اسمبلی کے تقدس کا سوال؟

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 26 جون 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک اسپیکر چیمبر کو سب جیل قرار دے دیا گیا۔ اسمبلی کے سیکریٹری کے خط پر وزیر اعلیٰ نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایسا کیا ، سندھ اسمبلی کے سیکریٹری نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا کہ اسپیکر سراج درانی کو لانڈھی جیل سے اسمبلی میں آتے ہوئے سیکیورٹی کے مسائل درپیش آتے تھے ،اس بنا پر اب اسپیکر کے چیمبر کو سب جیل قرار دے دیا گیا ہے ۔

یوں اب آغا سراج درانی نے اپنے چیمبر کو رہائشی کمرے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ یوں اسمبلی کے تقدس کا سوال پیدا ہوگیا ہے، پارلیمانی امور کے ماہر ظفراللہ خان کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی کچھ روایات ہیں، اسمبلی میں کوئی غیر منتخب فرد داخل نہیں ہوسکتا ، اسمبلی کے اراکین لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھ سکتے ہیں، نہ ہی اراکین بیٹھ کر تقریر کرسکتے ہیں اور نہ سگریٹ نوشی کرسکتے ہیں ، اسپیکر کی اجازت کے بغیر ایوان کی تصویر نہیں کھینچی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر ایوان کا کسٹوڈین ہوتا ہے، اس کو قوانین کے علاوہ  پارلیمانی روایات کا بھی احترام کرنا ہوتا ہے، سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے اس فیصلے سے اسمبلی کا تقدس مجروح ہوا ہے، اب جیل افسران کو اسمبلی میں داخل ہونے کا جواز مل سکتا ہے، اسمبلی کو تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہے، اسمبلی کا تقدس مجروح ہونے سے غیر منتخب ادارے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بعض قانونی ماہرین یہ پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اگر اس عمل کو  عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تو پیپلز پارٹی کو پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔آغا سراج درانی پر غیر قانونی دولت کمانے کا الزام ہے، ان کے خلاف نیب کی عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے ۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر چیمبرکو سب جیل قرار دینے کو اس کے تقدس کے منافی قرار دیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ پیپلز پارٹی والے اسمبلی کی آڑ میں قانون سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر احتساب کا عمل جاری رہے گا ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کو سندھ اسمبلی پر حملہ قرار دیا تھا ، انھوں نے کہا نیب کے اس اقدام سے سندھ اسمبلی کا تقدس پامال ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما آغا سراج درانی کو سیاسی قیدی قرار دیتے ہیں، ان کی یہ رائے ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن رہنماؤں کوگرفتارکرکے حزب اختلاف کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

آغا سراج درانی کا شمار سابق صدر آصف زرداری کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے،ان کا خاندان گڑھی یاسین میں عرصہ دراز سے سیاست میں سرگرم عمل ہے۔آصف زرداری کی بے نظیر سے شادی کے بعد جو لوگ پیپلز پارٹی کی قیادت میں شامل ہوئے، ان میں آغاسراج درانی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔سیاسی کارکنوں کا اپنے ضمیر کی آواز بلند کرتے ہوئے،عوام کے حقوق کی بات کرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پاکستانی کی سیاست کی قدیم روایت ہے ۔کانگریس کے رہنما گاندھی، جواہرلعل نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد اور ترقی پسند رہنما مولانا حسرت موہانی نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنی زندگی کا طویل حصہ جیلوں میں گزارا تھا ، اگر مولانا ابو الکلام آزاد کی سوانح سے ہی مدد لی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مولانا گزشتہ صدی کے پہلے عشرے سے جیل جانا شروع ہوئے اور 1946تک وقتا فوقتا جیل جاتے رہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘‘ کے دوران چار سال کاعرصہ احمد نگر جیل میں گزارا،اس دوران ان کی اہلیہ انتقال کرگئیں ،جیل کے حکام نے انھیں اہلیہ کی بیماری اور انتقال کی خبر نہیں دی ، جب وہ رہا ہوئے تو جیل سے ملنے والے خط سے پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے ،مولانا ابوالکلام آزاد نے کبھی جیل حکام سے قانونی طور پر بھی کو ئی رعایت طلب نہیں کی، مولانا حسرت موہانی کی داستان بھی اسی قسم کی ہے۔ خان غفار خان،جی ایم سید،میر غوث بخش بزنجو وغیرہ ایسے بیشتر رہنما ہیں جن کی زندگیوں کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزرا اور انھوں نے ایسی کوئی بھی رعایت نہیں لی جس سے حکمرانوں کو ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو سابق صدر ایوب خان نے 1968میں گرفتار کیا اور منٹگمری جیل کی سی کلاس میں بند کردیا ،انھوں نے بہادری کے ساتھ جیل کاٹی پھر انھیں ہائیکورٹ کے حکم پر رہائی ملی۔ جب انھیں جنرل ضیاالحق کے دور میں گرفتار کیاگیا تو پہلے کراچی پھر لاہور اور راولپنڈی کی جیلوں میں بند رکھا گیا ۔

ذوالفقار علی بھٹو کو مسلسل قید تنہائی میں رکھا گیا تھا، لاہور میں ان کی بیرک کے ساتھ پاگل قیدیوں کو رکھا گیا تھا جو دن رات شور کرتے رہتے تھے ،جب ہائیکورٹ نے انھیں موت کی سزا سنائی تو انھیں پھانسی پانے والے قیدیوں کی کھولی میں منتقل کردیا گیا۔ان سے ضروریات زندگی کی تمام اشیا چھین لی گئیں، انھیں سونے کے لیے تاروں والا پلنگ دیا گیا اور اس دوران انھیں علیحدہ بیت الخلاء تک کی سہولت نہیں دی گئی،بھٹو صاحب کتابوں کے عاشق تھے مگر اس دوران انھیں کتاب پہنچانے پر سخت پابندی تھی۔ جب بھٹو صاحب کی سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو بھٹو صاحب کو کوڑے کے ٹرک میں آگے بٹھا کر راولپنڈی لایا گیا مگر بھٹو صاحب نے ہمیشہ اس صورتحال کا جرات و بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ،جب بھٹو صاحب گرفتار ہوئے تو ان کے لیے نصرت بھٹو نے کراچی کے نشتر پارک کے جلسے سے اپنی ولولہ انگریز تقریر سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا ،جب وہ لاہور میں کرکٹ میچ کے دوران لوگوں سے ملنے اسٹیڈیم پہنچیں توپولیس والوں نے ان پر لاٹھیاں برسائیں۔نصرت بھٹو کا لاٹھی لگنے سے سر پھٹ گیا ، ان کے کپڑے خون سے تر ہوگئے، یہ تصاویر دنیا کے اخباروں میں شایع ہوئیں۔

نصرت بھٹو ایم آر ڈی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے برقع پہن کر ریل کے تیسرے درجے کے ڈبے میں سفر کرکے لاہور پہنچ گئیں۔جنرل ضیاالحق کی انتظامیہ ، پنجاب و سندھ کی پولیس حیرت زدہ تھی کہ نصرت بھٹو نے اس قدر سختیاں کیسے برداشت کرلیں، پھر نصرت بھٹو کی بڑی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی جرات بہادری کے ساتھ جیل کاٹنے کی داستان سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ وہ جنر ل ضیاالحق کے دور میں مستقل اسیر رہیں، انھیں سندھ اور پنجاب کی مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا۔ سکھر جیل کے ایک قیدی نے انکشاف کیا کہ جب بے نظیر سکھر جیل میں قید تھیں تو اس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ چوہے پکڑ پکڑکر بے نظیر کی بیرک میں پھینکتا رہے، بے نظیر کو چوہوں سے ڈر لگتا تھا اور جنرل ضیاالحق کی انتظامیہ انھیں چوہوں سے ڈرا کر اپنے موقف سے ہٹانا چاہتی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی اس وقت کی دوست مہتاب اکبر راشدی نے دوران انٹرویو انکشاف کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو کو مسلسل قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔اخبار اور کتابوں پر مکمل پابندی تھی، بے نظیر دیوار پر روزانہ ایک لکیر کھینچ کر اپنا وقت کاٹتی تھیں۔بے نظیر کو ان کی چھوٹی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے آخری وقت میں رہا گیا، پھر انھیں اور ان کی والدہ کو 70کلفٹن میں قید رکھا گیا اور کسی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی حتی کہ وہ بیمار ہوئیں اور انھیں اسپتال جانے کی اجازت نہیں ملی۔

ذوالفقار علی بھٹو ، نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹوکی بہادری نے پیپلز پارٹی کے کارکنو ں کو ایک نیا حوصلہ دیا۔ شیخ رشید ، شیخ رفیق ، ڈاکٹر مبشر حسن، بیرسٹر اعتزاز احسن، رضا ربانی اور اسلم گورداسپوری سمیت سیکڑوں رہنماؤں نے جیلوں میں طویل دن گزارے، صرف رہنماؤںنے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکن جنرل ضیا  کے دور میں جیلوں میں بند رہے انھوں نے قید وبند کے ساتھ ساتھ کوڑوں کی سزائیں بھی برداشت کیں مگرکسی ایک کارکن نے بھی کسی قسم کی رعایت کے لیے کبھی انتظامیہ سے رابطہ نہیں کیا۔ آصف زرداری کراچی سمیت پنجاب کی مختلف جیلوں میں مقید رہے، 1999ء میں کراچی کے ایک پولیس اسٹیشن میں ان پر تشدد ہوا ،ان کی زبان کاٹنے کی کوشش کی گئی مگر زرداری نے حوصلے سے پورا وقت گزارا۔ جب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو لانڈھی جیل لایا گیا تو آصف زرداری پہلے سے وہاں موجود تھے۔ یوں زرداری نے میاں صاحبان کو حوصلے سے جیل کاٹنے کے بہت سے مفید مشورے دیے تھے۔ جب سیاسی کارکن جیل جاتے ہیں، مشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو عوام میں ان کے لیے ہمدردیاں پیدا ہوتی ہیں ،عوام محسوس کرتے ہیں کہ یہ حکمراں ظالم ہیں اور سیاسی کارکنوں کو عوام کے حقوق کی آواز بلند کرنے پر انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔