بے لگام خواہشات اور بے جا فرمائشیں

منیرہ عادل  منگل 11 جون 2019
رشتوں اور تعلقات کی خوب صورتی پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ فوٹو: فائل

رشتوں اور تعلقات کی خوب صورتی پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ فوٹو: فائل

شادی کے بعد زوجین میں جھگڑا، تلخ کلامی اور دوریوں کی ایک وجہ بیوی کا اپنے شوہر کی مالی حالت اور ماہانہ بجٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی خواہشات کا اظہار اور فرمائشیں پوری کرنے پر اصرار بھی ہوتا ہے۔

اکثر عورتیں سمجھتی ہیں کہ منہگے اور کسی معروف برانڈ کے ملبوسات، زیورات، پرس، سینڈل پہن کر وہ کسی محفل میں نمایاں ہو سکتی ہیں اور سب کی نظروں میں ان کے لیے ستائش ہو گی۔ سجنا سنورنا اور خوب صورت نظر آنا ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی رشتوں کی خوب صورتی برقرار رکھنے اور تعلقات کو مضبوط بنانے پر بھی دھیان دینا چاہیے۔

بیوی کی ہٹ دھرمی، ضد اور بے جا فرمائشیں شوہر کو اس سے بدظن کردیتی ہیں۔ رشتوں کی خوب صورتی تو قناعت، قربانی اور توازن میں پنہاں ہے۔ ایک عام عورت جس کو اپنی ذات پر اعتماد ہو، اسے اپنے ظاہر کی تعریف سننے کی  تمنا نہیں ہوتی بلکہ وہ سادہ سے لباس، ہلکے پھلکے میک اپ میں بھی وقار سے سر اٹھا کر چلتی ہے اور خوش رہتی ہے۔

اگر دیکھیں تو شوہر بھی اپنی محدود تن خواہ میں اپنی بیوی کی فرمائشیں پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے قیمتی اور نام ور برانڈ کی چیز دلائے مگر ضد اور بے جا فرمائش اسے اپنی بیوی سے دور کرسکتی ہے۔ اگر وہ ہر تقریب کے لیے ایسے خرچے کا متحمل نہیں ہوسکتا تو بیوی کی ضد اس کے لیے ذہنی کوفت کا باعث بنتی ہے اور وہ اس سے بیزار ہو جاتا ہے۔

شوہر یہ محسوس کرتا کہ بیوی کو گھر سے یا اس سے کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ اس کی خوشی محض برانڈڈ بیگز، چپل یا ملبوسات ہیں۔ خواتین کی لامحدود خواہشات گھریلو جھگڑوں کا سبب بنتی ہیں۔ درحقیقت یہ شخصیت میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے  جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی خواتین کو سمجھنا چاہیے کہ کیا خوشی کا دار و مدار ان قیمتی اور مہنگی اشیا پر ہے۔ انسان کی سوچ، اس کا کردار اور تعلقات ان تمام قیمتی اشیا سے بڑھ کر قیمتی ہے۔ جو خواتین اپنی خواہشات کی غلام ہوتی ہیں، درحقیقت وہ اپنی شخصیت کو اس قیمتی شے یا لباس کے متوازی گردانتی ہیں جب کہ شخصیت اس سے بہت بالاتر ہوتی ہے۔

بعض اوقات خواتین اچھی خاصی فضول خرچی کر جاتی ہیں، جب کہ وہ اپنے پرس کی کشادگی سے بھی واقف ہوتی ہیں اور انہیں اپنے شوہروں کی آمدنی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہماری معاشرتی اقدار اور ہمارا مذہب ہمیں فضول خرچی کی اجازت بالکل نہیں دیتا۔ ہمارے دین نے تو ہمیں اعتدال کا درس دیا ہے جس کے بعد ہمارے معاشرے میں، خاندانوں کے درمیان پیار و محبت کی راہ ہموار ہوتی ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کا خیال کرنے والے بنتے ہیں۔

اس حوالے سے خواتین بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، کیوںکہ وہ اپنے گھر کی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسے ہر طرح کے خسارے سے بچاسکتی ہیں۔ بیوی اگر اپنے شوہر کی جیب دیکھتے ہوئے فرمائش کرے تو شوہر کو بھی اپنی گنجائش دیکھتے ہوئے بیوی کی فرمائش ضرور پوری کرنی چاہیے۔ اسے اس موقع پر بخل اور کنجوسی سے ہٹ کر  بیوی کو کم از کم اس پیمانے پر ضرور رکھنا چاہیے جہاں وہ خوش بھی دکھائی دے اور مطمئن بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔