کراچی کا شہر آشوب ، سپریم کورٹ کی زبانی

ایڈیٹوریل  ہفتہ 15 جون 2019
یہ وہ آئینہ ہے جو جسٹس صاحب، صوبائی حکومت کو دکھا رہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

یہ وہ آئینہ ہے جو جسٹس صاحب، صوبائی حکومت کو دکھا رہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

’’ کراچی پاکستان کا بد ترین شہر بن چکا ہے‘‘ یہ کہنا ہے سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد کا۔ وہ کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے قتل ہونے والی بچی امل عمرکے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت بطور سربراہ بنچ کر رہے تھے ۔ فاضل جج نے جو ریمارکس دوران سماعت دیے ہیں وہ صورتحال کی حقیقی تصویر ہے۔ وہ ایک شہر جوعالم میں انتخاب تھا،آج شہر نا پرساں بن چکا ہے۔کراچی کی بربادی کا نوحہ توآنے والا مورخ لکھے گا۔شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنانے میں ہرحکومتی ادارے نے اپنا حصہ خوب خوب ڈالا ہے۔

عالمی ادارے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی ایک رپورٹ میںکراچی کو رہائش اختیارکرنے کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بد ترین شہر پہلے ہی قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ درجہ بندی دنیا بھرکے 140 شہروں کو 100میں سے نمبر دیتی ہے، جو صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے، امن وامان اور دہشت گردی کے خطرے کے لحاظ سے دیے جاتے ہیں۔ دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ گزشتہ روزکراچی میں دن دہاڑے ڈکیتی ماری گئی، بھرے بازار میں گاڑی روک کر 90لاکھ لوٹ لیے گئے، سڑک کے درمیان میں گاڑیوں کو لوٹا جا رہا ہے۔

بلاشبہ فاضل جج سچ کہہ رہے ہیں۔ ہم ذرا سی پی ایل سی کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ جوکہ رواں سال کے ابتدائی3 ماہ کے متعلق ہے، پڑھ لیں تو یہ اعداد و شمار سامنے آتے ہیں کہ 42 گاڑیاں چھینی اور321 چوری ہوئیں، جب کہ فائرنگ کے مختلف واقعات میں 95 افراد جاں بحق ہوئے ۔کراچی کو جرائم کاگڑھ بنانے میں پولیس کا کردار انتہائی شرمناک ہے۔جسٹس گلزار احمد کا یہ کہنا انتہائی صائب ہے کہ کراچی شہر میں تو مجرمان کھلے عام گھوم رہے ہیں یہ مجرمان سنجیدہ نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں، پولیس ان کو پکڑ نہیں سکتی، جو ترقی کراچی میں ہوئی تھی اب ختم ہو رہی ہے، افسران کو تو بس پیسے جمع کرنے ہیں کراچی کے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

یہ وہ آئینہ ہے جو جسٹس صاحب، صوبائی حکومت کو دکھا رہے ہیں۔ ہم ان سطور میں سوال اٹھاتے ہیں کہ کراچی کا کونسا ایسا شہری ہے جو اسٹریٹ کرائم کا شکار نہیں ہوا، بلکہ بار بار نہ ہوا ہو، لوگوں کوگھروں کے دروازوں پر لوٹ لیا جاتا ہے، بسوں میں مسافروں کو لوٹ لیا جاتا ہے، ٹریفک جام ہوجائے تو رہزن لوٹ مارکا بازارگرم کردیتے ہیں۔کاریں، موٹرسائیکلیں دن دہاڑے چوری ہوتی ہیں۔اب تو دن کی روشنی میں سڑکوں پر ہجوم کی موجودگی میں ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمزکے واقعات ہوتے ہیں اور پولیس ان واقعات کی ایف آئی آر درج تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔

کچی ایف آئی آر پنسل سے کاغذ پر درج کرلی جاتی ہے، تاکہ بوقت ضرورت اسے ربڑ سے مٹا دیا جائے۔ کراچی کے پانچ اضلاع اور پچاس سے زائد تھانوں کے ایس ایچ اوز روزنامچے خالی رکھ کر اپنی ’’ بہترین کارکردگی‘‘کامظاہرہ کرتے ہیں ۔کراچی اب گندگی کے ڈھیر رکھنے والا شہر بن چکا ہے۔

کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کے لیے ڈیزل اور پٹرول کے لیے یومیہ لاکھوں روپے دیے تو جارہے ہیں مگر شہر میں صفائی کی صورتحال ابتر ہے۔ دوسری جانب شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے وزیراعلیٰ سندھ ، وزیربلدیات اور میئرکراچی کے دعوے سن سن کر اہل کراچی کے کان پک گئے ہیں۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تو سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔