اٹھارویں ترمیم اور مرکز گریز رجحانات

سعد اللہ جان برق  جمعرات 13 جون 2019
barq@email.com

[email protected]

لگتا ہے کہ

’’شفا‘‘ اپنی قسمت میں ہے ہی نہیں

کہ مقدور بھر تو دوا کرچلے

کیونکہ اس بدنصیب ملک کے وزیراعظم جن کے ساتھ اس باربار شکار ہونے والے ملک کے عوام نے بہت ساری’’امیدیں‘‘وابستہ کی ہوئی تھیں اور ان کا کہنا تھاکہ وہ ’’نوے دن‘‘میں اس ملک کا سب کچھ ’’ٹھیک‘‘  کرلیں گے پھر اس کے ساتھ تبدیلی اور نیا پاکستان کی خوشخبریاں بھی قوم کو دی جاتی تھیں کہ میرے آتے ہی اس قوم کو اپنا’’پیراڈائزلاسٹ‘‘مل جائے گا۔وہ تو سب کچھ اپنی جگہ۔کیونکہ حسب معمول حسب روایت اور حسب  سیاست خزانہ خالی ہے۔ملک نازک دور سے گزر رہا ہے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

کیا ہوتا ہے کب ہوتا ہے کیسے ہوتاہے وہ تو کسی اور نعرہ باز’’مسیحا‘‘کے پیدا ہونے تک چلتا رہے گا۔لیکن جناب اس وزیراعظم نے اپنے دوسرے دعوؤں کے ساتھ ایک نیا ٹپہ بھی الاپا ہے بلکہ مسلسل الاپے جا رہے ہیں کہ ’’وفاق‘‘کو صوبوں نے لوٹ لیاہے اور اٹھارویں ترمیم نے ’’ یہ یہ‘‘ اور’’وہ وہ‘‘کیاہے۔صاف لگتا  ہے کہ موصوف اس’’اٹھارویں‘‘ ترمیم ہی کو  نیاپاکستان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے کر اس کا ’’تیاپانچا‘‘ کرنا چاہتے ہیں یا کرنے والے ہیں یاکرکے چھوڑیں گے۔

یہ ’’وفاق‘‘نام کی چیز بہت سارے ملکوں میں موجود ہے اور پائی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کا تصور ساری دنیا سے مختلف ہے اس میں لاالہ الا اللہ کا سلیس اردو ترجمہ ’’نظریہ پاکستان‘‘بھی شامل ہے اور پھر اس کی تفسیر ’’سایہ خدائے ذوالجلال‘‘بھی جلوہ گر ہے اور ان سب کا جوہر ’’مضبوط مرکز‘‘کی صورت میں نکالا گیا ہے۔جسے انگریزی میں ’’سینٹرلائزیشن‘‘اور اردو میں’’ارتکاز‘‘کہتے ہیں جو بڑی حد تک پرانے زمانے کے دیوتا، دیوتا زادے،ظل الہیٰ اور ظل الہیٰ کے مشابہ ہے یعنی ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔حالات اس مضبوط مرکز کو پوری طرح لاگو ہونے نہیں دے رہے ہیں ورنہ اس میں پینے کا پانی تک مرکز کے ہاتھ میں ہونے کی بھی گنجائش ہے۔

بلکہ اگر ہماری تھوڑی سی مالی تنگی نہ ہوتی تو ملک میں سارے دریا بھی اسلام آباد سے ہوکرجارہے ہوتے اور جن جن پہاڑوں نے اپنے نیفے میں کچھ نہ کچھ دبایا ہوا ہے ان کو گھسیٹ کر یہاں لایا جاچکا ہوتا۔ظاہر ہے کہ ہوا نظریہ پاکستان کو نہیں مانتی ورنہ سانسیں بھی یہاں ہی سے سپلائی ہوتیں۔ظاہر ہے کہ جب مضبوط مرکز کے پاس اتنے سارے’’کام‘‘ہوں گے تو ان کے لیے وزیران کرام اور افسران عظام کی بھی ضرورت پڑے گی اور ان سب کا’’راتب‘‘بھی یہاں کھینچ کرلانا پڑے گا۔بہت سارے دروازے ہوں گے تو ان کے آگے سفیدہاتھی بھی باندھنا پڑیں گے اور ہاتھی تو چارہ بھی بہت کھاتے ہیں اس لیے چارہ اکٹھاکرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوگا۔

یہ سب ہوجاتا لیکن افسوس صدافسوس کہ کچھ قوم دشمن تو نہیں لیکن’’مرکزدشمن‘‘قوتوں نے’’مرکزگریز‘‘  رجحانات سے کام لے کر اس میں اٹھارویں ترمیم کی کھنڈت ڈال دی۔اور برائے نام ہی سہی یا صرف ’’برسرکاغذ‘‘ہی سہی صوبوں کو ’’اختیارات‘‘دے کر قوم کی یکجہتی وسلامتی کو خطرے سے دوچار کیا۔اس سلسلے میں بات آگے بڑھانے سے پہلے چند مخصوص میڈان پاکستان بلکہ ’’میڈان نظریہ پاکستان‘‘  اصطلاحات کی تشریح بھی لازم ہے۔

سایہ ’’خدائے ذوالجلال‘‘ تو خیر بہت پرانے زمانے کی چیز ہے جو ہمیشہ حکمران کی شکل میں کسی قوم پر ضوفگن ہوتاہے چاہے وہ فرد واحدہو یا کوئی ان لمٹیڈکمپنی ہو۔’’نظریہ پاکستان‘‘ایک نئے ’’دین‘‘کا میگناکارٹا  ہے جس میں مشکل الفاظ کو آسان الفاظ میں ترجمہ کرلیاگیا ہے۔ مضبوط مرکز تو آپ جانتے بھی ہیں پہچانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں یعنی زیادہ سے زیادہ وزیروں اور ان کے حاشیہ نشینوں کانام مضبوط مرکز ہوتاہے اور اس کی ہیت ترکیبی وہی ہے جو حلوے کی ہے جتنا گڑ زیادہ اتنا میٹھا زیادہ ، جتنے زیادہ وزیر اتنا ہی مضبوط مرکز۔

ایک معیاری مضبوط مرکز کے لیے کم ازکم سو وزیر دو سو مشیر اور تین سو وزرائے مملکت ضروری ہوتے ہیں لیکن پاکستان ابھی مالی وجوہات اور صوبوں کے مرکز گریز رجحانات کی وجہ سے یہ ہدف حاصل نہیں کرپایاہے۔ہاںیہ ’’مرکز گریز رجحانات‘‘کی اصطلاح خاص طور پر تشریح طلب ہے کیونکہ جن لیڈران کرام اور صحافیان عظام نے یہ اصطلاح وضع کی تھی وہ پلاٹوں بنگلوں سرکاری زمینوں اور مراعات میں مصروف ہوچکے ہیں اس لیے کماحقہ توجہ اس طرف نہیں دے پارہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ سب سے’’بڑا مرکز گریز‘‘ حادثہ ہوگیا جسے اٹھارویں ترمیم کہتے ہیں اور ہمارے نئے پاکستان کے معمار وزیراعظم اس کے ’’درپے‘‘ نظر آرہے ہیں۔

اب یہ مرکز گریز رجحانات کا اس سے بڑا ثبوت اور کیاہوگا کہ ایک پورا صوبہ ایک مرکز گریز نام سے موسوم ہوگیا حالانکہ اصولی طور پر جب یہ کہاجاچکاہے کہ میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے۔ تو پھر کسی اور نام کا رکھنا مرکز گریز رجحان نہیں تو اور کیاہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر صوبے  ضلعے بلکہ تحصیل اور شہروں تک کے نام پاکستان رکھ دیے جاتے اور پہچان کے لیے ’’نمبر‘‘ دیے جاتے۔ پاکستان(نمبر1)پاکستان نمبر101۔پاکستان نمبر555 یا پاکستان نمبرچارسو کچھ۔ بہرحال مرکز گریز رجحانات نے تو اپنا کام دکھادیاہے اب مضبوط مرکز کو اپنا کام کرناہے جس کی خوشخبری جناب وزیراعظم کے بیانات میں پائی جاتی  بلکہ کچھ لوگوں کو تواس میں ’’ون یونٹ‘‘ کی سن گن بھی مل رہی ہے۔بات تھوڑی سی ہماری سمجھ سے پرے ہے کیونکہ وہ شرپسند بنگالی تو اب رہے نہیں جن کی اکثریت ہی ان کے لیے ’’بلا‘‘ہوگئی تھی اب’’ون یونٹ‘‘ کس کے خلاف بنایا جائے گا؟بنانے والے بنا بھی سکتے ہیں کیونکہ مرکزکو تو مضبوط بہرحال رکھنا ہے۔

یہ بھی کوئی مضبوط مرکزہے کہ صرف پچاس ساٹھ وزیر ہی رکھ پارہاہے۔آخر لوگ کیا کہیں گے اور بیچارے وزارت کے امیدوار جو اتنا زیادہ ’’مال حلال‘‘خرچ کرچکے ہیں وہ کس لیے؟۔اگریہ سلسلہ اسی طرح اس منحوس اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے جاری رہا تو وہ دن بھی دور نہیں جب پاکستان جیسا مالا مال(مواقع سے)امریکا بھارت اور دوسرے غربت زدہ ملکوں کی طرح پندرہ بیس وزیروں سے کام چلاتا نظرآئے گا وہ بھی وزیران مملکت اور مشیران بابرکت کے بغیر۔پشتو میں ایک کہاوت ہے بلکہ دو کہاوتیں ہیں لیکن وہ دوسری کہاوت کچھ بے وضع ہے اس لیے اس ایک کہاوت ہی سے کام چلانا پڑے گا کہ گرجتاہے تو ایک دن برس بھی پڑے گا۔اردو کہاوت کے خلاف اس میں حقیقت زیادہ نظر آتی ہے اس میں تو کہاگیاہے کہ ’’جوگرجتاہے وہ برستا نہیں۔لیکن اکثر گرجتے گرجتے برسنا بھی شروع ہوجاتا ہے۔اس لیے ’’اٹھارویں ترمیم‘‘بھی خطرے میں ہے کیونکہ گرجنا تو شروع ہوچکاہے ایک دن برس بھی پڑے گا اور پھر وہی وزیروں کا جل تھل۔

پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔