شکریہ آئی ایم ایف!

زوہیب اختر  پير 17 جون 2019
ہمیں آئی ایم ایف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

ہمیں آئی ایم ایف کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

دنیا بھر میں مالیاتی ادارے جب حکومتوں، نجی اداروں یا ضرورت مند ممالک کو قرضے فراہم کرتے ہیں تو فراہم کردہ رقوم کی ادائیگی مکمل ہونے تک یہ ادارے کچھ شرائط مقروض پر لاگو رکھتے ہیں۔ شرائط کیا ہوں گی اور یہ ممکنہ مقروض ادارے یا ملک کی معاشی طور پر آزادی و خودمختاری پر کس حد تک اثر انداز ہوں گی، اس بات کا تعین قرض فراہم کرنے والا ادارہ بہت سے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتا ہے۔ جس میں قرض لینے والے ادارے یا ملک کی ساکھ، ماضی میں لیے گئے قرضوں کے اعدادوشمار اور قرض ادائیگی کا طریقہ کار، فراہم کردہ قرض کی رقم، فریقین کے مابین تعلقات کی نوعیت، مختص شدہ ربا یا سود کی شرح، ممکنہ مقروض کی آمدن، قرض وصولی کا دورانیہ اور قرض لینے والے کے مقاصد وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن قرض فراہم کرنے والے ادارے کےلیے جو عنصر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے وہ قرض کی رقم کی سیکیورٹی کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔

کوئی بھی ادارہ کسی بھی ملک یا کسی دوسرے ادارے کو اس وقت تک قرض نہیں فراہم کرتا، جب تک وہ مطمئن نہ ہوجائے کہ فراہم کی جانے والی رقم واپس وصولی جاسکتی ہے۔ اگر قرض حاصل کرنے والا ادارہ قرض مہیا کرنے والے ادارے کو اپنی آمدن اور اخراجات کے تناسب سے قرض کی رقم کی بچت اور ادائیگی کو یقینی ثابت نہ کرسکے، تو عام طور پر قرض فراہم کرنے والا ادارہ خود ایک ایسا منصوبہ پیش کرتا ہے جس کے تحت اسے یقین ہوچلے کہ رقم کی وصولی ممکن ہے۔

دنیا میں جب بھی کسی مقروض ملک یا ادارے پر ایسا وقت آتا ہے کہ اسے قرض مہیا کرنے والے ادارے کے منصوبے کے تحت ہی اپنا معاشی نظام چلانا پڑے تو قرض کی ادائیگی تو ممکن ہوجاتی ہے، البتہ مقروض کو سخت معاہدوں اور شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جنہیں ڈیٹ کووینینٹس (Debt Covenants) کہا جاتا ہے۔ اور یہ وہ آخری راستہ ہوتا ہے جس کی بنا پر متوقع مقروض قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

آئی ایم ایف پاکستان کو پچھلے 60 سال سے مالی مسائل میں معاونت کےلیے قرضے فراہم کررہا ہے۔ پاکستان نے پہلی بار دسمبر 1958 میں آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ صدر اسکندر مرزا کی حکومت میں 0.034 ارب ڈالرز کی رقم بطور قرض وصول کی تھی۔ اس رقم کا مقصد پاکستان کا اس وقت کا حکومتی آمدن اور اخراجات میں موجود خسارہ وقتی طور پر پورا کرنا تھا۔ لیکن یوں یہ سلسلہ لامتناہی چل نکلا اور پاکستان کے حکمرانوں کو اپنے لیے ایک چور راستہ مہیا آگیا۔

کرپشن، غلط معاشی پالیسیاں، افراط زر کا جمود (stagflation)، اور معاشی محاذ پر ناکامیوں کو چھپانے کےلیے آئی ایم ایف ہر حکمراں کےلیے سب سے آسان اور سستا راستہ تھا۔ جس کے بارے میں نا ہی کبھی سادہ لوح عوام کے سامنے جواب طلبی ہوتی تھی اور نہ ہی عام فہم لوگوں کو اس ادارے کے بارے ادراک تھا۔

اگست 2008 پرویز مشرف کے دور حکومت کے اختتام تک پاکستان 19 بار آئی ایم ایف کے در پر جاچکا تھا۔ لیکن پھر بھی ایک اچھی بات یہ تھی کہ یہ سلسلہ تقریباً 10 ارب ڈالرز کے قرضے تک پہنچا تھا، جو ملکی معیشت اور آئی ایم ایف دونوں کےلیے کافی حد تک قابل ضبط رقم تھی اور پاکستان کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے معاشی حالات بھی اب اس قابل ہوگئے تھے کہ پاکستان سود کی رقم کے ساتھ ساتھ قرض کی اصل رقم (Principal amount) بھی چکانے کا سوچنے لگا تھا۔ جس کا آغاز پرویز مشرف کے دور میں ہی قرض ادائیگی منصوبوں کے تحت شروع کردیا گیا تھا۔

نومبر 2008 میں جب آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے، تو اچانک تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے آئی ایم ایف سے 10 ارب ڈالرز کی خطیر رقم بطور قرض فراہم کرنے کی درخواست کی۔ یہ بہت بڑی رقم تھی جس کی وصولی پر آئی ایم ایف کو شدید تحفظات اور خدشات تھے۔ آئی ایم ایف کے تحفظات اپنی جگہ، لیکن اچانک پاکستان کو اتنی خطیر رقم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ آج تک واضح نہیں ہوسکا۔ البتہ پاکستان اس دلدل میں پھنسنے جارہا تھا، یہ واضح ہوچکا تھا۔

پاکستان قرض حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوگیا، لیکن یہاں سے پاکستان کی معاشی آزادی اور خودمختاری پہلی بار مکمل طور پر آئی ایم ایف کے زیر چلنے لگی۔ پاکستان نے اس ادارے سے تعلقات کی 50 سالہ تاریخ میں جتنا قرض لیا تھا، اتنا ہی قرض ایک ساتھ لینا پاکستان کےلیے زہر قاتل تھا۔ لیکن سمجھوتوں کی بنیاد پر بنی حکومت کے خلاف سب خاموش تھے اور عوام ابھی بھی اتنے باشعور نہیں تھے کہ دیکھ سکیں ان کے مستقبل کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔

وقت آگے بڑھا۔ معاملہ 2013 میں آیا۔ حکومت بدلی، اور نوازشریف وزیراعظم پاکستان بنے۔ نواز حکومت کو چاہیے تھا کہ مشکل فیصلے کرتے ہوئے معاشی معاملات کا بار اپنے سر لیں۔ ذمے داری لیتے ہوئے کم سے کم قرضے لے کر عوام کے ساتھ ملکی معیشیت کا بوجھ بانٹیں۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ہمت نہ کرتے ہوئے آخرکار اس حکومت نے بھی وہی کیا جو زرداری حکومت کرکے گئی تھی۔ 10 ارب ڈالرز کا مزید قرض لیا گیا۔ پہلے سے اس دلدل میں پھنسے عوام کو ایک دھکا اور دے دیا گیا۔

آج ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں دنیا کا کوئی بھی 30 ارب ڈالرز کا مقروض ملک آئی ایم ایف کے سامنے کھڑا ہوتا، جسے Debt Covenants کا سامنا ہو۔

آئی ایم ایف ہمارے ساتھ سخت شرائط کا نفاذ کرکے وہی کر رہا ہے جو کوئی بھی قرض فراہم کرنے والا ادارہ اپنے حقوق استعمال کرتے ہوئے کرتا ہے۔ ہم اس ادارے کو دن رات کوستے ہیں۔ جیسے ہم اس کے نہیں، یہ ادارہ ہمارا مقروض ہو، اور ہمارے در پر قرض لینے آتا ہو۔ کبھی ہم اس کی شرائط پر قدغن لگاتے ہیں، تو کبھی ملکی بجٹ میں اس ادارے کے عمل دخل پر۔ جبکہ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ آئی ایم ایف جو کررہا ہے وہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔ اگر ہمارے سیاستدان اس قابل نہیں تھے کہ کسی طرح نسل در نسل بڑھتے ہوئے ان قرضوں کے سلسلے کو روک سکیں تو ہمیں آئی ایم ایف کا مشکور ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے سیاستدانوں سے ہماری جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر ہم اس قابل نہیں تھے کہ اس بوجھ کو بانٹ کر نمٹا سکیں، تو ہمیں آئی ایم ایف کا مرہون منت ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں یہ بوجھ بانٹنا سکھا رہا ہے۔ ہمیں اس ادارے کا مرہون منت ہونا چاہیے جو ہمیں سکھارہا ہے کہ قوموں کو نظریات کی جگہ شخصیت پسندی اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر چنے گئے رہنمائوں کے تنگ نظر، بزدل اور بے سود فیصلوں کی قیمت کیسے سود سمیت چکانی پڑتی ہے۔

ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے اس ادارے کا، جو ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے کشکول کے بجائے کفایت شعاری کی تلقین کررہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں آئی ایم ایف کو اس لیے خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ یہ ہمیں اپنے ملک کو بچانے کےلیے ایک متحد قوم بن کر ابھرنے کی ہمت فراہم کررہا ہے۔

ہمیں بحیثیت قوم، بلاشبہ و بلاجھجک اپنی ماضی کی غلطیوں پر شرمندہ ہوتے ہوئے کہنا چاہیے، شکریہ آئی ایم ایف!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زوہیب اختر

زوہیب اختر

بلاگر سوشل میڈیا پیج ایڈمن ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی فرماتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ ہیں اور بسلسلہ ملازمت آج کل متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔