میں آزاد ہوں

توقیر چغتائی  منگل 4 جون 2019

ساٹھ سال کی عمر میں بھی وہ آٹھ سالہ بچے کی طرح معصوم دکھائی دیتا تھا۔اُس کی آنکھیں ہر وقت کسی کو تلاش کرتی رہتی تھیں،ایک دن پوچھ ہی لیا کہ کسے تلاش کرتے رہتے ہیں؟ انتہائی دھیمے انداز میں آہستہ آہستہ آنکھیں اٹھاکر اُس نے جواب دیا تھا ’’ اپنی ماں کو تلاش کر رہا ہوں ‘‘ اُسے خوابوں میں اپنی ماں نظر آتی تھی جو اُس کے پیدا ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی انتقال کرگئی تھی اور وہ اپنے والد کے ساتھ دھوبی گھاٹ میں کپڑے دھونے کی مزدوری پر جانے لگا تھا۔

ماں کی تلاش میں سرگرداں بچے کو اُس کی نانی نے ایک سندھی میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا ۔ وہ اسکول سے واپس آنے کے بعد دھوبی گھاٹ پہنچ جاتا اور اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ماں کے ہیولے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے دن گزار دیتا۔ بچے کا نام رحیم بخش تھا، جس کے ساتھ پڑوس میں رہنے والے نیپالی خاندان نے’’ آزاد‘‘ کا اضافہ کردیا تھا اور وہ آزاد کے نام سے ہی مشہور ہوگیا ۔

سندھی میڈیم اسکول سے چوتھی جماعت پاس کرنے کے بعد اُس نے آتما رام پریتم داس اسکول سے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی مگر اُس کے بعد نانی کے مالی حالات بگڑنے لگے تو اُس نے محلے کے ایک گیراج میں دن کے وقت نوکری کرلی، پڑھائی کو ترک نہ کیا اور ایک آنہ لائبریری سے کتابیں لاکر پڑھنے لگا۔ وقت نے اسے ایک اور اسکول کا راستہ دکھایا جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ محنت مزدوری بھی جاری رہی اور وہ بلوچی زبان کے پندرہ روزہ رسالے ’’زمانہ ‘‘کے لیے سندھی اور اردو زبان کے مضامین ترجمہ کرنے لگا۔

زندگی کے کڑے شب وروزکے ساتھ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد اُس نے عبداللہ ہارون کالج میں داخلہ لیا۔کراچی پورٹ ٹرسٹ میں دن بھر کام کرنے اورحمام سے میلے کچیلے کپڑے بدلنے کے بعد ایک شام جب وہ کالج پہنچا تو اسے خبر ملی کہ معروف شاعر فیض احمد فیض کو اس کالج کا پرنسپل مقررکیا گیا ہے۔ اُس وقت معروف دانشور م ر حسان اس کالج کے وائس پرنسپل اور نامور شاعر دلاور فگار اردو کے استاد تھے۔ بس پھرکیا تھا وہ بچہ جو دھوبی گھاٹ میں اپنی ماں کو تلاش کرتا رہتا تھا، معاشرے میں جمہوریت، ادب ، موسیقی، شاعری اور بلوچی زبان کی ترویج وترقی کی تلاش میں نکل پڑا ، مگر جوان ہونے کے بعد بھی وہ ماں کی کمی شدت سے محسوس کرتا رہا۔

اپنے آس پاس رہنے والے انقلابی نوجوانوں کی طرح وہ بلوچستان کی سیاسی تبدیلیوں سے بھی بے خبر نہیں تھا کہ بلوچستان سے ابھرنے والی تمام قوم پرست ، وطن پرست اور جمہوریت پسند قوتوں کے سرچشمے لیاری سے ہی پھوٹے تھے۔اُس کے پڑوس میں چاکیواڑہ آباد تھا جس کی مناسبت سے معروف ادیب محمد خالد اختر نے’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘ کے نام سے اردو ادب کو ایک بہترین ناول دیا۔اس اسٹاپ کو ’’ ٹرام پٹہ ‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا جہاں ماضی میں ٹرام چلتی تھی اور اُس کی کمپنی میں وہ ملازمت بھی کرچکا تھا۔ قریب ہی معروف بلوچ دانشور اور سیاسی رہنما لال بخش رند مرحوم کا وہ گھر بھی موجود تھا جس کے قریب سے گزرتے ہوئے بلوچ قوم پرستوں اور بائیں بازوکی سیاست سے تعلق رکھنے والے سرکردہ سیاست دانوں کا سر ادب سے جھک جاتا ہے۔

بلوچستان پر آپریشن ہوا تو رحیم بخش آزاد کے نام سے سیاسی ، سماجی اور ادبی حلقوں میںمتعارف ہونے والے اس نوجوان نے پیپلز پارٹی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا ، مگر بعد کے دنوں میں اُس کی ہمدردیاں اسی پارٹی کے ساتھ رہیں۔ اس کی تحریریں بھی اس بات کا ثبوت دیتی رہیں اور بھٹو کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی حالات بھی اس کی بہت بڑی وجہ کہے جا سکتے ہیں۔ دیگر علمی اور ادبی سرگرمیوں کے علاوہ ڈاکٹر فیروز احمد کے رسالے’’ پاکستان فورم ‘‘ اور سندھی وبلوچی کے رسائل کے ساتھ وابستگی بھی اُس کی زندگی کے اہم ادوار میں شامل رہی اور یہی اُس کی زندگی کا سنہرا دور تھا۔

لگ بھگ پچیس سال قبل عبد الرحمن نقاش اور احمد سلیم کے بعد جب وہ کراچی سے چھپنے والے مزدوروں، خواتین اور اقلیتوں کے ترجمان ماہنامہ ’’جفاکش‘‘ کا ایڈیٹر مقرر ہوا تو اس کے سیاسی ، سماجی اور ادبی خیالات میں مزید وسعت آئی لیکن چند برس کے بعد اپنی آزادانہ طبیعت کی وجہ سے اُس کا دل اس ذمے داری سے بھی اچاٹ ہوا تو اُس نے اسی ادارے میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کا کام سنبھال لیا اور ہمیں ’’جفاکش ‘‘ کا ایڈیٹر مقررکردیا گیا جس کے بعدہمارے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور باہمی گفتگو کا سلسلہ تقریبا پندرہ برس تک چلتا رہا ۔

رحیم بخش آزاد نے بلوچی زبان وادب کے سلسلے میں جوخدمات انجام دیں اُن کی فہرست بہت طویل ہے۔1960 کی نصف دہائی میں فیض احمد فیض کے مشورے پرکالج میںبلوچی زبان کے شاعروں کو جمع کرکے انھوں نے بہت بڑے مشاعرے کاانعقاد کیا۔ فیض احمد فیض ہی کے کہنے پر انھوں نے بلوچ لوک فنکاروں کو اکٹھا کرکے کالج کے سالانہ میلے میں مدعوکیا اور بعد میں ان فنکاروں کو آرٹس کونسل اور پریس کلب میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔

رحیم بخش کالج کے زمانے سے ہی طفیل عباس کی چین نوازکمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوگئے تھے۔انھوں نے عبد اللہ ہارون کالج میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا یونٹ بھی قائم کیا اور عمر بھر بائیں بازوکے خیالات کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ بچپن میں دھوبی گھاٹ سے جس مشقت کی ابتدا ہوئی وہ کے ایم سی کی نوکری سے ہوتے ہوئے، فشری ، پی آئی اے ، شپ بریکنگ کے شعبے اورگدون امازئی تک پہنچ گئی، مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری اورکراچی کے سینما ورکروں، پورٹ ورکروں اور ٹینری ورکروں کی ٹریڈ یونین بناکر دم لیا۔

لگ بھگ پندرہ سال قبل رحیم بخش آزاد نے گھر سے نکلنا تقریبا ترک کردیا تھا۔ اپنی ماں سے بچھڑنے کے ساتھ مادر وطن سے بچھڑنے اور اُس کی حالت زار نے انھیں مزید غمزدہ کردیا تھا۔اب مطالعہ ، موسیقی،آرٹ فلمیں اور عالمی سیاست ان کا محبوب مشغلہ تھا اور وہ ملک کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال کے ساتھ بلوچستان کی موجودہ صورتحال سے بھی ناخوش تھے۔ تیس سالہ رفاقت کے دوران جب بھی ان کے گھرجانا ہوا وہ کوئی نئی کتاب پڑھتے یا آرٹ فلم دیکھتے پائے گئے۔

ہمیں بھی اُن کے ساتھ کئی آرٹ فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا جن میں’’ میں آزاد ہوں ‘‘ نامی فلم بھی شامل تھی۔ اُن کا جنازہ اٹھا تو ہمیں لگا جیسے وہ کفن سے ہاتھ نکال کرکہہ رہے ہوں’’ میں آزاد ہوں ‘‘ اور ہم سامنے کھڑے سوچ رہے تھے کہ ہاں یہ درست ہے کہ آپ زندگی کی قید سے آزاد ہوگئے، مگر اُن بائیس کروڑ انسانوں کا کیا ہوگا جو پوری قوت کے ساتھ اجتماعی قیدکی جانب دھکیلے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔