قبائلی اضلاع میں 2 جولائی کو منعقد ہونیوالے الیکشن بے یقینی کا شکار

شاہد حمید  بدھ 12 جون 2019
25 ویں آئینی ترمیم کے مطابق قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی سے آگے نہیں لے جائے جا سکتے۔

25 ویں آئینی ترمیم کے مطابق قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی سے آگے نہیں لے جائے جا سکتے۔

پشاور:  قبائلی اضلاع میں 2 جولائی کو منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات بے یقینی کا شکار ہوگئے ہیں اور ایسانظر بھی آرہا تھا کیونکہ وزیرستان میں پی ٹی ایم اور سکیورٹی فورسز کے مابین جو صورت حال بنی اس کے بعد کشیدگی پیدا ہوئی۔

سیکورٹی فورسز اہلکاروں کی شہادتوں کی وجہ سے معاملات گھمبیر ہوگئے جس کی وجہ سے نظر آرہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہوگااور اسی صورت حال کے پیش نظر صوبائی حکومت نے امن وامان کو جواز بناتے ہوئے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 20 دنوں کے لیے ملتوی کرنے کی باقاعدہ درخواست کردی ہے جو الیکشن کمیشن کوبھجوائی گئی ہے۔

یہ بیس دن اس لیے کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے مطابق قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی سے آگے نہیں لے جائے جا سکتے کیونکہ چھبیسویں آئینی ترمیم تاحال منظور نہیں ہوئی جس میں مذکورہ انتخابات کو چھ ماہ سے ایک سال کے لیے ملتوی کرنے کی سفارش کی گئی ہے اس لیے معاملات پچیسویں آئینی ترمیم کے گرد ہی گھوم رہے ہیں جس کے تحت یہ انتخابات عام انتخابات کے ایک سال کے اندر منعقد کرنا لازمی ہیں، یہ تھیوری بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ اقدام بعض سیاسی جماعتوں کی تیاری مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے تاہم جو صورت حال بظاہر ہے اس کے مطابق یہ التواء امن وامان کی صورت حال کی وجہ سے ہی کیاجا رہاہے۔

ماہ رمضان کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھیں تاہم اب رمضان کے گزرتے ہی سیاسی جماعتیں متحرک ہونا شروع ہوگئی ہیں کیونکہ ایک جانب تو عوام کی نظریں بھی اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ تحریک پر لگی ہوئی ہیں جس کا اعلان ماہ رمضان میں افطاری پر کیا گیا تھا جبکہ دوسری جانب دو جولائی کو قبائلی اضلاع کے انتخابات بھی منعقد ہونے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ مہینہ بجٹ کا مہینہ ہے جس میں مرکزی اور چاروں صوبوں کے بجٹ پیش ہونے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ تحریک کا آغاز اس ماہ کے اواخر یا آئندہ ماہ جولائی ہی سے ہونے کا امکان ہے کیونکہ اس سے قبل جمعیت علماء اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آل پارٹیز کانفرنس بلانی ہے جس میں مشترکہ احتجاجی پروگرام کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا تاہم لگ یہی رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین مرکزی بجٹ کو دیکھتے ہوئے ہی اے پی سی کا انعقاد بھی کریں گے اور اسی تناظر میں مشترکہ احتجاجی تحریک کے لیے حکمت عملی بھی وضع کی جائے گی۔

اپوزیشن جماعتوں کی حکومت مخالف مشترکہ تحریک کا آغاز تو بعد میں ہوگا تاہم اس سے پہلے ہی عوامی نیشنل پارٹی میدان میں نکل آئی ہے جس نے مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف میدان گرم کیا ،اے این پی نے حکمت عملی اپناتے ہوئے احتجاج کے لیے کسی ایک شہر یا ضلع کا انتخاب کرنے کی بجائے پورے صوبہ کا انتخاب کیا اور اس کے لیے قائدین کو تقسیم کرتے ہوئے ہر ضلع میں ان کو ذمہ داری دی گئی جس کے نتیجے میں بیک وقت پورے صوبہ میں احتجاج کیا گیا۔

یہ احتجاج اے این پی کے نوجوان صوبائی صدر ایمل ولی خان کا پہلا امتحان تھا کیونکہ انہوں نے اس احتجاج کا فیصلہ اپنی پارٹی کی صوبائی کابینہ کے پہلے اجلاس میں کیا اور اسی فیصلے کے تحت یہ احتجاج کیا گیا اور وہ اپنے اس پہلے امتحان میں کامیاب ٹھہرے کیونکہ اے این پی ایک بھرپور شو کرنے میں کامیاب رہی ہے جس کے بعد یقینی طور پر قومی وطن پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی میدان میں نکلیں گی اور اگر اپوزیشن کی مشترکہ تحریک میں تاخیر ہوئی تو اس صورت حال میں اپوزیشن کی جماعتوں کے پاس تنہا پرواز کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

اے این پی اس معاملے میں یقینی طور پر بازی لے گئی ہے جو اگلے مرحلے میں پختونوں کو یکجا کرنے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے 14جون کو قومی جرگہ منعقد کرنے جا رہی ہے جس میں تمام پختون قوم پرست قوتوں اور پارٹیوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی اور اس بارے میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پی ٹی ایم کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی جا سکتی ہے کیونکہ کچھ چند روز قبل ہی پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے ایمل ولی خان سے ولی باغ میں ملاقات کی جس میں پختونوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا گیا تاہم یہ ایک بڑا فیصلہ ہوگا اور ایمل ولی خان اس بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ اپنی پارٹی کی لائن کو دیکھتے ہوئے ہی اس بارے میں فیصلہ کریں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔