فیض محمد بلوچ، عظیم بلوچی لوک سنگر

نادر شاہ عادل  بدھ 5 جون 2019

بلوچی زبان کے مایہ ناز لوک گلوکار فیض محمد بلوچ عرف فیضک المعروف’’پیشُک‘‘کو اکثر شائقین بھول چکے ہوں گے۔انھیں فراموش کرنا معروف معنوں میں قومی مفاد میں ہی ہوگا، ذہن کو بوجھ دینا کہ کون فیض محمد ؟کون پیشک ،کون سا اک تارا،کہاں کی پگھڑی،کیسی فیضک کی دستار بندی، کاہے کی دستک ! کہ بابا فیضک صاحب سے ملنا ہے، کون فیضک؟ ارے وہ بڈھا بابا جو اللہ دینا اسپتال کھارادر میں ایڑیاں رگرتے ہوئے بعد میں کوئٹہ بلوچستان کی دھرتی پر جان وار گیا، وہ دیوانہ توکراچی میں مرگیا تھا ، جس ماما فیضک کے اک تارا سے درد وداغ و سوز وساز و جستجو وآرزو کے نقش کف پا لوگ ڈھونڈتے پھرتے تھے، جس کی شوخ وچنچل آوازکی ماتا ہری رات کے محفلوں میں دلوں کو یہ نغمہ سنا کرگرما دیتی تھی کہ ’’ماہ رنگیں پری لیلی تئی چم کجلاں ‘‘( اے مہ رنگ حسینہ تیری آنکھوں کا کاجل غضب ڈھا گیا)۔

اس بابائے موسیقی کی یاد مجھے ستانے لگی ہے، لطیف چوہدری کو شاید لیاری سے عشق ہوگیا ہے ، استاد فضک بلوچ پر لکھنے کی طرح بھی انھوں نے گزشتہ دنوں ڈالی تھی، دکھ چوہدری صاحب کو بھی ہے کہ ایک سے ایک نابغہ روزگار اور عوامی گلوگار قرطاس ذہن سے غائب ہوتا ہے ،کوئی پوچھتا نہیں،کہ پٹھانے خان، استاد خمیسوخان، الغوزہ نواز مصری خان جمالی کس دیس سدھارگئے۔ علی نوازکی شہنائی کس ماتم کدہ کی مہربان ہے۔ توکسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ بلوچستان کا سارنگی نواز سچوخان کس حال میں رہا۔

سیکڑوں فنکاروں کی زندگی ایک قندیل فروزاں بن کر ہماری ثقافتی شبستانوں میں قائم ودائم رہی، موسیقی کے پروانے ان کی آوازکے سحر سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے۔ استاد بچل کا طبلہ استاد اللہ رکھا کی یاد دلاتا تھا، لیکن ثابت ہوا کہ گلوبلائزیشن کی چنگاری میں فیض محمد بلوچ اک بھولی ہوئی ہوں داستاں ،گزرا ہوا خیال ہوگر طاق نسیاں ہوگئے۔ استاد بلاول بیجیئم کا بینجو اس کے سرمنڈل کی جدتوں کے ساتھ پھرکبھی یادوںکے دیپ جلائے گا ابھی فیض بلوچ کے بارے کچھ بیاں ہوجائے۔

فیض صاحب کہہ گئے ہیں۔

تری امید ترا انتظار جب سے ہے

نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے

اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے

طرح طرح کے طلب تیرے رنگ لب سے ہے

کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے

ستارہ ٔ سحری ہم کلام کب سے ہے

ہم کلام فیض محمد بلوچ ہے۔ پہلے اس کی زندگی کے کچھ بابا الٹتے ہیں۔ یہ گھرانہ بلوچستان سے نقل مکانی کرتا ہوا لیاری میں بسیرا ڈالتا ہے۔ میری ان جواں سال آنکھوں نے فیض محمد بلوچ کو لیاری دریا آباد کے ایک تاریک کوچہ میں رہائش پذیر دیکھا تھا ۔چھوٹا سا اک کنبہ ، میں پہلی سے چوتھی جماعت کا طالب علم تھا، آج کا شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ کا قدیمی نام مسان روڈ تھا ، پھر اس کا نام پریتم داس روڈ ہوا۔ اس سڑک کے اتنے نام کیوں بدلے ، کیا فیضک بابا کی زندگی اس سڑک نے بدلنی تھی،کوئی جواب نہیں ملا۔ جس گلی کے غربی علاقہ میںفیض محمد کا گھرانا رہتا تھا ،اس کا گزارہ اس فنکار کی محنت مزدوری،کجھورکا کاروبار اور دل نواز مدھر آوازکا خزانہ تھا۔

قدرت نے فیض بلوچ کو ایک سریلی صدائے نیم شبی بخشی تھی، وہ دن بھر کی تھکان سے فرصت پاتا تو اپنا اک تارا لے کر شاہ بیک لین کی بانکڑا ہوٹل کے باہرکی کسی بوسیدہ ٹیبل کرسی پر بیٹھ جاتا ، وہ اس کا مستقل ٹھکانہ تھا۔ہوٹل کے مالک جمعدار واجہ ھداداد تھے، عمر رسیدہ اور سخت مزاج تھے۔  ان دنوں جمعدارکا لقب اور سماجی حفظ مراتب کے لحاظ سے اس قبیلہ اور برادری کا معتبر شخص اس نام سے منسوب ہوتا تھا، اس وقت جمعدارآدم ،جمعدار بیدی ، جمعدار محمود لیاری کے  محترم بزرگوں میں شمار ہوتے تھے، محلے کا ہر فٹبالر اور مرد وزن ان کی تکریم کرتا، وہ برادری کے فیصلے بھی کرتے، لیکن کاروکاری اورجرگہ ٹائپ عدالتی فیصلے نہیں ہوتے تھے، ہاں البتہ دشمنی اور جھگڑوں کے بعد صلح اور دو برادریوںمیں  راضی نامہ پر اتفاق ہوتا تو ایک جلوس ’’میڑھ‘‘ کی شکل میں  تنازع کے مرکزی کرداروں کے گھر اجتماع منعقد ہوتا۔

وہ راضی نامہ کی ایک روایتی سند سمجھی جاتی تھی ، کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے۔ ایسے موقع پر استاد فیض محمد بلوچ کے خوبصورت گیت فضا میں بلند ہوتے، فیض کی آواز کی رینج غیرمعمولی تھی ،کراچی اسٹیج پر ان کی یہ آواز جب حلق سے نکلتی اور پر سوز صدا کی دشت صوت میں اپنا جادو جگاتی تو ہر دل واہ واہ کہنے پر مجبور ہوجاتا۔ یہی وقت ہوتا جب فیضک بلوچی میں سوزوسلام اور نوحہ گری کا طلسم ہوشربا اک تارے کے ساتھ گرماتے تو رقص ان کا دھمال سا سماں پیدا کرتا، یہی ردھم ان سے بلوچی کلام کی سحر انگیز دھن میں ’’ او ناز حسن ے والا دل منی برتا لعلا ‘‘ کی تال پر شائقین کرسیوں سے اٹھ کر دیوانہ وار رقص کرتے اور فیض کا اک تارا اس کی اونچے سروں میں گائیکی کا حسن محفل کو دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے کی سرمستییوں میں گم کردیتا۔

فیض کا سٹیمنا حیران کن تھا، وہ دردانگیز سر بلوچی نوحے میں کھینچتے تو ایسا لگتا کہ ساغرکیھنچے جارہا ہے۔ یہ اونچا سر ’’ ہیر‘‘ سیف الملوک کے سروں سے مماثل تھا۔اس کی کوئی انتہا نہ تھی، وہ رلانے پر آتا تو اسی سر میں بلوچی زہیروک اس کے خون جگر سے نمود کرتی۔ بلوچی زہیروک میں درد وغم کی ایک چھوڑ درجنوں لوک کہانیوں کا   لہو آلود پراہن لفظوں میں ڈھل جاتا۔ بابا فیضک روح کی گہرائیوں سے موسیقی کی تانیں برآمد کرتے۔ان کی موسیقی خود تخلیقیت کا شہکار تھی۔ ابتدا میں استاد خیرمحمد سے تربیت  لی، سیستان کے ایرانی شہر میں محنت مزدوری کرتے ہوئے کراچی نقل مکانی کی، لیاری میں بلوچوں کا علاقہ تھا ، وہیں رچ بس گئے۔

فیض محمد بلوچ نے 6 مئی 1901 ء میں ایران بلوچستان کے سرحدی شہر سیستان کے علاقہ قصرقند میں جنم لیا۔ والد نے ابتدائی موسیقی کی طرف راغب کیا، پھر استاد خیر محمد سے سازوسنگیت کے راز لے لیے۔ ماسٹر ملا رامی نے باقاعدہ گلوگاری اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی ۔ فیض محمد نے1962 ء میں بلوچی ساز وسنگیت میں انفرادیت پیدا کی۔ لیاری سے انھیں ٹی وٰی پر موقع ملا۔ بلیک اینڈ وائٹ مواصلاتی سہولتوں  کا زمانہ تھا، فیضک کی آواز توانا تھی،ہمیشہ upbeat سروں میں کلام پیش کرتے تھے، کوئی دوسرا گلوکار اس نے ڈوئیٹ کے لیے اپنا ساتھی نہیں بنایا۔ ملنگ و مست انسان تھے، کبھی شہرت اور دولت کے لیے حکمرانوں کے آگے دست سوال دراز نہیں کیا، پوری زندگی موسیقی اور بلوچی زبان میں گائے ہوئے لوک گیتوں، جدید غزل اور صوفیانہ کلاسیکی شاعری سے اکتساب کیا، بلوچی زبان میں صوت وزہیروک ان کا خاص میدان تھے۔

پاکستان کی نمایندگی کی، ثقافتی طائفہ میں ان کی شمولیت ایک اعزاز سمجھی جاتی ، جنوبی کوریا، روس، امریکا، اسپین،لبنان، الجزیرہ، فرانس،انڈونیشیا اور دیگر ممالک کے دورے کیے،اپنا فن پیش کیا ،بے پناہ داد سمیٹی۔ ان کا پہناوا دلفریب ہوتا، بلا کی پھرتی سے اسٹیج پر تھرکتے ، رقص کرتے اور جھومتے ہوئے کلام سناتے۔ بلوچی ردھم میں یوں بھی سرمستی اور دل کو موہ لینے والی موسیقی روح میںاتر جاتی ہے اور مخصوص کلاہ اور اک تارا ان کی پرفارمنس میں مزید نکھار لاتے۔

1979 ء میں حکومت پاکستان نے انھیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ان کا فنکار بیٹا تاج محد تاجل بینجو کا ماہر ہے۔ بابا فیضک نے لاتعداد بلوچی گیتوں کو شہرت دوام بخشی، شائقین ان سے اکثر ’’ماہ رنگیں لیلی تئی چم کجلاں‘‘ بار بار سنتے۔ یہ ان کا مقبول ترین گیت تھا،جس میں وہ اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ اے دلفریب نازنین تمہاری آنکھوں کے کاجل کی کیا بات ہے۔لیلیٰ او لیلیٰ بیا ترا براں سیلا مزاجیئں لیلا۔ اس گیت میں وہ اپنی ناز نخرے والی لیلیٰ کی منت سماجت کرتے ہیں کہ چلو تجھے سیر کے لیے لے چلوں۔ وہ کنسرٹ کا دل پسند نغمہ ہوتا۔ کشتا منا گلا ، باغے بلبلا۔

اس دلفریب گیت میں شاعرکا کہنا ہے کہ اس گلستان کے پھول اور بلبل باغ نے مارڈالا ہے۔ وہ اس گیت میں صد رنگ صوتی اٹکیلیوں سے سماں باندھتے اور ہر رنگ میں منچلے لوگ اپنی نشستوں پر سے اچھل پڑتے۔اک اورگانا تھا اے ناز حسنے والا دل منی برتا لعلا۔ اے ناز وانداز کی ملکہ تیرے پیار نے دل چرا لیا۔ ایک دن یہ بھی ہوا کہ ان کا ایک گیت عوامی غضب کا نشانہ بنا، وہ گیت تھا ’’کیچے جنک سور لنٹاں‘‘مراد یہ کہ کیچ مکران کی حسینائوں کے ہونٹ سرخ گلابی ہیں ۔ اس گیت پر خواتین اور بلوچ عوام نے احتجاج کیا ،گیت واپس لے لیا گیا۔

قارئین ! پھر ان بلوچی نغموں اور لوک گیتوں کے سوداگر فیضک کو بد نصیبیوں نے گھیر لیا، ان کی صحت گرگئی، 1982 ء کی آمریت نے فیضک کی محبوبائوں کو دیس نکالا دے دیا، ریڈیو پاکستان کراچی اورکوئٹہ ریڈیوکے آرٹسٹ فیض محمد کو کہیں پناہ نہ ملی، وہ بھی ان ہزاروں فنکاروں اور لوک گلوگاروں کی طرح نظروں سے گرائے گئے۔ میں نے فیضک کوکھارادرکے ایک نجی اسپتال کے بیڈ پر بے یارومدگار پڑا ہوا دیکھا، تاجل اس کے پائنتی پر اداس بیٹھا تھا، بیمار فیض بابا کے کمرے کی میز اور دیواروں پر قومی بلیزر، انعامی کوٹ، شالیں، سندھی، بلوچی خوبصوت ٹوپیاں ،اسناد، تمغے میڈلز بکھرے ہوئے تھے، آوازیں لگ رہی تھیں بولو جی تم کیا کیا خریدو گے۔ٹپ ٹپ فیضک کے آنسو کررہے تھے۔ میں کمرے کی آسیب زدہ ماحول سے گھبرا کر نیچے فٹ پاتھ پر آگیا۔

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔