- لاپتا افراد کا معاملہ بہت پرانا ہے یہ عدالتی حکم پر راتوں رات حل نہیں ہوسکتا، وزرا
- ملائیشیا میں فوجی ہیلی کاپٹرز آپس میں ٹکرا گئے؛ 10 اہلکار ہلاک
- عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں آج بھی بڑی کمی
- قومی ٹیم میں بیٹرز کی پوزیشن معمہ بن گئی
- نیشنل ایکشن پلان 2014 پر عملدرآمد کیلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
- پختونخوا کابینہ میں بجٹ منظوری کیخلاف درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس
- وزیراعظم کا ٹیکس کیسز میں دانستہ التوا کا نوٹس؛ چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو اسلام آباد معطل
- بلوچستان میں 24 تا 27 اپریل مزید بارشوں کی پیشگوئی، الرٹ جاری
- ازبکستان، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین شراکت داری کا اہم معاہدہ
- پی آئی اے تنظیم نو میں سنگ میل حاصل، ایس ای سی پی میں انتظامات کی اسکیم منظور
- کراچی پورٹ کے بلک ٹرمینل اور 10برتھوں کی لیز سے آمدن کا آغاز
- اختلافی تحاریر میں اصلاح اور تجاویز بھی دیجیے
- عوام کو قومی اسمبلی میں پٹیشن دائر کرنیکی اجازت، پیپلز پارٹی بل لانے کیلیے تیار
- ریٹائرڈ کھلاڑیوں کو واپس کیوں لایا گیا؟ جواب آپکے سامنے ہے! سلمان بٹ کا طنز
- آئی ایم ایف کے وزیراعظم آفس افسروں کو 4 اضافی تنخواہوں، 24 ارب کی ضمنی گرانٹ پر اعتراضات
- وقت بدل رہا ہے۔۔۔ آپ بھی بدل جائیے!
- خواتین کی حیثیت بھی مرکزی ہے!
- 9 مئی کیسز؛ شیخ رشید کی بریت کی درخواستیں سماعت کیلیے منظور
- ’آزادی‘ یا ’ذمہ داری‘۔۔۔ یہ تعلق دو طرفہ ہے!
- ’’آپ کو ہمارے ہاں ضرور آنا ہے۔۔۔!‘‘
شرح سود میں بار بار اضافہ معیشت کے لیے نقصان دہ
لاہور: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی جاری کردی اور شرح سود دو ماہ کے لیے 12.25فیصد مقرر کردی ۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افراط زر کی رفتار کے مدنظر شرح سود میں مزید اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مرکزی بینک سخت مالیاتی پالیسی کے ذریعے افراط زر پا قابو پانے کی کوشش کررہا ہے۔ مختصر وقفوں سے شرح سود بڑھائی گئی ہے جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اعدادوشمار پر نظر دوڑانے سے حکومت بینکاری نظام کی سب سے بڑی مقروض کے طور پر سامنے آتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے افراط زر ایک مالیاتی مظہر نہیں ہے۔ جب کبھی کوئی ملک آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنا چاہتا ہے تو حکومت سے کمرشل بینکوں کے ذریعے قرض لینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حکومت کو کمرشل بینکوں سے بلند شرح سود پر قرض لینا ضروری ہوتا ہے۔
اس طرح حکومت مالیاتی نظم و ضبط کے نفاذ اور بینکاری نظام سے محدود قرض کے حصول پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اس نوع کا مالیاتی نظم و نسق عالمی مالیاتی اداروں اور ریٹنگ ایجنسیز کے لیے قابل اطمینان ہوتا ہے۔ بہتر ریٹنگ غیرملکی سرمایہ کاری کے حصول میں معاون ہوتی ہے۔ تاہم یہ سخت مالیاتی نظم و نسق حقیقی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ سخت مالیاتی رسی پر چلنے سے عام طور پر منتخب شدہ حکومت کے لیے سیاسی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس قسم کا مالیاتی نظم و نسق ٹیکنوکریٹ حکومت کے لیے موزوں ہوتاہے جہاں معیشت اور سیاستی الگ الگ تصور کی جاتی ہیں۔ معیشت اور سیاست کو علیحدہ کرنے کیلیے عالمی مالیاتی ادارے وزارت خزانہ سے مرکزی بینک کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ مرکزی بینک کا سربراہ بھی کسی ٹیکنوکریٹ کو بنادیتے ہیں۔
مرکزی بینک عملی طور پر حکومت کا حصہ ہوتا ہے جس سے حکومت بآسانی قرض لے سکتی ہے اور جس کی موجودگی میں حکومت دیوالیہ نہیں ہوسکتی۔ عالمی مالیاتی ادارے حکومت کو کمرشل بینکوں سے قرض کے حصول پر مجبور کرکے اس فطری ربط کو محدود کردیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کمرشل بینکوں کے ذریعے قرض لینا حکومت کے لیے مہنگا ثابت ہوتا ہے اور اس کیلیے فسکل اسپیس محدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ شرح سود مختصر وقفوں کے بعد بڑھانے سے انٹرنیشنل فنڈ مینیجرز سے رقم ضرور حاصل ہوسکتی ہے مگر اس کی قیمت حقیقی معیشت کے نقصان کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔