امریکا کی ایشیا میں سرگرمیاں اور خطے میں پھیلتی کشیدگی

عبدالرحمان منگریو  اتوار 9 جون 2019

ایک طویل عرصہ کے بعد اور خصوصاً سعودی عرب کی ماتحت تیس ممالک کی دفاعی فوج کے قیام کے بعد اوآئی سی نے کشمیر اور فلسطین سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کے بیت المقدس میں قیام اور دیگر اُمور سے متعلق امریکی فیصلوں کی مذمت کی ہے۔

خطے میں ایران اور سعودی عرب کو روایتی حریف سمجھا جاتاہے اور امریکا کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف رہا ہے۔ یوں تو ظاہری طور پر گزشتہ کچھ عرصے سے اوپیک کے فیصلوں کے معاملے اور ایران سے ایٹمی پروگرام سمیت دیگر اُمور پر مشروط و غیر مشروط مذاکرات کی پالیسی اختیار کرنے کی بناء پر سعودی عرب امریکا سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ لیکن عالمی تعلقات ِ عامہ کے ماہرین اس اعلامیے کو درحقیقت ایران ، سعودی عرب ویمن سعودی عرب کشیدگی اور شام کی خانہ جنگی میں امریکی کردار کے داخلہ کے عندیے سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔

امریکا کی ایران کی طرف یہ ظاہری لچک دراصل ایران کے چین ، روس ، ترکی کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات ہیں جو کہ امریکاکو اپنے خلاف محاذ کے طور پر نظر آتے ہیں ۔ اور اس محاذ کو کمزور کرنے کے لیے بغیر کوئی دیرپا نتائج پر مبنی پالیسی پر غور کیے امریکی حکومت روز بدلتے موقف کے ساتھ ایران پر لب کشائی بھی کررہا ہے تو ایران کو پیشکشیں بھی دے رہا ہے تو ساتھ میں دھیمے لہجے دھمکیاں بھی دے رہا ہے اور عملی طور پر ایران کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں بھی مصروف ہے۔

ویسے تو ایران کے ساتھ امریکا کے سرکاری روابط نظر نہیں آتے اور تاریخی طور پر رہے بھی نہیں ہیں ، لیکن عالمی تعلقات ِ عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی محض امریکی اسٹریٹجی کے تحت ہے ۔ اس میں اس کے تسلسل میں پس پردہ خاموش معاونت ہے جوکہ ایشیا بالخصوص خطے میں دونوں کے مشترکہ مفادات کے حق میں ہے ۔ اس مد میں وہ سی آئی اے کی جانب سے انقلاب ِ ایران کی پشت پناہی کے شواہد کے طور پر سابقہ سی آئی اے ایجنٹ کرمٹ روزولٹ جونیئر کی کتاب Countercoup: Struggle for Control of Iran کا حوالہ دیتے ہیں ، جس میں امام خمینی کے ذریعے شہنشاہ ِ ایران کا تختہ اُلٹنے کا ذکر تفصیل سے موجود ہے ۔ اور پھر 2007سے کاروباری مراسم میں تیزی سے شروع ہونے والی کہانی اب 200 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے ، پھر نیشنل ایرانی امریکن کونسل کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔

اب ان ممالک کے درمیان تضاد فقط “Clash of Will” کا ہے ۔یہی رویہ امریکا پاکستان کے ساتھ بھی گزشتہ 70سال سے جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں اپنے مقاصد حاصل بھی کرتا رہا ہے ۔ لیکن ایران سے متعلق اُس کے اندازے و حکمت عملی شاید کارگر ہوتے نظر نہیںآرہی ، دراصل یہی بات اس کے روز بدلتے موقف کا باعث بن رہی ہے ۔ پھر دنیا پر معاشی طور پرچھاجانے والے چین کی حکمت عملی نے بھی امریکا کو پریشان کر رکھا ہے ، لیکن ایشیا میں چین ، روس ، ترکی اور ایران بلاک کی تشکیل نے تو جیسے اُسے حواس باختہ کردیا ہے ۔ جس وجہ سے امریکا نے ایشیا میں اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں ۔

ایک طرف وہ اپنے روایتی سپر پاور حریف روس سے برابری کی بنیاد پر مذاکرات میں مصروف ہے تو دوسری طرف وہ ایران کو غیر مشروط مذاکرات کی ظاہری پیشکشیں بھی کررہا ہے ۔ لیکن دراصل اُس سے چین روس کی سرپرستی میں قائم اس بلاک کی دن بہ دن مضبوطی ہضم نہیں ہورہی ۔ اسی لیے وہ مصر ، پاکستان ، افغانستان اور ترکمانستان سمیت خطے کے مختلف ملکوں میں افرا تفری کروانے کو بھی سپورٹ کررہا ہے ۔

دوسری جانب وہ ایشیا میں چین کے انفرادی بڑھتے ہوئے معاشی کردار سے بھی خائف ہے ۔ جس کا اظہار وہ خطے میں پاکستان، بھارت ، ایران، ازبکستان، قازقستان سمیت کئی ممالک سے انفرادی طور پر مذاکرات اور دفاعی و کاروباری مراسم کے قیام کے اقدامات کررہا ہے ۔

ایک طرف پاکستان کو افغانستان میں قیام ِ امن اور ترقی و تعمیر کے لیے لازمی حصہ قرار دے رہا ہے ، تو دوسری طرف افغانستان میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کی تعمیر کو بنیاد بناکر بھارت اور روس سے علیحدگی اختیار کرنے والے مسلم ممالک کو اپنے ساتھ ملاکر خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے پر گامزن ہے ۔ جس کے لیے اُس نے زلمے خلیل زاد کو مسلسل خطے میں متحرک رکھا ہوا ہے لیکن یہ بھی محض دکھا وے کے اقدام ہیں ، درحقیقت وہ اس خطے میں اپنے مستقل ساتھی بھارت کو مضبوط بناکر پاکستان کو غیر مستحکم رکھنا چاہتا ہے جو کہ خطے میں نئے معاشی و سیاسی بلاک میں زمینی طور پر ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔

چین سی پیک کے تحت پاکستان کی معرفت ڈیڑھ ارب آبادی والی منڈی بھارت تک رسائی کے لیے بے چین ہے لیکن امریکا یہ قطعی نہیں چاہتا اس لیے اُسے چین کا یہ رہنما و فوقیتی کردار قبول نہیں ۔ اور وہ کبھی تاجکستان میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے اور پاکستان کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر و مقامی انتہا پسند گروہوں کو اُبھار رہا ہے ۔

ماہرین انڈیا میں مودی کی دوبارہ جیت کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ کیونکہ مودی سرکار عالمی اسٹیبلشمنٹ (جس میں امریکا نمایاں حیثیت کا حامل ہے)کے خطے میں مفادات کی ڈیڑھ ارب آبادی والی منڈی کے ساتھ ساتھ افغانستان و سارک ممالک اور ایرا ن میں فروغ کے لیے اہم کردار ادا کررہی ہے ۔ جب کہ اپنے ملک میں چین پر تجارتی و کاروباری سخت پالیسیاں اور پابندیاں بڑھانے کے مسلسل اقدامات کررہا ہے تو دوسری جانب ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے جس کی چھوٹی سی جھلک گزشتہ ہفتے میڈیا کی شہ سرخیوں میں نظر آئی ۔ جس میں چین کو پڑوسی ممالک کے لیے خطرہ نہ بننے کی تنبیہہ کرتے نظر آیا تو چین نے جواب دیتے ہوئے امریکا کو جنگ کے لیے اپنی تیاری کا پیغام دیا۔

کچھ ہی ماہ قبل ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلاء کا عندیہ دیا تھا لیکن پھر اُس نے خطے میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے افغان امن کے نام پر مزید فوج بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے نئے اور تازہ دم اٹالے بھیج کر فوجی استعدا د میں اضافہ کیا ۔ اب یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ISIS جیسی تنظیمیں بھی امریکی پالیسی کا ہی ایک جُز ہیں جوکہ پاکستان اور افغانستان میں مقامی طالبان و دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر براہ راست فعال ہیں۔ پھر پاکستان پر اپنے گہرے اثر کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکا کبھی ایران سے گیس پائپ لائین کا منصوبہ منسوخ کرواتا رہا ہے تو کبھی سمندر سے بڑے تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش رکوا دیتا ہے ۔

ان تمام پالیسیوں سے ایک طرف خطے میں پاک ایران کشیدگی پیدا ہو کر بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری طرف پاک افغان کشیدگی نے بھی سر اُٹھا یا ہے ۔جب کہ پھر عراق اور کویت میں اپنے موجود رہنے کے جواز بھی وہ سیاسی عدم استحکام کے روپ میں ڈھونڈرہا ہے ۔اس پس منظر سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ملک ہمارا پاکستان ہے ۔ جو ایٹمی قوت اور خصوصی جغرافیائی اہمیت و سوشیو اکنامک خصوصیات کا حامل ہونے کے باوجود تمام طاقتوں کے بیچ میں فٹبال بن کر رہ گیا ہے ۔ پاکستان کی پالیسیوں اور اداروں پر بیرونی اثر اتنا گہرا ہے کہ ملک پر حملہ آور ابھے نندن یا ISIS، طالبان ، CIA یا بلیک واٹر اور کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی اختیار نہیں ۔ الٹا ایک فون کال ہمارے مضبوط ترین دفاع کو پُراسرار خاموشی کی طرف دھکیل دینے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔

انڈیا پاکستان تو خیر ستر سال سے کشیدگی کو پال پوس رہے ہیں ہی لیکن یکطرفہ امریکی مفاد کے فروغ کے ماحول نے خطے میں نئی کشیدگیاں پیدا کی ہیں اور دن بہ دن مزید کشیدگیوں میں اضافے کے امکانات ہیں ۔ ایران پاکستان کے درمیان کشیدگی کا وقتاً فوقتاً سر اٹھانا بھی اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ خدشات بھی اب حقیقت سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں کہ امریکا شام میں پیدا کی گئی خانہ جنگی میں براہ راست داخل ہوجائے ۔ جس سے وہ دوہرا فائدہ حاصل کرے گا۔ ایک تو شام میں ایران کے اثر کو ختم کرے اور دوسرا جولان کی پہاڑیوں پر 50 سال سے اسرائیلی تسلط کا دفاع کرسکے ۔

یہ امریکی طویل سرگرمیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ انتہا پسندی کی جو لہر امریکا نے روس کی مخالفت میں افغانستان میں پیدا کی تھی ، اُس نے اب یورپ سمیت پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اب کیا ہندو، کیا مسلم ، سکھ ، عیسائی اور کیایہودی ؛ یہاں تک کہ اب کیا کمیونسٹ یا کیا دائیں و بائیں بازو کی قوتیں ؛ سبھی انتہا پسندی کے اِس رنگ میں رنگ چکی ہیں ۔ اب نہ مسجدیں محفوظ ہیں نہ مندر و گرجا گھراور نہ ہی کمیونٹی سینٹرز و دیگر عوامی مقامات ۔ پھر برطانیہ کے بریگزٹ بحران کے بعد تو یہ خدشات بھی بڑھ گئے ہیں کہ کہیں پورے یورپ و مغربی دنیا میں نیوزی لینڈ کی طرز کی دہشت گرد کارروائیاں ہونے لگ جائیں۔ کیونکہ امریکی وزیر خارجہ کے اچانک برطرفی کے بعد سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو کی بطور وزیر خارجہ تقرری اور اُس کے ایران، روس و دیگر ایشیا سے متعلق میڈیا موقف سے خطے میں نئے بحرانوں اور کشیدگیوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔

پومپیو نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کا مخالف ہے بلکہ وہ ایران میں زبردستی حکومت و حکومتی نظام کی تبدیلی کے حق میں امریکی کارروائی کا بھی خواہاں ہے ۔ اسی ایران مخالف موقف کی وجہ سے پومپیو کی تقرری پر اسرائیل اور سعودی عرب خوشی سے سرشار ہوئے جارہے ہیں ۔ اور اسی بات سے آگ بگولہ ہوکر ایران نے بظاہر اسرائیل پر حملے کی دھمکیاں دی ہیں لیکن اشاروں کنایوں میں سعودی عرب سے محاذ آرائی کا بھی عندیہ دیا ہے ۔ جب کہ یمن سعودی کشیدگی پر بھی عالمی قوتیں و دیگر ممالک بھی اینٹی امریکن و پرو امریکن لابیوں کی بنیاد پر اپنا موقف رکھتے ہیں ۔ پھر اقوام متحدہ میں امریکی سفیر جان بولٹن جوکہ دنیا میں تیزی سے پھیلتی اسلام دشمن تحریک ’’کاؤنٹر جہاد‘‘سے وابستہ رہے ہیں ۔

یہ وہی جون بولٹن ہیں جس نے صدام حسین کے پاس جوہری و کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے عراق پر حملہ کروایا اور عراق کی موجودہ تباہی کا سبب بنا ۔ایسی انتہا پسند سوچ و موقف کے حامل امریکی انتظامیہ نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا بھر کے امن کی دشمن بن چکی ہے ۔ جسے روکنے کے لیے چھوٹے پیمانے پر روس و چین اور ایران و ترکی جیسے ممالک اتحاد کررہے ہیں ۔ لیکن اُن میں بھی ہر ملک کی ترجیحات مختلف ہونے کی وجہ سے سب کے سب امریکی مخالف ہونے کے باوجودیہ اتحاد کارگر ہوتا نظر نہیں آرہا۔

موجودہ صورتحال میں خطے میں ممکنہ جنگ کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی کی انگریز اور جرمن سپر پاوروں کے درمیان لگنے والی دوسری جنگ عظیم کی طرح چین امریکا جنگ کا خدشہ بھی موجود ہے ۔ یہاں یہ بات بڑی تشویشناک ہے کہ اس وقت ممکنہ جنگ میں امریکا اور چین سمیت کئی ممالک ایٹمی قوت ہیں ۔ جوکہ جنگ کی صورت میں دنیا کی تباہی کا سامان بن سکتے ہیں ۔

جہاں تک بات ہے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی تو دیگر ممالک سے ایسی توقع پھر بھی کم ہے لیکن اس لحاظ سے بھی امریکا ناقابل بھروسہ ملک ہے ، کیونکہ ماضی میں دوسری جنگ عظیم میں یہ بلا واسطہ ہونے کے باوجود ہیروشما اور ناگا ساکی پر وہ یہ ہتھیار بے دریغ استعمال کرچکا ہے ۔جب کہ اس بار تو وہ براہ راست جنگ میں ملوث ہوگا اور اس خطے میں اُس کی ذاتی موجودگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب بھی یہ حرکت کرسکتا ہے ، پھر اب تو اس خطے میں بھی 4 تسلیم شدہ ایٹمی قوتیں موجود ہیں تو دو (ایران + کوریا) ممالک بھی قوت حاصل کرنے کے قریب ہیں ۔ ایسے میں کسی بھی کشیدگی کے جنگ کا روپ لینے کی صورت میں ایشیا کے نیست و نابود ہونے میں کوئی زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔

ایسے میں ہالینڈ ، جرمنی اور دیگر تمام پُرامن ممالک کو مل کر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو دنیا کے امن کے لیے امریکی عزائم کی سرکوبی کے لیے استعمال کرنا ہوگا اوروایسے بھی اقوام متحدہ پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایشیا پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگیوں کو مصالحتی مشن کے ذریعے حل کروائے اور ایشیا سے باہر کی قوتوں بالخصوص امریکا کی سرگرمیوں کو محدود کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ ورنہ کہیں یہ سرگرمیاں تیسری جنگ عظیم کا باعث نہ بن جائیں ۔ جب کہ پاکستان کی مقتدر قوتوں کو ہوش کے ناخن لے کر ملکی اُمور کو حقیقی جمہوری قوتوں اور پارلیمان کے ماتحت کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے ۔ جوکہ خطے میں اپنی آزاد و خودمختار ریاست کی شناخت کو اُجاگر کرنے کے لیے تمام مقامی و غیر مقامی مذہبی و انتہا پسند اور عسکریت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کی نرسریوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے استحکام و خوشحالی کو تمام اُمور و چیزوں پر فوقیت دینے والی پالیسی پر عمل پیرا ہو۔ یہی وطن ِ عزیز کی سالمیت کا ذریعہ ہوگا، ورنہ کہیں دوسروں کی لڑائیاں لڑتے لڑتے ہم خود نہ پسپا ہوکر اپنے ہی وجود کے خاتمے کا باعث بن جائیں۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔