تحریک انصاف کی تنظیم سازی میں اہم فیصلے کئے جانے کی توقع

رضوان آصف  بدھ 26 جون 2019
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی وجہ سے تحریک انصاف کو حکومت ملی وہ سیاست اوراقتدار سازی کی رمز سے ناواقف ہیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی وجہ سے تحریک انصاف کو حکومت ملی وہ سیاست اوراقتدار سازی کی رمز سے ناواقف ہیں۔

 لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بحیثیت وزیر اعظم مصروفیات کی وجہ سے تحریک انصاف کی تنظیم سازی کا عمل التواء کا شکار ہے۔

چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی اور سیکرٹری جنرل ارشد داد نے عمران خان کی مشاورت سے بہت سے عہدوں کیلئے موزوں افراد کا انتخاب کر لیا ہے اور ان ناموں کے حوالے سے پارٹی کے اندر سے فیڈ بیک لیا جا رہا ہے اور وزیر اعظم کی حتمی منظوری ملنے کے بعد باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا ۔

قوی امکان ہے کہ اس وقت بجٹ منظوری اور اثاثہ جات ایمنسٹی سکیم میں انتہائی الجھے عمران خان آئندہ چند روز تک شدید مصروفیت کے دائرے سے باہر نکل آئیں گے اور 15 جولائی سے قبل صوبائی تنظیموں کا نوٹیفیکیشن جاری ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کی سیاسی طاقت کا محور پہلے بھی پنجاب تھا اور آج بھی پنجاب ہے، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی وجہ سے تحریک انصاف کو حکومت ملی وہ سیاست اور اقتدار سازی کی رمز سے ناواقف ہیں ۔ وفاق میں کون حکومت بنائے گا اس کا فیصلہ پنجاب کے انتخابی نتائج طے کرتے ہیں، حکومتیں تبدیل کرنے کی تحریک یا سازش بھی پنجاب سے ہی جنم لیتی ہے۔

میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو 3 دہائیوں تک سیاست اور حکومت کے ایوانوں میں طاقتور بنائے رکھنے کی وجہ بھی پنجاب تھا اور پھر انہیں راندہ درگاہ قرار دینے والا بھی یہی صوبہ تھا۔ شریف خاندان کی شدید سیاسی مشکلات اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ’’نو لفٹ‘‘ کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آج بھی پنجاب بالخصوص سنٹرل پنجاب میں مسلم لیگ (ن) بہت طاقتور ہے اور اس کے مستقل توڑ کیلئے تحریک انصاف کو ایک مضبوط سیاسی تنظیم کی اشد ضرورت ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف سیاسی طور پر ایک مضبوط جماعت نہیں بن سکی ہے اور اسے مختلف المزاج لوگوں کا اجتماع کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ویسے تو ہر سیاسی جماعت میں اختلاف رائے بھی ہوتا ہے اور دھڑے بندی بھی ہوتی ہے۔

لیڈرز کی اپنی پسند اور ناپسند بھی ہوتی ہے جیسا کہ مسلم لیگ(ن) میں پرویز رشید، احسن اقبال اور خواجہ آصف نے چوہدری نثار علی خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف اپنا گروپ بنا رکھا تھا اور جس طرح سے پانامہ کیس کے دوران میاں نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کو خود سے الگ کر دیا تھا لیکن میاں شہباز شریف آخری وقت تک نثار علی خان کا ساتھ دیتے رہے تھے، پیپلز پارٹی کے اندر بھی دھڑے بندی موجود ہے، سندھ سے تعلق رکھنے والا گروپ زیادہ طاقتور تصور ہوتا ہے اور وہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جبکہ پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما ’’دوسرے درجہ ‘‘ کے جیالے تصور کئے جاتے ہیں۔ان دونوں بڑی جماعتوں کے برعکس تحریک انصاف کے اندر کی دھڑے بندی اور رسہ کشی اس لحاظ سے زیادہ خطرناک اور عمران خان کیلئے نقصان دہ ہے کہ اس میں سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی عناد اور خود پرستی کی جنگ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

اکتوبر2011 ء سے قبل کی تحریک انصاف اور اس کے بعد کی تحریک انصاف میں بہت نمایاں فرق معلوم ہوتا ہے۔ مینار پاکستان جلسے سے قبل کی تحریک انصاف ایک غیر نمایاں سیاسی جماعت تصور کی جاتی تھی، عمران خان کو قومی سیاست میں سٹیک ہولڈر تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور تحریک انصاف میں کوئی بڑا سیاستدان آنے کو تیار نہیں ہوتا تھا، عمران خان نے تنہا یہ مشکل وقت گزارا، احسن رشید مرحوم اور مرحومہ سلونی بخاری جیسے رہنماؤں نے تحریک انصاف کے پہلے دن سے لیکر اپنی آخری سانس تک عمران خان اور تحریک انصاف کا ساتھ نبھایا۔ سیف اللہ نیازی، نعیم الحق، ارشد داد جیسے رہنما آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ہزاروں ایسے رہنما بھی ہیں جو مشکل وقت میں عمران خان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے اور پھر اچھے وقتوں میں دوبارہ ساتھ آ گئے اور ایسے بھی لوگ ہیں جو خود کو تحریک انصاف کا ’’وار لارڈ‘‘ سمجھتے ہیں۔

تحریک انصاف کے پرانے رہنماوں نے طویل عرصہ تک نئے آنے والوں کو دل سے قبول نہیں کیا اور انہیں ’’بارہواں کھلاڑی‘‘ قرار دیکر گراونڈ سے باہر بٹھائے رکھنے کی کوشش کی ۔ انٹرا پارٹی الیکشن میں ایکدوسرے کے خلاف کھل کر سازشیں کی گئیں۔ جہانگیر ترین اور فوزیہ قصوری کو الیکشن سے آوٹ کرنے کیلئے نت نئے رولز متعارف کروا دیئے گئے، عبدالعلیم خان کے خلاف بھرپور طریقہ سے محاذ آرائی کی گئی،اس دھڑے بندی نے الیکشن سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔اس وقت تحریک انصاف وفاق، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں حکومت میں ہے۔

عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تنظیم سازی اور اس کی مضبوطی کبھی بھی حکومت کے دوران نہیں ہوتی کیونکہ اس وقت پارٹی کے سرکردہ رہنما اراکین اسمبلی،وفاقی و صوبائی وزراء یا پھر حکومت میں غیر سرکاری عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں جبکہ دیگر رہنما تنظیم سازی میں اس لئے زیادہ دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ سب کی خواہش حکومتی عہدہ لینا ہوتی ہے اور یہ بھی سب کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اگر تنظیمی عہدہ لے بھی لیا تو کل کو جب حکومت نہیں ہو گی تو طاقتور رہنما دوبارہ سے پارٹی کو ’’ٹیک اوور‘‘ کر لیں گے۔ لیکن عمران خان نے ہمیشہ لہروں کے مخالف تیرنے کو فوقیت دی ہے اور آج بھی بحیثیت وزیر اعظم ،کپتان ایسے فیصلے کر رہا ہے جو نہ تو ماضی میں کبھی کسی نے کیئے اور نہ ہی کوئی دوسرا سیاستدان حکومت میں آنے کے بعد یہ فیصلے کر سکتا ہے۔

اسی لئے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عمران خان اپنی جماعت کی تنظیم نو کو بھی روایت سے ہٹ کر ایک مثال بنائیں گے۔ ابتک کی اطلاعات کے مطابق اعجاز چوہدری کو تحریک انصاف پنجاب کا صوبائی صدر اور شعیب صدیقی کو جنرل سیکرٹری بنائے جانے کا اصولی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔اعجاز چوہدری اس سے قبل بھی صوبائی صدر کے عہدے پر احسن طریقے سے ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں اور وہ تمام گروپس کیلئے قابل قبول بھی ہیں ۔اسی طرح سے شعیب صدیقی کی تحریک انصاف میں گرانقدر پارٹی خدمات ہیں۔اعجاز چوہدری اور شعیب صدیقی کا کمبی نیشن تحریک انصاف کو پنجاب میں فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ لاہور کی صدارت کیلئے ابھی کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہو پا رہا ہے،اس وقت مہر واجد عظیم، ملک ظہیر عباس کھوکھر اور جمشید اقبال چیمہ کو اہم ترین امیدوار قرار دیا جا رہا ہے اور انہی تینوں میں سے کسی ایک کو لاہور کا صدر بنائے جانے کا قوی امکان ہے۔

ملک ظہیر عباس کھوکھر نے چند روز قبل لاہور سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنماوں اور اراکین اسمبلی کے اعزاز میں عید ملن پارٹی کا بھی اہتمام کیا تھا ، ظہیر عباس کھوکھر ایک عمدہ انسان اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور اس سے قبل وہ رورل لاہور(دیہی لاہور) کے صدر رہ چکے ہیں اور انہوں نے اعجاز ڈیال کے ساتھ ملکر خوب کام کیا تھا، پارٹی قیادت کو اعجاز ڈیال جیسے سینئر اور تجربہ کار رہنما کو تنظیم میں یا حکومت میں شامل کر کے استفادہ ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ لاہور میں تحریک انصاف کے دیگر ٹکٹ ہولڈرز کے مقابلے میں جمشید اقبال چیمہ اس وقت اپنے حلقہ این اے 127 میں بھرپور طریقے سے متحرک ہیں ۔ پارٹی قیادت بالخصوص سیف نیازی اور ارشد داد کو لاہور میں عبدالکریم کلواڑ، مظہر ساہی، ملک زمان نصیب، فیاض بھٹی، خالد گجر، ڈاکٹر شاہد صدیق، میاں جاوید علی، آجاسم شریف، امتیاز وڑائچ جیسے اہم رہنماوں کو بھی مین سٹریم میں لانے کیلئے فوری فیصلے کرنے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔