شہباز شریف کی واپسی اور ہماری جمہوریت

عبدالقادر حسن  اتوار 9 جون 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اس کالم کی اشاعت تک میاں شہباز شریف لندن سے پاکستان پہنچ چکے ہوں گے ۔ وہ چند ماہ قبل چند روز کے لیے لندن علاج معالجے کی غرض سے گئے تھے لیکن ان کے معالجین نے ان کو سفر کی اجازت نہیں دی اس لیے وہ وہیں مقیم رہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق وہ اب بھی اپنے معالجین کی اجازت کے بغیر واپس پاکستان آ رہے ہیں۔

میاں شہباز شریف اقتدار سے الگ ہوئے ہیں مگر ان کے دور کی تعمیرات ان کے دور حکمرانی کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ میں جو لاہور میں مقیم ہوں گھر سے جب بھی باہر نکلتا ہوں تو دو رویہ کھلی سڑکیں ان پر جگمگ کرتی روشنیاں اونچی طویل پلیں اور زیر زمین راستے ان کی یاد دلاتے ہیں ۔ ہم لاہور کے رہنے والے شہباز شریف کی عوامی خدمت اور انتظامی صلاحیتوں کے معترف ہیں مگر جب بھی لاہور سے باہر کا سفر ہو تو یہ انتظامی صلاحیتیں کہیں نظر نہیں آتیں ۔

میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں لاہور سے دور ایک خوبصورت وادیٔ کا باسی ہوں اور گزشتہ ایک دہائی میں یعنی شہباز شریف کی حکومت کی مدت میں جب بھی وہاں جانا ہوا تو ان کی حکومت کو کوستا ہوا ہی واپس آیا ہوں کہ ہمارے ضلع خوشاب میں اور خاص طور پر ہمارے علاقے وادیٔ سون کو لاہور سے دور ہونے کی وجہ سے میاں شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کی ہوا بھی نہیں لگی شائد یہ ہوا صرف لاہور میں ہی چلتی رہی یا پھر اگر اس ہوا کا رخ تبدیل ہوا تو لاہور کے چند قریبی اضلاع کو بھی اس کے چند ٹھنڈے جھونکے نصیب ہو گئے۔

یہی وجہ تھی کہ گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ اپنے گڑھ خوشاب سے بری طرح ہار گئی اور اس کی وجہ لوگوں کی حکومت سے ناراضگی تھی کیونکہ وہ جب بھی اپنے کسی کام کے لیے لاہور کا سفر کرتے تھے تو لاہور کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل جاتی تھیں مگر جب وہ اپنے شہر کا سوچتے تو ان کی کھلی آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتی تھیں کہ اتنا تضاد اور امتیاز تو کسی فوجی حکومت میں بھی نہیں برتا گیا۔

میں نہ مسلم لیگی ہوں اور نہ میاں صاحبان کے مقربین میں سے ہوں لیکن مجھے ان لوگوں کے طرز حکومت پر ان سے افسوس سے زیادہ گلہ ہے کہ انھوں نے امتیازی حکومت قائم کر کے ملک میں جمہوریت کو ایک بار پھر ناکام کرنے کی کوشش کی اور اب موجودہ حکومت کو سیلکٹیڈ حکومت کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اگر میاں صاحبان کے بقول یہ حکومت سلیکٹ بھی ہوئی ہے تو یہ سب کچھ بھی ان کے کھاتے میں لکھ دیا گیا ہے اگر وہ صوبوں کے درمیان امتیاز نہ برتتے تو آج بھی عوام میں ان کی مقبولیت برقرار رہتی لیکن انھوں نے پاکستان کے تین صوبوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور صرف پنجاب میں اور وہ بھی چند مخصوص اضلاع میں ترقیاتی کام کیے جب کہ پنجاب کے پسماندہ علاقے دس سالہ حکمرانی میں بھی پسماندہ ہی رہے۔

پاکستان کو مارشل لائوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں پر جمہوریت سے زیادہ مارشل لائوں نے حکومت کی ہے اور مارشل لائوں کی وجہ سے ہمارے سیاستدانوں میں بھی ڈکٹیٹروں والے جراثیم بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔ اگر ایمانداری سے بات کی جائے تو ہمارے بیشتر حکمران انھی مارشل لائوں کی پیداوار ہیں اور سول حکمرانی کے نام پر اپنا ڈکٹیٹر پن ہم پر مسلط رکھتے ہیں۔ عوام سول حکومت کی ناکامی کے بعد فوجی حکومت کی آمد پر خوش ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ ہمارے منتخب وزرائے اعظم نے بھی عوامی حکومت قائم نہیں کی آمریت قائم کی ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف سب منتخب وزیر اعظم نہیں آمر تھے اس بات سے پوری قوم آگاہ ہے اور اتفاق کرتی ہے کہ عوام کے ان نمائندوں نے اپنے دور حکومت میں فوجیوں سے بد تر آمرانہ حکومت قائم کی ہے۔ میں لاہور میں ہوں تو میاں صاحبان کو روز یاد کرتا ہوں مگر اس دکھ کے ساتھ کہ کاش وہ بندہ بن کر حکومت کرتے ۔ خدا نے کن لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا مگر ان بدقسمت لوگوں نے اس کا شکر ادا نہ کیا ۔ ناشکرے بن کر سزا کے مستحق ہو گئے ۔ محرومیاں ان کا مقدر بن گئیں ۔

ایک حکمران کا شکر یہ نہیں ہوتا کہ وہ پانچ نمازوں میں تہجد کا بھی اضافہ کر دے ، تلاوتیں اور نعتیں سننی شروع کر دے ، میلاد کی محفلیں آراستہ کرنا شروع کر دے ، ہر گز نہیں۔ یہ سب اس کے ذاتی فعل ہیں جن کا اس کے منصب سے کوئی تعلق نہیں جس کے لیے خدا نے اس کا انتخاب کیا ہے یا اس کا موقع عطا کیا ۔ حکمران کا خدا کے حضور شکر یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں کی خدمت کرے اس کی ذات میں نیکی ہے تو وہ نیچے کی طرف سرائیت کرتی ہوئی عوام تک پہنچے ۔ ظالم کا ہاتھ مروڑا جائے اور حق سے محروم کو اس کا حق ملے ۔ ملک کی دولت کو عوام کی امانت سمجھے اور اقتدار کو خدا کی۔

مگر چھوڑیئے ان باتوں میں انسان ناشکرا ثابت ہوا ہے اور ایک سیاستدان اور حکمران سب انسانوں سے زیادہ ناشکرا۔ اقتدار اللہ کی دین اور عوام کی امانت ہوتی ہے خرابی تب ہوتی ہے جب اقتدار میں گڑ بڑ کی جائے تو اس سے اللہ تو ناراض ہوتا ہی ہے عوام بھی ناراض ہو جاتے ہیں اور اپنی ناراضی کا بدلہ وہ انتخابات میں لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس موجودہ دور کی جمہوریت میں یہی ایک موقع ہوتا ہے یہ کوئی مدینہ کی ریاست تھوڑی ہے کہ جہاں ایک عام آدمی بھی اپنے خلیفہ سے اس کے لمبے کرتے کا حساب مانگ لیتا ہے۔ ہماری جمہوریت ہٹو بچو والی دنیاوی جمہوریت ہے جس میں عوام حکمرانوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے چہ جائیکہ کہ ان سے باز پرس کر سکیں۔

بہر حال جیسی بھی جمہوریت ہو ہمیں اسی جمہوریت کے ساتھ انھی نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے ساتھ گزارا کرنا ہے کیونکہ ہمارے نصیب میں حکمرانی کے لیے بدل بدل کر یہی لوگ لکھ دیے گئے ۔ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں عوام کے لیے رحم پیدا کر دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔