شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس

ایڈیٹوریل  ہفتہ 15 جون 2019
ضرورت ایک وسیع تر، کثیر المملکتی خطہ جاتی مفاہمت کی ہے جس میں روس اور چین کی قیادت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ضرورت ایک وسیع تر، کثیر المملکتی خطہ جاتی مفاہمت کی ہے جس میں روس اور چین کی قیادت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس جمعرات کو کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں شروع ہوگیا۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کی نمایندگی کررہے ہیں۔

بشکیک میں میڈیا سے گفتگو اور روسی ٹی وی کودیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان روس کے ساتھ دفاع،توانائی اور دیگر شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔پاکستان اور روس کی افواج کے مابین مشترکہ جنگی مشقوں سے دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات میں بہتری آئی ہے،ہم روس کے ساتھ اپنے رابطوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دونوں ملکوں کی مسلح افواج پہلے ہی رابطے میں ہیں۔ 50، 60اور 70کی دہائی کا عرصہ سرد جنگ کی نذر ہوا ، اب سرد جنگ جیسی صورتحال نہیں ہے۔

مگر معروضی حقیقت کو اگر برصغیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ سرد جنگ یا جنگی جنون کی مہم جوئی میں بھارت سرکار اور مودی مائنڈ سیٹ کسی ورلڈ ویو، کشادہ دلی ، جمہوریت اور سیکولر پیراڈائم کے حق میں نہیں اسے خطے میں یک گونا ہلاکت خیزی کا گھناؤنا چکر ہی پسند آتا ہے۔ بشکیک کی فضا کو مودی نے عمران سے حریفانہ کشمکش کا رنگ دے ہی ڈالا ، حالانکہ پاکستان نے اولین کوشش یہی کی کہ بھارت کے انتخابی سیناریو کی عملیت پسندی کے پیش نظر پاک بھارت مکالمہ کی شروعات ہونی چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان نے مودی کی انتخابی جیت پر جو پاک رجائیت کی بات کی ، اور مودی سے آؤٹ آف باکس بات چیت کو مسئلہ کشمیر سمیت دیگر کور ایشوز کے تصفیہ کے صائب امکانات سے جوڑے رکھا مگر بھارت کے تفاخر آمیزرویے نے پاکستانی امن پیشکش کو شاید پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جس کا بھارتی وزیراعظم مودی اور میڈیا نے بشکیک کانفرنس میں غیر حقیقت پسندانہ اور دیوالیہ پن کا سفارتی فینومینا بنا دیا۔ بہرحال عمران نے اپنا ہوم ورک بڑی مہارت سے مکمل کیا۔

قبل ازیں جمعرات کو وزیراعظم عمران خان شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے دو روزہ سرکاری دورے پر کرغیزستان پہنچے توہوائی اڈے پر کرغیز ہم منصب محمد کلئی ابولگزیف اور وزیر صحت کسموسبیک سراؤچ نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور معاون خصوصی امور نوجوانان عثمان ڈار بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔

وزیراعظم نے شیڈول کے مطابق جمعہ کو ساڑھے دس بجے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی ،روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ان کی ملاقات دوپہر کو ہوئی ، بعد ازاں انھوں نے وزیراعظم بیلاروس کے صدر سے ملاقات کی ، جمعرات کو کرغیزستان کے صدر سورن بے جین بیکوف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔

یہ سفارتی عہد کی ایک تکلیف دہ صورتحال تھی کہ خطے کے دو ملکوں کے وزرائے اعظم میں رسمی خیرسگالی کا کوئی مرحلہ نہیں آیا، دونوں مصافحہ سے گریز پا و محتاط رہے،جو پاک بھارت تعلقات کے سیاق و سباق میں قربتوں میں فاصلوں کی عہد حاضر میں بڑی انوکھی مثال ہے، مودی کی رعونت اور سیاسی مخاصمت ان کی دوبارہ بھاری انتخابی مینڈیٹ کے ساتھ بھارتی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کی مظہر تھی، پاکستان سے وہ بات چیت کے لیے تیار نہیں ، عمران خان سے بھی تناؤ کے اس ماحول میں رسمی بات چیت کی توقع بھارتی سفارتی لابی کے لیے ممکن نہ تھی ،اس لیے دیکھنا ہوگا کہ پاک بھارت مذاکرات کے بریک تھرو میں مزید کتنا وقت لگے تھا۔

اس وقت اعصابی تناؤ میں مودی سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی، تاہم سیاست میں ریاستی تعلقات اور ملکوں کے مابین رسم آشنائی بند راستہ نہیں ہوتا،وقت مودی کو مجبور کردے گا کہ وہ خطے کے مفاد اور بھارتی جمہوریت کو جنگجوئی میں مکالمہ کو راستہ دے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے مذکورہ فورم میں عمران خان اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مابین ملاقات ہوتی تو کیا قیامت آ جاتی لیکن وزیراعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک ساتھ ہال میں داخل تو ہوئے، دونوں نے آپس میں مصافحہ نہیں کیا۔ عمران خان ہال کے ایک کونے اور نریندر مودی دوسرے کونے میں تھے۔

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کی روسی صدر پیوٹن سے غیر رسمی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی ۔ روسی ہتھیاروں بالخصوص ایس 400میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا سب سے پہلے تو ہم یہ امید کرتے ہیں کہ ہمارے انڈیا کے ساتھ تناؤ میں کمی آئے تاکہ ہمیں ہتھیار خریدنے کی ضرورت ہی نہ پڑے کیونکہ ہم یہی پیسہ انسانی ترقی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا ہمارے تجارتی وفود روس جائیں گے اور روسی سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے کی دعوت دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ روسی کمپنی کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز میں سرمایہ کاری کی بھی امید ہے۔انھوں نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن میں امریکی پابندیاں حائل ہیں۔پاکستان کی ویزہ پالیسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں سرمایہ کاری اور سیاحت کے فروغ کے لیے ویزا قوانین میں نرمی کی۔روس بھی ان 70 ممالک میں شامل ہے جن کو ایئر پورٹ پر ہی ویزہ لینے کی سہولت دی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دوستی چاہتا ہے۔ہم بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے روس کی ثالثی بھی قبول کرنے کو تیار ہیں۔ہم خطے میں امن چاہتے ہیں ، جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا، پاک بھارت تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر ہے جسے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم بھارت کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک نے ہمیں نئی آؤٹ لٹس تک رسائی فراہم کی ہے اور یقیناً اب اس میں بھارت بھی شامل ہے لیکن ہمارے دو طرفہ تعلقات انتہائی کمزور ہیں۔برصغیر میں بہت زیادہ غربت ہے جس کے خاتمے کے لیے ہمیں ہتھیاروں کے بجائے انسانوں پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے، جیسے چین نے غربت کے خاتمے کے لیے اپنے عوام پر رقم خرچ کی۔ وزیراعظم عمران خان نے دورہ کرغیزستان کے دوران کرغیز صدر سوورن شریپووچ جینبکوف سے بھی ملاقات کی ہے۔ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ وزارتی کمیشن، دو طرفہ سیاسی مشاورت، لوگوں کے باہمی رابطے بڑھانے اور دوستانہ ویزہ کے ذریعے سیاحتی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔

اب بھی ضرورت ایک وسیع تر، کثیر المملکتی خطہ جاتی مفاہمت کی ہے جس میں روس اور چین کی قیادت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔بھارت کو ہٹ دھرمی خطے کے مفاد کی خاطر ترک کرنا ہوگی تاکہ کروڑوں انسان امن واستحکام اور ترقی وخوشحالی کے ایک گریٹر کاز اور اشتراک انسانیت کی خدمت کا نیا معیار قائم کرسکیں۔ایسی دنیا بسائی جائے جس میں بین الریاستی امن کی بنیاد خیر اندیش عالمی سفارت کاری، سیاسی قربت، اور معاشی انحصار و تعاون پر استوار ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔