حکومتی دعوے اپنی جگہ مگر اپوزیشن کے تبدیلی کیلئے رابطے جاری

رضا الرحمٰن  بدھ 12 جون 2019
ابھی تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف نمبر آف گیم کو پورا نہیں کر سکیں۔

ابھی تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف نمبر آف گیم کو پورا نہیں کر سکیں۔

کوئٹہ:   عید الفطر کے بعد بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں کے درجہ حرارت میں بھی تیزی سے تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔ گو کہ ان سیاسی سرگرمیوں کا آغاز رمضان المبارک کے آخری عشرے میں افطار پارٹیوں میں ہو چکا تھا جو کہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہیں۔

سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو کی جانب سے دی گئی ایک پرتکلف افطار پارٹی میں ان سیاسی سرگرمیوں کا پول اُس وقت کھل گیا جب اس پارٹی میں حکومتی ارکان کے علاوہ اپوزیشن جماعت کے ارکان نے بھی شرکت کی اس افطار پارٹی کو سیاسی حلقوں میں پذیرائی اس لئے بھی ملی کہ اس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان تمام وقت تبدیلی کے حوالے سے گفت و شُنید کرتے رہے۔

اپوزیشن ارکان عید الفطر کے بعد سرگرم ہونے کا عندیہ دیتے رہے تاہم عید الفطر سے قبل ہی اپوزیشن جماعتوں نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کیلئے باقاعدہ ریکوزیشن جمع کرا دی۔ اس ریکوزیشن کے جمع ہونے کے ساتھ ہی یہ افواہ بھی تیزی سے پھیل گئی کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جا رہی ہے جس کیلئے اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی اجلاس کیلئے ریکوزیشن ایک معمول کی بات ہے جہاں تک تعلق تحریک عدم اعتماد کا ہے تو اس کیلئے باقاعدہ اسمبلی کو آگاہ کیا جاتا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی ریکوزیشن میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ان افواہوں کی خود بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد لانے کی تردید بھی کردی اور ریکوزیشن پر بلائے گئے اجلاس پر وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ ریکوزیشن پر بلائے گئے اس اجلاس میں بلوچستان کی مجموعی صورتحال پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ مالی سال کے بجٹ اور پی ایس ڈی پی کو ایوان میں زیر بحث لایا جائے گا۔

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا یہ کوئی مناسب وقت نہیں اور نہ ابھی تک اپوزیشن جماعتوں نے تبدیلی کے حوالے سے ہوم ورک پورا نہیں کیا۔ موجودہ صورتحال میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اور وزیراعلیٰ جام کمال کی طرف سے بیانات کی حد تک دعوے ضرور سامنے آئے ہیں لیکن ترپ کا پتہ ابھی تک دونوں اطراف سے نہیں پھینکا گیا۔ صوبے میں تبدیلی کے حوالے سے دونوں اطراف سے دعوؤں نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسمبلی اجلاس بلانے کیلئے روٹین کی ریکوزیشن پرتحریک عدم اعتماد کی افواہ اور بعد ازاں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی وضاحت کے بعد تحریک عدم اعتماد کی یہ افواہ دم توڑ گئی۔

تاہم بعض سیاسی مبصرین کے مطابق اس میں کوئی شک و شبے کی بات نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کی یہ خواہش ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر ان کی حکومت کو تبدیل کیا جائے جس کیلئے بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اور سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں ہیں۔ اس کے علاوہ سردار اختر جان مینگل اور نواب محمد اسلم رئیسانی کے مابین بھی ملاقات ہوئی ہے۔ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہاں تک کہا تھاکہ عید کے بعد ہم جام کمال کی حکومت کے خلاف لابنگ کا آغاز کریں گے، جس کا آغاز عید سے قبل ہی ہوگیا ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں کے علاوہ حکومتی اتحادیوں کے ساتھ بھی روابط بڑھا رہی ہیں لیکن ابھی تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف نمبر آف گیم کو پورا نہیں کر سکیں جب تک نمبر آف گیم پورا نہیں ہوتا اور اس حوالے سے اپوزیشن جماعتیں ہوم ورک پورا نہیں کر لیتیں اُس وقت تک جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی سیاسی غلطی نہیں کر سکتیں۔

وزیراعلیٰ جام کمال بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ جس طرح سے سردار اختر مینگل کہتے ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض ارکان اسمبلی اُن کے ساتھ ہیں اسی طرح ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے بعض ارکان ہمارے رابطے میں ہیں اور وہ ہم سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے خواہشمند بھی ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کا فی الحال صوبائی بجٹ کے حوالے سے موجودہ مخلوط حکومت پر اپنا دباؤ بڑھانے کا ارادہ ہے تاکہ وہ2019-20 کی صوبائی پی ایس ڈی پی میں اپنی نمائندگی کو زیادہ سے زیادہ شامل کرانے میں کامیاب ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صوبائی مخلوط حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ جام کمال تک یہ پیغام پہنچا رہی ہیں کہ اگر انہیں اس پی ایس ڈی پی میں نظر انداز کیا گیا تو وہ بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ ڈالیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔