائے، تعمیرکے لیے قرضہ دیا جائے تاکہ ہر ماہ ایک بڑی رقم جوکرائے کی مد میں ادا کی جاتی ہے وہ رقم یہاں خرچ کرکے ذاتی مکان کا مسئلہ حل کرلیا جائے۔

افسوس صد افسوس کہ میڈیا پر چاند نظر آنے یا نہ آنے پر تو دن رات دھواں دھار اظہار خیال ہو رہا ہے اور ہر کوئی ماہر دین بن کر مشورے دے رہا ہے حالانکہ یہ جید علماء کا کرنے کا کام ہے، جب کہ عوام کے اہم ترین ایشوز پرکوئی بولنے، شورمچانے کو تیار نہیں، حالانکہ اس مسئلہ پرہم سب کو بولنا چاہیے کہ یہ عوام کا ’اصل ایشو‘ ہے۔ اے کاش ہم میں سے کوئی خان، کوئی چوہدری ان حقیقی ایشوز پر بھی لب کشائی کرے جوکہ ان کی خاص ذمے داری بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔