آغا حشر لیاری میں

نادر شاہ عادل  جمعرات 13 جون 2019

دلچسپ انکشاف یہ ہے کہ لیاری میں تھیٹرکا قیام اور مقبولیت بھی نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ تھیٹرکے قیام کی جدوجہد میں کتنوں  نے رضاکارانہ تعاون کیا،کیسے وہ فن اداکاری کے لیے وقت نکالتے رہے،ان کے لیے صبح کرنا شام کا لانا تھا جوئے شیرکا، لیکن رات کو ڈرامے اسٹیج ہوتے، شائقین جوق درجوق محمد ہاشم رنگونی صاحب کی موسیقی،آغا حشرکے مرصع مکالموں ، دھواں دار اور دبنگ ڈائیلاگ سے لطف اندوز ہوتے، محنت کش اورکم تعلیم یافتہ بلوچ اداکاروں کو تلفظ کی دقت پیش آتی تو نبی بخش اور شمیم بلوچ یہ کمی پوری کردیتے۔

کیسا دلفریب راز ہے کہ سیفی اسپورٹس کلب کے غلام عباس بلوچ نے اسی ڈرامہ میں ٹائٹل رول کیا تھا ، جب کہ وہ انٹرنیشنل فٹبالر اور بعد میں فیفا کے نائب صدر بھی رہے،اسی طرح ایرانی نژاد ہمارے مہمان یوسف ایرانی نے بابا جی کا گھریلو ملازم کا کیسا شاندارکردار نبھایا ، نبی صاحب نے کامیڈی رول کیے، مجھے ہاشم رنگونی نے مرچنٹ آف وینس کا ایک  ینگ کردار دیا۔لیڈی پرفارمر  خواجہ سرا غلام رسول  نے یہ کردار ادا کیا  تھا۔ بچل شیرازی ، بچل لاسی ، ماما کریم بخش ، بختیار، بابو پریمی اور دیگر اداکار تھیٹرگروپ سے وابستہ تھے۔

ایک دوسرے ڈرامہ ’’یہودی کی لڑکی‘‘ میں ماما عمر نے لاجواب اداکاری کی ،  وہ ’’ نیرو ‘‘  کا رول کررہے تھے ، اس کا گانا بھی مقبول ہوا، ’’ شاہے زی شان ، نیرو سلطان، حاملے کاملِے نوشیروان‘‘ اس ڈرامہ کے ایک سین نے اس وقت سنسنی پھیلا دی جب ماما کریم بخش کسی کی لاش کے ٹکڑے کرنے کے بعد اسٹیج پر اس کے خون آلود لوتھڑے لے آیا، اسٹیج پر تلوار بازی کے جوہر بھی دکھلائے جاتے۔ محمد ہاشم رنگونی کوکبھی حکومت نے معاونت مہیا نہیں کی،اسی زمانے میں لیاری کے طالب علموں نے اپنے ڈرامہ میں ماسٹرسنڈر اور ماسٹر جولپ کے کردار نبھائے اور لیاری کا گدھا اسٹیج پر پہنچا دیا، لوگ کافی دیر محظوظ ہوتے رہے۔ شریف چارلی اور ملنگ چارلی کا اس زمانے میں لیاری کے کامیڈی حلقوں میں بڑا نام تھا ، وہ جیری لوئیس کی جگہ لیے ہوئے تھے۔

لوگوں کا سنس آف ہیومر بھی بے عیب تھا، لیاری میں کئی سیاہ فام فٹبالر ایسے تھے جن کی زبانی لوگ انگریزی کاؤ بوائے فلم کی پوری رننگ اسٹوری باڈی لینگویج اور منہ سے بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ دلچسپی سے سنتے تھے۔ مراد محمد عرف امت اس فن میں طاق تھے۔ شاہ بیک لین کا ایک بلوچ نوجوان شادی بیاہ کی محفلوں میں عربی گانے سناتا اور حیرانی کی بات یہ ہوتی کہ عربی کا میوزک اور عربی شاعری یا گیتوں کی عربی زبان، ٹیکسٹ اس کا خود ساختہ تھا ۔ وہ بے ساختہ عربی گڑھتا تھا اور لوگ اس کے جعلی عربی اسٹائل پر سر دھنتے تھے۔

وقت نے ایک کروٹ بدلی تو لیاری میں کلاسیکی موسیقی نے مقبولیت حاصل کی،استاد قدرت اللہ خان، ان کے خانوادے کے کئی خوش گلو نوجوان گلوکار ککری گراؤنڈ کے سامنے صرافہ بازارکی بلڈنگ میں رہائش رکھتے تھے، کے ایم سی کے سینٹر ہاف سوالی کلاسیکی گلوگاری کے جوہر دکھاتا،اسی طرح کے ایم سی کے لیفٹ ہاف غلام محمد گولو مناڈے کا گانا سناتا ’’ لاگا چنری میں داغ ‘‘ تو سماں بندھ جاتا۔اس کے کئی کیسٹ آج بھی فروخت ہوتے ہیں۔

وقت نے زقندیں بھریں،کسی کو ہاشم رنگونی اور ان کا گروپ یاد نہیں رہا، یہ درد ناک اور واشگاف حقیقت مجھ پر  فلمی اخبار ’’نورجہاں‘‘ ویکلی میں کھلی۔ بچپن کے اسکرین پر بہت ساری دھند چھاگئی ہے، چہرے مرجھا گئے ہیں۔ غالباً 1964ء کی ایک کڑی دوپہر تھی کہ دفتر میں ایک آوازگونجی ’’ارے کوئی ہے؟ ‘‘ جواب دیا کہ ’’جی تشریف لایئے، اچانک نیوز روم کا دروازہ کھلا تو ایک عمر رسیدہ پستہ قد دبلا پتلا شخص میرے سامنے کھڑا تھا،درویشوں جیسے بال، پرانا تھیلا کندھے پر لٹکائے کرسی پر بیٹھ گیا، مجھے محسوس ہوا کہ آوازکی دولت بابا کے پاس قدرے زائد ہے،کہنے لگے بندہ ناچیزکو اختر وارثی کہتے ہیں، آپ نوجوان رائٹر ہونگے، اس لیے اپنا تعارف کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔

یوں آغا حشر مرحوم کے ایک کہنہ ساتھی اداکار سے میری ملاقات ہوگئی، باتوں باتوں میں وہ پورا تھیٹریکل ماضی کھنگال گئے،انسائیکلو پیڈیا تھے، وارثی لیاری بھی آئے، ان سے بے تکلفی کے باعث یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ تھیٹرکی محبت میں عمر عزیزکے ضیاع کا کچھ احساس تو نہیں، زمانے  نے اختر وارثی کوکیا دیا، تو اپنا بیگ سنبھالا اورکہنے لگے  غالب کی تضمین میری زبانی سنیے۔

چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط

بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ’’ تھیلا ‘‘ نکلا

چائے کا دور چلا، میں ان کی گفتگوکے چیدہ چیدہ پوائنٹس نوٹ کرتا رہا ، شبنم جبلوری دفترکے اخباری اور دیگر انتظامی معاملات بھی دیکھتے تھے، چیف ایڈیٹر ایس اے چاؤلہ مرحوم کو ابھی آنے میں دیر تھی،کافی مفید اور معلومات افزا گفتگو وارثی صاحب سے ملی، ظاہر ہے انڈین شیکسپئیر محمد شاہ عرف آغا حشرکا مستند حوالہ موجود تھا۔ بات مکمل ہوئی تو پھر کسی دن کہنے کا کہہ کر چلے گئے، ان کی یاد داشتیں میں نے ویکلی اخبار میں شایع کردیں۔

ضیاء محی الدین نے آغا حشر کی 70 ویں برسی کی تقریبات ناپا میں 2005 ء میں منعقد کیں ۔ ابھی اختر وارثی کا انٹرویو چھپا ہی تھا کہ لیاری میں ہمارے بزرگ محمد ہاشم رنگونی محلے میں ملے، بہت خوش ہوئے کہنے لگے،اختر وارثی ہمارے بھی پرانے دوست ہیں، تھیٹر میں ان کی آواز ہمیشہ سب سے منفرد اور پاٹ دار ہوتی تھی، رنگونی نے بتایا کہ وہ آج تک شیکسپئیرکے کئی ڈرامے اسٹیج  کرچکے ہیں، اسٹیج کے کلر پردے ، اسٹیج لائٹنگ، وڈ ورکس کی ونگزکی تیاریاں اور شائقین کی نشستوں کا اہتمام عموماً گلی یا کسی کشادہ اسٹریٹ میں ہوتا تھا ، ہمارے تھیٹریکل گروپ کے بارے میں بھی کبھی کچھ لکھ لیجیے۔

لیاری میں ایک ایسا کمیٹڈ اور ذہین شخص بھی رہتا ہے جس کی فنکارانہ صلاحیتیں اور جوانی ایسٹرن اسٹوڈیو اور پی ٹی وی کی ایڈیٹنگ ٹیبل اور ڈارک روم میں گزری۔اس جینیئس آدمی کا نام انورکمال ہے۔ پی ٹی وی کا شاید کوئی باکمال پروڈیوسر ایسا ہو جس نے اپنی کسی پروڈکشن کی تدوین انور کمال کے دست کمال سے مس کیے بغیر مکمل کی ہو۔ ایک بار کہنے لگے کہ اس دل میں سبھی داغ ہیں بجز داغ ندامت۔ کئی بار اداس لہجے میں کہتے بھی سنے گئے کہ جب آپ کو فلم انڈسٹری اور پی ٹی وی میں میری تدوین کسی انورکمال کے خون جگرکے بغیر ہوگی تو مجھے حرف غلط کی طرح مٹا دینا۔ انورکمال بھی ہزاروں نوجوانوں کی طرح لیاری میں گوشہ  گمنامی میں پڑا رہا، بعض اوقات خود داری، عجزوانکساری ، سادگی اور شرافت بڑے دکھ دیتی ہے۔

فی زمانہ تدوین کاری  کا ہنر ہمارے ہاں ڈیجیٹلائزیشن کے باعث اب سب کی دسترس میں ہے، صوتی اثرات اور وزیول ایفیکٹس کے بازار سجے ہوئے ہیں، ماہر افراد موجود ہیں۔ مگر جب چار پانچ عشرے قبل میدان میں انور کمال اور اس کی ایک میز ہوتی تھی جس پر فلم میٹریل کی ریلیں Reels تیز تیز چلتی تھیں، سیمنٹ سے جوڑ ملائے جاتے، ایڈیٹنگ کے لیے ماہر ہدایتکار، پروڈیوسر انورکمال کی ٹائمنگ ، ہاتھ کی صفائی اور سرعت کا کمال دیکھتے تو دنگ رہ جاتے۔ ہالی وڈ میں کہتے تھے کہ تدوین کار میز پر مکمل ہدایتکار ہوتا ہے۔

editor is a complete film director on the table ہدایت کار ڈیوڈ لین اور الفریڈ ہچکاک سے زیادہ کون تدوین کارکی اہمیت اور فن سے واقف ہوگا۔ان عظیم فلم ڈائریکٹرزکا پتا تھا کہ بند ڈبوں میں عکس بند میٹریل کا مسیحا کون ہے۔ ایک تدوین کارکو اندازہ ہوتا ہے کہ مارلن برانڈو کو اپنے اظہار غم کے لیے کتنے میٹر کا فیتا چاہیے، ’’بن حر‘‘ کے ہدایتکار ولیم وائلرکوکس نے بتایا تھا کہ یاکیماکانٹ نے رتھوں اور درجن بھر سے زائد گھوڑوں کی ریس کے لیے کتنی ایڈیٹنگ مانگی تھی اورکتنے کیمرے؟ جیک ہاکنس کو چارلٹن ہیسٹن کی پیٹھ پر ہنٹر مارنے کے لیے کتنا وقت درکار تھا اور ہیسٹن کی ضرب کی شدت کے رد عمل میں حملہ کرنے کی بے تابی کے لیے تدوین کارکب مانع ہوا تھا؟ پھر تدوین کار نے وہ جملہ کیوں رہنا دیا کہ hate keeps a man alive۔

روزنامہ’’ مشرق‘‘ کراچی کے ابتدائی رپورٹنگ کے دن تھے، میرا ایک پیکٹ ہر ہفتہ فلم انچارچ نسیم شاد کے لیے لاہور جاتا تھا، میں مستقل ملازم نہیں تھا، مگر پوری مشرق کی ٹیم  مجھے بہت پیار دیتی تھی، ایک روز ممتاز طنز نگار اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر ارشاد احمد خان نے کہا کہ ’’ نادر بیٹے، جاؤ پیلس ہوٹل میں ایرانی ہدایتکار علی رضا فاضلی سے انٹرویوکرلو۔‘‘ لیاری میں ایرانی ہدایت کار فاضلی کو نوجوان فائٹر اداکاروں کی بھی ضرورت ہے، میں وقت مقررہ پر ہوٹل پہنچا، بات چیت مکمل ہوئی تو فاضلی نے پوچھا ’’ ایکٹنگ کرنے کا ارادہ ہے‘‘  میں جواب نہ دے سکا ، مسکرائے اورکہنے لگے میری فلم ’’جین بونڈ 007‘‘کی ایسٹرن اسٹوڈیو میں شوٹنگ ہو رہی ہے، رخشندہ خٹک اس کی ہیروئن ہے، لیڈنگ رول میرا ہے، تم جب چاہو ، اسٹوڈیو آسکتے ہو۔ فلم تیار ہوئی ، ریلیز بھی ہوئی مگر میں اسے دیکھ نہ سکا۔ رضا فاضلی کا انٹرویو شایع ہوا تو بہت خوش ہوئے۔یار زندہ صحبت باقی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔