اختلافات ختم، اپوزیشن قائمہ کمیٹیوں سے استعفے واپس لینے پر رضامند

شاہد حمید  بدھ 19 جون 2019
وزیراعلیٰ نے اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سمیت دیگر امور کے حوالے سے یقین دہانیاں کرائیں اور اپوزیشن راضی ہوگئی۔ فوٹو: فائل

وزیراعلیٰ نے اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سمیت دیگر امور کے حوالے سے یقین دہانیاں کرائیں اور اپوزیشن راضی ہوگئی۔ فوٹو: فائل

پشاور:  حکومت اور اپوزیشن کے مابین تنازعہ بالآخر ختم ہو ہی گیا ہے جو غیر متوقع نہیں بلکہ عین توقعات کے مطابق ہے.

اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی اور دیگر اپوزیشن قائدین، وزیراعلیٰ محمود خان کے ساتھ نشست کرنے اور ان کی جانب سے اپنے مطالبات پر یقین دہانیوں کے خواہش مند تھے اور یہی کچھ ہوا، سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمدغنی کی کوششوں سے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن قائدین اکٹھے ہوئے، وزیراعلیٰ نے اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سمیت دیگر امور کے حوالے سے یقین دہانیاں کرائیں اور اپوزیشن راضی ہوگئی جس نے قائمہ کمیٹیوں سے دیئے گئے استعفے بھی واپس لینے کا اعلان کردیا۔

اگرچہ اس سے پہلے بھی حکومت اور اپوزیشن میں طے پایا تھا کہ ترقیاتی فنڈز کا65 فیصد حصہ حکومتی ارکان اور35 فیصداپوزیشن کو ملے گا تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، وہ یقین دہانی صوبائی وزراء پر مشتمل کمیٹی کی جانب سے کرائی گئی تھی تاہم وزراء کی مذکورہ کمیٹی نے بھی مذکورہ یقین دہانی وزیراعلیٰ کی مشاورت اور منظوری ہی سے کرائی تھی تاہم عمل درآمد پھر بھی نہ ہو سکا۔

اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے اپوزیشن قائدین کو ترقیاتی فنڈز کا جو35 فیصد حصہ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا کیونکہ اگر حکومت ،اپوزیشن کوفنڈز فراہم نہیں کرتی تو یہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے والی بات ہو گی جس سے حکومت کے لیے بھی مسائل پیدا ہونگے اس لیے حکومت،اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی ضرورکریگی تاہم ضروری نہیں کہ جو فارمولہ طے پایا ہے اس کے مطابق ہی فنڈز فراہم کیے جائیں، وزیراعلیٰ فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے یقینی طور پر اپوزیشن کا رویہ بھی دیکھیں گے۔

اپوزیشن قائدین کو خوش رکھنے کی پالیسی گزشتہ حکومتوں میں بھی جاری رہی اور موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان بھی اپنے پیش روؤں کی اس پالیسی پر عمل کریں گے جس کی ایک جھلک جنوبی اضلاع کے لیے جائیکا فنڈز میں دیگر اپوزیشن ارکان کو نظرانداز تاہم اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کو فنڈز کی فراہمی ہے کیونکہ جب اپوزیشن قائدین حکومت سے راضی ہونگے تو اس صورت حال میں حکومت سہولت میں رہے گی اور اپوزیشن قائدین بھی اپنے حلقوں کی جانب سے مطمئین ہونے کی صورت میں حکومت کے خلاف ہاتھ ہولا رکھیں گے.

صوبائی حکومت کے لیے تین مشیروں اور دو معاونین خصوصی کو صوبائی وزیر کا سٹیٹس دے کر واپس لینے کی وجہ سے ایشو بنا جس کے حوالے سے پیچھے چلنے والی کہانیاں کچھ اور کی اور ہی ہیں جس کے نتیجے میں ایک اعلیٰ افسرکو ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے کیونکہ الزام یہ عائد کیا گیا ہے کہ مذکورہ افسر نے مشیروں اور معاونین خصوصی کو صوبائی وزراء کا سٹیٹس دینے کے معاملے پر حکومت کو درست قانونی رائے سے آگاہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے حکومت مشکلات کا شکار ہوئی اور حکومت کو اپنے ہی احکامات فوری طور پر واپس لینے پڑے تاہم ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا پڑا نہیں اور حکومت کے لیے دوسرا ایشو پیدا ہو گیا ہے۔

پشاورہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ کے تینوں مشیروں اوردومعاونین خصوصی کو معطل کر دیا ہے جس سے حکومتی حلقوں میں تشویش پھیل گئی ہے اور اب اس سلسلے میں صوبائی حکومت عدالتی جنگ لڑے گی جس کے لیے حکومتی حلقوں میں مشاورت کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ جن مشیروں کو معطل کیا گیا ہے ان میں قبائلی اضلاع ، انرجی اینڈپاور اور تعلیم کے مشیر شامل ہیں جبکہ دو معطل شدہ معاونین خصوصی میں صنعت اورسائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محکموں کو ڈیل کرنے والے معاونین خصوصی شامل ہیں جو حکومتی ٹیم کا اہم حصہ تھے۔

تاہم عین بجٹ کے موقع پر ان کی معطلی حکومت کے لیے پریشان کن ہے کیونکہ ان میں سے ایک منتخب مشیر اور دو معاونین خصوصی اپنے محکموں کا اسمبلی میں دفاع نہیں کر پائیں گے اور ان کے محکموں کا دفاع صوبائی وزراء کو کرنا پڑے گا۔

عوامی نیشنل پارٹی نے9 جون کو صوبہ بھر میں مہنگائی اور حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے کے بعد جب پارٹی کے تھنک ٹینک کا اجلاس بلایا تو سب کی نظریں اس پر لگی ہوئی تھیں کہ اے این پی کوئی دھماکہ خیز اعلان کریگی تاہم تھنک ٹینک کی اہمیت میں اس لیے بھی قدرے کمی واقع ہوگئی کہ پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان علیل ہونے کے باعث خود اجلاس کی صدارت نہ کر سکے اور ان کی جگہ پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر ہوتی کو اجلاس کی صدارت کرنی پڑی اور پھر اس کے ساتھ ہی اے این پی حکومت کو گرانے کے حوالے سے کسی بھی اقدام یا کوشش کا حصہ بننے کے حوالے سے واضح فیصلہ نہ کر سکی اور بال اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے کورٹ میں پھینک دیا.

جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن جب اے پی سی بلائیں گے اور اس میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے اگر حکومت کو گرانے کے حوالے سے کسی مشترکہ کوشش پر اتفاق کیا تو اس صورت میں اے این پی بھی فیصلہ کریگی کہ اس نے کیا کرنا ہے؟ کیونکہ ماضی میں اے این پی ہمیشہ ایسی کسی بھی تحریک کا حصہ بننے سے گریز کرتی آئی ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کردہ لیٹر کی بنیاد پر قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات18 دنوں کے لیے ملتوی تو ہوگئے ہیں تاہم اپوزیشن جماعتیں مسلسل اس شک کا اظہار کر رہی ہیں کہ حکومت قبائلی اضلاع میں فوری طور پرالیکشن کرانے کے موڈ میں نہیں، تاہم اس بارے میں صورت حال آئندہ چند دنوں ہی میں واضح ہوگی کیونکہ 26ویں آئینی ترمیمی سے متعلق بل سینٹ آف پاکستان میں پڑا ہوا ہے جس نے ابھی وہاں سے منظور ہونا ہے۔

اگر سینٹ یہ بل جلد منظور کر لیتا ہے جس میں انتخابات کو چھ ماہ سے ایک سال کے لیے ملتوی کرنے کی سفارش کی بھی منظوری دی جاتی ہے تو اس صورت میں قبائلی اضلاع کے انتخابات 2020ء تک ملتوی ہو سکتے ہیں اور وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے قبل صوبہ کے بندوبستی اضلاع کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد پہلے ہوگا تاہم اس حوالے سے معاملات ابھی واضح نہیں ہیں اور یہ صورت حال آنے والے دنوں ہی میں واضح ہوگی کیونکہ اس وقت حکومت کا سارا فوکس بجٹ کی منظوری پر ہے اور جب حکومت قومی اسمبلی سے بجٹ منظور کرا لے گی تب ہی وہ دیگر معاملات کی طرف متوجہ ہوگی،اور ان سطور کی اشاعت تک خیبرپختونخوا کے لیے بھی آئندہ مالی سال 2019-20ء کا بجٹ پیش کیاجا چکا ہوگا.

آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ خیبرپختونخوا کے بندوبستی کے ساتھ قبائلی اضلاع کا بجٹ شامل ہوگا جس سے صوبہ کے بجٹ کا حجم800 ارب سے زائد ہو گیا ہے تاہم اس حوالے سے افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ دیگر تینوں صوبوں نے قبائلی اضلاع کے لیے این ایف سی کے تحت ملنے والے مالی وسائل سے تین فیصد رقم فراہم نہیں کی.

سندھ اور بلوچستان نے تو مذکورہ وسائل کی فراہمی کا کسی قسم کا کوئی اعلان بھی نہیں کیا تھا اس لیے اگر ان کی جانب سے یہ وسائل فراہم نہیں کیے گئے تو اس پر حیرانگی بھی نہیں ہونی چاہیے تاہم پنجاب جہاں تحریک انصاف کی اپنی حکومت بھی ہے اور اس نے قبائلی اضلاع کے لیے تین فیصد وسائل فراہمی کا اعلان بھی کیا تھا وہ بھی اپنے اعلان سے پیچھے ہوگیا ہے جس سے یقینی طور پر قبائلی اضلاع اور وہاں بسنے والے لوگوں کو کوئی مثبت پیغام نہیں گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔