اسلام میں بیوی کے حقوق

مولانا محمد اسلم شیخ  جمعـء 5 جولائی 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

اسلام سے قبل کی قوموں نے یہ حقیقت نظر انداز کر دی تھی کہ مرد اور عورت دونوں آدمؑ کی اولاد اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور ان کا ازدواجی تعلق انسانی تمدن کی بنیاد ہے۔ ایسے حالات میں رحمت اللعالمینؐ عالم نسواں کا مقدر سنوارنے کے لیے سراپا رحمت بن کر آئے۔ ان کے لیے دُوررس اصلاحات کیں اور دنیا کو درس دیا کہ کس طرح مصروفیات کے باوجود ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنایا جا سکتا ہے۔

ظہور اسلام سے قبل عورت کا درجہ بہت پست تھا۔ اس کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں تھی۔ وہ زندگی کے ہر مرحلے میں مردوں کی محکوم اور دست نگر تھی، اسلام پہلا مذہب ہے، جس نے عورتوں کا درجہ بلند کیا۔ ان کی مستقل حیثیت قائم کی، ان کے حقوق متعین کیے، وراثت میں حصہ دار بنایا، ان کی املاک کا اُن کو مالک بنایا، چند کے سوا انہیں بیش تر امور میں مردوں کے برابر حقوق دیے، ان کی پرورش کو اجر و ثواب قرار دیا اور بیوی اور شوہر میں حقوق کی مساوات قائم کی۔ بیوی کو شوہر کی رفیق زندگی بنایا۔ ماؤں کے قدموں تلے جنّت رکھی، غرض یہ کہ اسلام نے ہر پہلو سے عورت کا درجہ بلند رکھا۔

٭ اسلام میں احترام نسوانیت:

رسول کریم حضرت محمد ﷺ کی معاشرتی تعلیمات کا بنیادی عنصر عورتوں کا احترام تھا۔ حضور اکرم ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کو ام المومنینؓ کہنا ہی ثابت کرتا ہے کہ عورت کے رشتے کو کس قدر تقدس دیا گیا ہے۔

٭ عورتوں کے مردوں پر حقوق:

اسلام کا عورت کو دوسرا عطیہ مساوات ہے۔ قرآن حکیم کی یہ آیت استثنائی صورت فراہم کرتی ہے۔ مفہوم : ’’ مرد، عورتوں پر محافظ و نگراں ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے کہ وہ اپنے اموال میں سے ( عورتوں کی ضرورت و آرام کے لیے) خرچ کرتے ہیں۔ عربی زبان میں کسی چیز کی ضروریات کو مہیا کرنے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اور اس کی اصلاح کے ذمے دار کو ’’قوام‘‘ کہا جاتا ہے، جیسے ہر فوج کا ایک کمانڈر اور ہر مملکت کا ایک فرماں روا ہونا ضروری ہے، جو نظام قائم رکھے اور فوج اور رعایا اس کے حکم پر عمل کرے۔ اسی طرح گھر کی ریاست کا بھی ایک حاکم اعلیٰ ہونا چاہیے، جو گھر کی ضروریات کا کفیل اور اس کی خوش حالی کا ذمے دار ہو اور اس کے احکام کی اطاعت کی جائے، ورنہ گھر کی اس چھوٹی سی مگر اہم ریاست کا سکون و اطمینان برباد ہوکر رہ جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذمے داری کس کو سونپی جائے، اور اس بار گراں کو اٹھانے کی صلاحیت کس میں موجود ہے۔

اس کے دو ہی امیدوار ہیں شوہر اور بیوی۔ قرآن حکیم نے شوہر کو اس ذمے داری کا اہل قرار دیا ہے اور ساتھ ہی وجہ بھی بتادی ہے کہ اس میں دو خوبیاں ہیں۔ پہلی خوبی تو یہ کہ مرد اپنی جسمانی قوت، معاملہ فہمی اور دُوراندیشی میں عورت سے بڑھا ہوا ہے۔ اور مرد کی دوسری خوبی یہ ہے کہ بیوی بچوں کے جملہ اخراجات اور ان کے آرام و حفاظت کی تمام تر ذمے داری اس پر عاید ہے۔ اس لیے اپنی فطری و کسبی برتری کے باعث مرد ہی اس امر کا مستحق ہے کہ وہ گھر کی ریاست کا امیر ہو۔ کوئی کج فہم یہ ہرگز نہ سمجھے کہ عورت کے گلے میں مرد کی غلامی کا طوق ڈالا جا رہا ہے۔ نہیں، ان انتظامی امور کے علاوہ عورت کے اپنے حقوق ہیں جو مرد پر ایسے ہی واجب ہیں، جیسے مرد کے حقوق عورت کے ذمے واجب ہیں جیسا کہ قرآن میں کہا گیا، اور ان کے بھی حقوق ہیں (مردوں پر) جیسے مردوں کے ان پر حقوق ہیں۔ یہاں عورت کی غلامی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ عورت کو جو مقام اسلام نے بخشا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اللہ کی نگاہ عمل کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔

اسلام نے عورت کو بہ حیثیت بیوی، بہت سے حقوق عطا کیے ہیں۔

احسن معاشرت۔ تفریح و دل بستگی کے جائز مواقع فراہم کرنا۔ معاشی تحفظ۔ ازدواجی معاملات میں عدل و توازن۔

٭ احسن معاشرت: نکاح، میاں بیوی کے درمیان عہد ہوتا ہے کہ وہ احکام الٰہی کے تحت خوش گوار ازدواجی تعلق رکھیں گے۔ قرآن پاک میں مردوں کو اس طرح اس معاہدہ کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، مفہوم : ’’وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔‘‘ مردوں کو مزید اس طرح بھی تاکید کی گئی ہے، مفہوم : ’’ اور (عورتوں کے ساتھ) اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘

٭ احادیث کی رو سے حقوق: اس ضمن میں محسن انسانیت حضور اکرمؐ کے ارشادات قابل غور ہیں، آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’تم میں کامل ایمان والا وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے، جس کا سلوک اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے اچھا ہو۔‘‘ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ اور تم اپنی بیویوں کے ساتھ عمدگی سے زندگی بسر کرو پس، اگر وہ تمہیں (کسی سبب) ناپسند ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو، مگر خدا نے تمہارے لیے بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘ اس ضمن میں حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ کوئی مسلمان شوہر اپنی بیوی سے نفرت نہ کرے۔ اگر کوئی ایک عادت ناپسند ہو تو دوسری عادتیں پسندیدہ ہوں گی۔ مثلاً اگر عورت خُوب صورت نہیں یا اس میں کوئی اور خامی ہے، تو اس وجہ سے قطع تعلق نہ کرے، یا ہوسکتا ہے بیوی جھگڑالو یا بدصورت ہے تو ممکن ہے وہ اولاد ایسی دے، جو اس شخص کی عزت میں اضافے کا سبب بنے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ناپسندیدہ ترین جائز کام اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔‘‘

بیوی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے لطف و مدارات کا اندازہ آپؐ کی گھریلو زندگی کے واقعات سے ہوتا ہے۔ آپؐ کا معمول تھا کہ ہر روز تمام ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں، جو قریب قریب تھے، تشریف لے جاتے۔ ہر ایک کے پاس کچھ دیر قیام فرماتے، جب اس بیوی کا گھر آجاتا، جن کے ہاں قیام کی باری ہوتی تو رات کو وہیں قیام فرماتے۔ آپؐ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہؓ آپؐ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں۔ آپؐ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی۔ ان کی زندگی میں آپؐ نے دوسری شادی نہیں کی۔

٭ تفریح و دل بستگی: ازدواجی رشتوں کو استوار کرنے کے لیے اور خانگی زندگی پُرمسرت بنانے کے لیے یہ بات بھی ناگزیر ہے کہ شوہر بیوی کے لیے تفریح کا مناسب سامان بھی فراہم کرے۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضور اکرمؐ نے حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑ لگائی تو ایک بار حضرت عائشہؓ، رسول اللہ ﷺ سے آگے نکل گئیں اور دوسری بار حضور رسالت مآب ﷺ حضرت عائشہؓ سے دوڑ میں آگے نکل گئے۔ ایک مرتبہ حضور اکرمؐ نے عید کے موقع پر گھر کی دیوار کی اوٹ سے حضرت عائشہؓ کو جنگی ورزش کا منظر بھی دکھایا تھا۔ سرور کائنات ﷺ اپنی ازواج کی دل جوئی کے علاوہ ان کے ساتھ گھریلو کام کاج میں تعاون بھی فرماتے تھے۔ اپنی پوشاک خود دھوتے، پیوند لگانا ہوتا تو اپنے دست مبارک سے کپڑے میں خود پیوند لگا لیا کرتے تھے۔ دودھ دوہتے تھے، اپنی اونٹنی کو خود باندھتے تھے، ایک ہی برتن میں خادم کے ساتھ کھانا کھانے میں کبھی تکلّف نہ فرماتے تھے۔ اپنے گھر کی ضرورت پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتے۔ اگرچہ خود کتنی ہی تکلیف برداشت کرنا پڑے۔ یہ ہے حضور محسن انسانیتؐ کی زندگی کا عملی نقشہ و نمونہ۔

٭ معاشی تحفظ: گھر کا کام چلانے کے لیے سرمائے کا بندوبست کرنا بھی مرد کی ذمے داری ہے۔ عورت کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ خوش اسلوبی سے گھر کا بندوبست کرے۔ ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ : ’’ تم میں سے ہر ایک اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نسبت بازپرس ہوگی، مرد اپنی بیوی کا رکھوالا ہے اور اس سے اس کے متعلق احتساب ہوگا اور بیوی اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اس سے اس کے متعلق احتساب ہوگا۔‘‘ مرد کے فرائض نگہہ بانی کی ایک اہم مشق یہ ہے کہ وہ کارزار حیات میں تگ و دو کرکے اپنے اہل و عیال کے لیے حلال روزی مہیا کرے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا : ’’اور تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔‘‘ ایک صحابیؓ نے حضور انورؐ سے دریافت کیا، یارسول اللہ ﷺ کسی شخص کی بیوی کا اس کے شوہر پر کیا حق ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’ اس کا حق یہ ہے کہ جب تُو کھائے تو اسے کھلائے اور جب تُو پہنے تو اسے پہنائے، اس کے چہرے پر نہ مارے ، اس کے لیے بددعا کے الفاظ نہ نکالے اور اگر اس سے ترک تعلق کرے تو صرف گھر میں کرے۔‘‘

٭ عدل و مساوات: عدل، انسان کا بنیادی تقاضا ہے۔ اسے ازدواجی تعلقات میں جاری رکھنا چاہیے۔ عورت کا حق یہ ہے کہ مرد اس کے ساتھ مکمل مساوات رکھے، یہاں تک کہ خوردونوش اور طعام و لباس کے معاملات میں بھی، یہاں لباس کے معاملے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عدل و مساوات کا یہ مطلب نہیں کہ مرد کھدر پہنیں تو عورت بھی یہی کپڑا پہنے، بل کہ عدل یہ ہے کہ مرد وہ کپڑا پہنے جو عام مرد پہنتا ہے، اور عورت وہ لباس اختیار کرے جو عام عورت پہنتی ہے۔ مرد کو موٹا اور حتیٰ المقدور سفید لباس پہننا چاہیے لیکن عورت کے لیے ریشمی اور رنگ دار کپڑے پہننے جائز ہیں، پابندی صرف یہ ہے کہ لباس ایسا باریک نہ ہو کہ جس سے اندر کا جسم نظر آئے۔ زیور پہننا بھی جائز ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام کر دیا گیا ہے، لیکن عورتوں پر نہیں، عورتوں کے لیے زیور اور ریشم کا استعمال جائز ہے۔‘‘ لازم نہیں خاوند کی اقتصادی حالت کے مطابق ہی عورت کا معیار لباس یا زیور ہونا چاہیے، خاوند کو چاہیے کہ بیوی کے ساتھ تمام امور معاشرت میں عدل و مساوات جاری رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔