خان صاحب! حوصلہ افزائی اور احتساب ساتھ ساتھ

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 21 جون 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پاکستان اور پاکستانی عوام نے اپنے کرکٹروں کو کیا نہیں دیا ہے؟ عزت و محبت دی۔ نقد بھاری انعامات اور پلاٹوں سے نوازا۔ سرکاری عہدے دیے۔ کھلاڑیوں سے ہمارا عشق اس معراج کو بھی پہنچا کہ پاکستانی عوام نے اپنے ایک کرکٹ ہیرو کو وزیر اعظم بنا دیا۔

دُنیا میں اداکار وغیرہ تو وزیر اعظم، صدور، گورنرز بنتے رہے ہیں لیکن کوئی کرکٹر کسی ملک کا وزیراعظم منتخب کر لیا جائے، یہ مثال صرف پاکستان میں سامنے آئی ہے۔ سابق کرکٹ کپتان جناب عمران خان کی حکومتی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگنے کے باوصف پاکستانی عوام کے دل اور حوصلے پوری طرح نہیں ٹوٹے ہیں۔ ابھی اُمید اور آس کی کئی کرنیں باقی ہیں۔ ہمارے کرکٹروں نے مگر، فی الحال، ہمارے دل توڑ دیے ہیں۔

مانچسٹر میں بھارتی کرکٹروں کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹروں کی شرمناک شکست کا بوجھ اور ڈپریشن ابھی تک پاکستانیوں کے کندھوں اور دلوں سے اُترا نہیں ہے۔ ستم یہ ہے کہ پاکستان مسلسل ساتویں بار انڈیا سے ہارا ہے۔ تازہ شکست کو تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا ہے لیکن ہنوز احساسِ ندامت زائل نہیں ہو سکا ہے ۔ ہمارے کرکٹروں کو ابھی پرسوں بروز اتوار،26 جون کو جنوبی افریقہ کے مقابل لارڈز کے میدانِ کارزار میں پھر اُترنا ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اب پاکستانیوں کو اس میچ سے وہ رغبت اور دلچسپی نہیں ہے جو 16جون کو مانچسٹر میں دیکھی گئی تھی۔   اُس روز مانچسٹرمیں لہراتے پاکستانی پرچموں کی بہار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا رہا جیسے آج ہی پاکستان تخلیق ہُوا ہے۔ یہ دلکشا مناظر دیکھ کر ہر شخص نے کہا: پاکستان سے باہر بیٹھے پاکستانی شدید مشکلات اور مسائل کے باوجود اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔

بھارتی کرکٹروں کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹروں کی شکست ہم سب کے لیے دلشکن تو یقیناً ہے لیکن جس شدت اور حدت کے ساتھ قومی کرکٹ ٹیم کی مذمت کی جا رہی ہے، اس سے ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے، یہ شائد انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہارنے پر کرکٹ کا دلدادہ ایک نوجوان پاکستانی زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔ ایسی محبت سے باز رہنا ہی بہتر ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت اور مخالفت اس مقام تک پہنچ گئی ہے یا پہنچا دی گئی ہے کہ اب ہمارے ہر کرکٹ عاشق کی دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ بس ہمارے کرکٹروں کو بھارت سے نہیں ہارنا چاہیے۔ کچھ ایسے ہی احساسات و جذبات بھارتیوں کے بھی ہیں۔

دوسرے کئی اسپورٹس کی طرح کرکٹ بھی ایک کھیل ہی تو ہے۔ اِس کے لیے مگر جان کو روگ لگا لینا یا شکست و فتح پر آپے سے باہر ہو جانا غیر انسانی فعل ہے۔ مجھے جنوبی امریکا و مغربی ممالک میں متعدد بار فٹ بال اور شمالی امریکا میں بیس بال اور رگبی کے کئی میچ دیکھنے کے مواقعے ملے ہیں۔ محبت کا یہ عالم کہ رات ہی کو شائقین اسٹیڈیم کے باہر ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ اسٹیڈیم کے اندر تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ اربوں ڈالر کا بزنس ایک دن میں ہو جاتا ہے لیکن مجال ہے کوئی متشددانہ منظر ظہور پذیر ہو جائے ۔

کھیل کو کھیل ہی سمجھ کر لطف اندوز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہارنے والے کھلاڑیوں کا دشنام سے تعاقب نہیں کیا جاتا ہے۔ شکست کھانے والے اپنا احتساب کرتے ہیں۔ آیندہ اپنی نشان زد غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد کیا جاتا ہے۔ ٹیم میں شامل بے ایمان اور لالچی کھلاڑیوں کی چھانٹی ہوتی ہے۔ کالی بھیڑوں کو عبرتناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ اسپورٹس جرنلسٹ پوری محنت سے کھلاڑیوں کی زندگیوں کا محاسبہ کرتے ہیں۔ پیشہ وارانہ انداز میںیہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ قوم، ملک اور کھیل کے شائقین کو ندامتوں سے بچایا جائے اور اُن کے سامنے کھیل اور کھلاڑی کی درست تصویر رہے۔ نیویارک کا اخبار ’’ڈیلی نیوز‘‘ صرف اس لیے زیادہ فروخت ہوتا ہے کہ وہ روزانہ اپنے بیک پیج پر رگبی کھیل کی تازہ تفصیلی رپورٹ اور بہترین مقبول کھلاڑی کی فوٹو شایع کرتا ہے۔ باکسنگ، کرکٹ، رگبی اور بیس بال ایسے کھیلوں پر ہالی وُڈ نے شاندار فلمیں بنائی ہیں اور اربوں ڈالر کا منافع کمایا ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری نے بھی اس کا تتبع کیا ہے اور بہترین کامیابی حاصل کی ہے۔

لیکن وطنِ عزیز میں ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں کھیل اور کھلاڑی سے محبت تو کی جاتی ہے لیکن یہ محبت چینلائز نہیں ہے۔ بے مہار اور بے محابہ ہے۔ پاکستان میں انٹر ٹینمنٹ کا ویسے بھی کال اور فقدان ہے۔ ہماری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ماضی کے برعکس اور بھارت کے مقابلے میں سکڑی ہے۔ آ جا کے کھیل رہ جاتے ہیں۔

ان کا دائرہ بھی نوجوانوں کے لیے محدود سے محدود تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے بڑے شہروں کے اسپورٹس گراؤنڈز پر قبضہ گروپوں کی گرسنہ نظریں گڑی ہیں۔ نئے اسپتال اور کھیل کے نئے میدان دو ایسے شعبے ہیں جو ہمارے حکمرانوں کی توجہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ کبھی ہاکی ہمارا قومی افتخار اور ہاکی پلیئرز ہمارے محبوب ہوتے تھے۔ ہاکی بوجوہ زوال کے گڑھے میں گری تو کرکٹ عوام کے دلوں میں گھر کر گئی۔

کرکٹ میں بے پناہ پیسے اور شہرت کا عمل دخل ہے۔ اور جہاں پیسے اور شہرت کا عمل دخل ہو گا، وہاں شیطانی اور طاغوتی قوتیں بھی اپنا لُچ تلنے کی کوشش میں دخیل ہو جاتی ہیں۔ ہماری کرکٹ بھی ان عناصر سے پاک ومصفا نہیں ہے؛ چنانچہ جو نتائج نکل رہے ہیں، ان کا نظارہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ تازہ شرمناک نظارہ تو ہم سب نے چھ دن پہلے مانچسٹر میں دیکھا ہے۔ اس نے ہمیں ڈپریشن میں ڈال رکھا ہے۔ اس ڈپریشن اور مایوسی نے ہماری زبانوںکو غیر محتاط کر دیا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ اسپورٹس اسپرٹ ہے ہی نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کرکٹ کے عالمی بے تاج بادشاہ رہے ہیں۔ کرکٹ بارے کوئی بھی پہلو اُن سے مخفی نہیں ہے۔ انھوں نے آتے ہی نجم سیٹھی کو ہٹایا اور اپنے دیرینہ دوست احسان مانی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے مبینہ ’’خراب‘‘ معاملات کو سدھارنے اور سنوارنے کی ذمے داریاں سونپ دیں۔ پاکستان بھر کے کرکٹ شائقین کو یقینِ کامل تھا کہ خان صاحب کرکٹ کو اُن کے خوابوں کے قریب تر لے آئیں گے۔ فی الحال ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے۔ ممکن ہے مستقبل قریب میں ہو جائے۔ فی الحال تو ہماری قومی کرکٹ انتشار اور افتراق کا شکار ہے۔

کرکٹ کے کپتان، سرفراز احمد، نے مانچسٹر کے کرکٹ یُدھ کے لیے عمران خان کے مشورے کو جس طرح مسترد کیا، اسے ہر شخص نے افسوسناک قرار دیا ہے۔ لندن سے آمدہ خبروں پر اگر یقین کر لیا جائے تو ایک بار پھر عیاں ہوتا ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم اور ٹیم کے کپتان میں عدم اتفاق بھی ہے اور گروہ بندی بھی۔ مانچسٹر میں شکست کھانے کے بعد ہماری کرکٹ ٹیم جب لندن اپنے ہوٹل پہنچی تو کیپٹن سرفرا ز صاحب کھلاڑیوں کو بہت پیچھے چھوڑ کر جس طرح سب سے پہلے اپنی بیوی اور بیٹے کو سنبھالتے ہوٹل میں جا گھسے، اس بے زبان منظر نے بھی اپنی زبانی بہت کچھ کہہ ڈالا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمیں اپنے کرکٹروں کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے۔ فتح و شکست تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن حکمت اسی میں ہے کہ عمران خان کو کرکٹروں کا کڑا اور فوری احتساب بھی کرنا ہو گا۔ احسان مانی اور سلیکٹروں سے بھی پرسش ہونی چاہیے۔ کرکٹ کو سیاست اور سفارش کی لعنتوں سے پاک کرنا ہو گا!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔