بہزاد لکھنوی

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 4 جولائی 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ہمارے نعت گو شعرا میں بہزاد لکھنوی کا ایک نمایاں مقام ہے۔ نعت گوئی کی اعلیٰ استعداد کے ساتھ انھیں خوش الحانی کی نعمت بھی عطا ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی کے بقول ان کے ہاں تغزل کا انداز ہے، جس میں ڈھل کر نعت اعجاز بن جاتی ہے۔

ریڈیو پاکستان کی آواز لائبریری کے شعر و ادب کے شعبے میں بہزاد لکھنوی کی شمیم رحمانی سے ایک طویل گفتگو کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ گفتگو کے آغاز میں پہلے تو بہزاد صاحب نے اپنی ایک نعت کے یہ دو شعر سنائے:

مدینے جاؤ تو اتنا پیام کہہ دینا

کہ ہند میں ہے تپاں اک غلام کہہ دینا

جو تجھ سے پوچھیں کہ وہ کون شخص ہے بتلا

تو ان سے چپکے سے بہزاد نام کہہ دینا

پھر یہ بتایا کہ ان کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی اور انھوں نے اپنا تخلص بہزاد کیسے رکھا۔ کہنے لگے میرا نام سردار حسین تھا ۔ سردار مجھے پسند نہیں تھا اور میں اسے بدلنا چاہتا تھا۔ مجھے اسکول کے دنوں ہی میں طلسم ہوشربا پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک جادوگر کا نام بہزاد تھا۔ یہ نام مجھے پسند آیا اور میں نے سردارکی جگہ بہزاد اپنا نام رکھ لیا اور پھر یہی میرا تخلص ہوگیا۔

شاعری کا ذوق بھی مجھے طلسم ہوشربا پڑھنے کے بعد محسوس ہوا۔ میں بارہ برس کی عمر میں شعر کہنے لگا۔ یہ اسی طلسم ہوشربا کا فیضان تھا۔ اس داستان میں جو غزلیں تھیں وہ میں پڑھتا تھا۔ ان کے معنی اور مطلب تو سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن ہجر اور وصل کے معنی میں یہ سمجھنے لگا تھا کہ ہجر میں رونا ہوتا ہے، آہ و زاری ہوتی ہے اور وصل میں ایک کیف ہوتا ہے، لذت ہوتی ہے، ہجر میں تارے گن گن کر صبح کرنا ضروری ہے چنانچہ میں شعر کہہ لیا کرتا تھا اور موزوں کہتا تھا۔

بہزاد لکھنوی کی عمر کوئی تیرہ چودہ سال ہوگی کہ ان کے محلے میں ایک مشاعرہ ہوا۔ یہ وہاں پہنچ گئے اور شاعروں کی صف میں جاکر بیٹھ گئے۔ جب شمع گردش کرتے کرتے ان کے سامنے پہنچے تو انھوں نے اپنی غزل سنانا شروع کی۔ کہتے ہیں ’’یقین مانیے میری آواز کانپ رہی تھی لیکن میرا ترنم اتنا اچھا تھا اور میرے شعر اتنے برجستہ تھے کہ شعرا نے اٹھ اٹھ کر مجھے گلے لگالیا۔‘‘

اس دور کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے بہزاد صاحب کہنے لگے کہ اس وقت لکھنو میں اسی فیصد شاعر تھے یعنی یہ کہ نام آپ کو کم معلوم، تخلص آپ کو زیادہ معلوم ہوتا تھا اس لیے کہ زیادہ تر حضرات تخلص ہی کے نام سے پکارے جاتے تھے اور ایک شغل تھا کہ ہر ہفتہ کی رات کو وہ اپنا وقت مشاعرے میں کاٹا کرتے تھے۔ اساتذہ جو تھے وہ اپنا حلقہ وسیع رکھتے تھے۔ عام طور پر جو محفلیں ہوتی تھیں ان میں بھی شاعری کا چرچا رہتا تھا کہ فلاں شاعر نے فلاں مصرعہ خوب کہا، فلاں لفظ یوں رکھا۔ یہ ایک عام موضوع تھا جس پر لوگ گفتگو کیا کرتے تھے چنانچہ اس دور میں کسی کا شاعر نہ ہونا تعجب کی بات تھی۔ مشاعروں کا یہ عالم تھا کہ شاعرکی انتہائی تکریم ہوتی تھی۔ جو انجمن کے مشاعرے ہوتے تھے ان میں ظاہر ہے ہر شاعر بلالیا جاتا تھا اور وہ شعر پڑھتا تھا۔

داد میں یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی طنز کا پہلو نہ ہونے پائے۔ آپ داد دینے پر بھی مجبور تھے چاہے شعر اچھا ہو یا برا ورنہ کہا جاتا تھا کہ آپ بخل سے کام لے رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ لوگ شاعر کو داد دیتے تھے اور دل کھول کر دیتے تھے، خواہ دوست ہو یا دشمن۔ یہ ایسی چیز تھی کہ شاعر مشاعرے میں جاتا ہی داد کے لالچ میں تھا اور جب داد اس کو سیر ہوکر مل جاتی تو بڑا مسرور واپس آتا۔

شمیم رحمانی نے جناب بہزاد سے پوچھا، آپ ریڈیو سے کیسے وابستہ ہوئے؟ بہزاد صاحب نے جواب دیا۔ ’’اللہ جناب ذوالفقار علی بخاری کو جزائے خیر دے، وہ عجیب انسان تھے۔ میں ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوں۔ انھوں نے دلی میں آل انڈیا ریڈیو میں شرفا کو بھرلیا۔ کسی شریف کو وہ پریشان نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انھوں نے تعلیم کا بھی خیال نہیں کیا۔ جس کو چاہا لے آئے۔ اس دور تک ان کے لائے ہوئے آدمی مشاہیر میں ہیں۔ چنانچہ جب ان کی نظر مجھ پر پڑی تو انھوں نے مجھے بلایا اور کہا، بہزاد صاحب! آپ ریڈیو میں آجائیے۔ غالباً ایک سو بیس روپیہ ماہوار پر میں ریڈیو میں ملازم ہوگیا۔

انھوں نے ہی مجھے تربیت دی۔ اس لیے کہ میں یہ ڈرامے اور فیچر لکھنا نہیں جانتا تھا۔ یہ ان کی تربیت تھی کہ میں نے ترقی کی اور میری شہرت بڑھنا شروع ہوئی۔ ہر جگہ سے میرے نام کی آواز آتی، خصوصیت سے یہ نعت جو میں پڑھتا تھا ہر جمعہ کو اس کا بڑا اثر ہوتا تھا۔ مسلمانوں کا یہ عالم تھا کہ وہ دیوانے ہوجاتے تھے۔ جمعہ کے دن کوئی گھر مسلمانوں کا ایسا نہ تھا جہاں ریڈیو ٹیون نہ کیا جاتا ہو۔ میرے یہاں پاکستان آنے کے بعد بخاری صاحب نے پھر کرم فرمایا۔ انھوں نے مجھ سے کہا، بہزاد صاحب! اب آپ یہاں آگئے ہیں، آپ کے بچے بھی آگئے ہیں، اب آپ کہاں جائیں گے۔ ریڈیو میں آجائیں۔ چنانچہ میں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوگیا، نعتیں پڑھنے لگا۔ ہفتے میں پانچ نعتیں پڑھتا تھا۔ اس وقت میری کیفیت بدلی۔ کچھ اللہ کا کرم تھا، مجھے لگن مدینہ طیبہ کی ہوئی۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں بہزاد لکھنوی نے کہا ’’غزل کہنے سے نعت کہنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔ نعت گوئی میں تو معاملہ یہ ہے کہ بہت مودب ہوکر کہنا پڑتا ہے۔ نعت گوئی کا میدان بہت بڑا ہے اگرچہ مضامین وہی ہیں۔ یہ بڑا وسیع میدان ہے۔ اس میں جذبہ بھی ہے، کیفیت بھی ہے، نسبت بھی ہے۔ بڑا رنگ ہے۔ نعت میں ایک چیز تو یہ ہے کہ سرکارؐ کا نام مبارک لے کر ان کی ثنا خوانی۔ یہ جذبے کی کیفیت ہے۔ ایک دوسرا گوشہ ہے کنایہ کہ جس کی تعریف کی جائے اس کا نام نہ آئے بلکہ وہ تعریف اتنی منطبق ہو کہ معلوم ہو کہ فلاں کی تعریف ہے۔‘‘

ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق ’’اردو کی نعتیہ شاعری‘‘ میں فرماتے ہیں کہ بہزاد کے کلام میں صرف جذبات کی ترجمانی ہی نہیں پائی جاتی بلکہ ان کی والہانہ عقیدتمندی جہاں انھیں کیفیات کے اظہار کے لیے ابھارتی ہے وہاں حقیقت کا سررشتہ بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پاتا۔ عقیدت اور حقیقت دونوں کی آمیزش نے سرور کائناتؐ کے حقیقی اوصاف کو ہمیشہ مضامین کی زینت بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں وہ بے اعتدالیاں نظر نہیں آتیں جنھیں عشق و محبت کے مذہب میں نعت گو شعرا نے روا اور جائز قرار دیا ہے۔

وجد آتا ہے مجھے بہزادؔ جب پڑھتا ہوں نعت

خود بہ خود وہ لب پہ آتا ہے جو میرے دل میں ہے

ڈاکٹر رفیع الدین لکھتے ہیں ’’بہ اعتبار زبان اور بہ اعتبار مضامین حضرت بہزاد کا نعتیہ کلام محاسن سے خالی نہیں ہے۔ زبان نہایت صاف و شستہ اور بحریں اکثر چھوٹی اور مترنم ہوتی ہیں۔ الفاظ کا حسن انتخاب موسیقیت پیدا کرتا ہے۔ بیان سادہ، رواں دواں اور مضامین عام فہم ہوتے ہیں۔ نہ تو ان میں عالمانہ دقت پسندی اور لفظی صناعی سے کام لیا گیا ہے اور نہ عقیدت مندانہ بے احتیاطی کو دخل ہے۔ حضور انورؐ کے کمال عبدیت کو دکھانے میں شاعر نے اپنا تمام زور صرف کر دیا ہے۔ وہ اکثر نعت گو شعرا کی طرح آپؐ کو عبدیت سے فارغ کرکے معبود کے رنگ میں جلوہ گر کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ اس لیے غلو کی وہ صورتیں مفقود ہیں جن سے حضورؐ کے حقیقی اوصاف پر حرف آتا ہے۔ ان خصوصیات کی بنا پر حضرت بہزادؔ کا مقام جدید دور کے نعتیہ غزل گو شعرا میں ممتاز ہے۔‘‘

ہم اس کی تمنا میں جائیں تو کہاں جائیں

جو آنکھ میں رہتا ہے اور قلب میں بستا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔