- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
برطانیہ میں میڈیکل کی 7 طالبات کو 150 سال بعد ڈگری تفویض
لندن: برطانوی یونیورسٹی ایڈنبرا میں 150 سال بعد میڈیکل کی 7 آنجہانی طالبات کو اسناد دینے کی تقریب منعقد کی گئی۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ایڈنبرا یونیورسٹی میں 1869ء میں روایت شکنی کرتے ہوئے 7 خواتین نے پہلی بار یونیورسٹی میں داخلہ لے کر قدامت پسند برطانیہ کی متنازع ثقافت اور روایات کے خلاف بغاوت کی تھی جنہیں بالآخر 150 سال بعد اسناد جاری کردی گئیں۔
’ایڈنبرا سیون‘ کے نام سے شہرت پانے والی ساتوں طالبات اپنی ڈگریاں لینے کے لیے اب دنیا میں موجود نہیں اس لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے موجودہ طالبات میں سے سات خوش نصیبوں کو نمائندگی کے لیے چنا اور اعزازی میڈل اور اسناد پیش کیں۔
ایڈنبرا سیون نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا تو برطانیہ کے مردوں کی حاکمیت والے معاشرے میں ہلچل مچ گئی، قدامت پسندوں نے طالبات کی راہ میں روڑے اٹکائے یہاں تک کہ مرد طلبا نے طالبات کے خلاف باقاعدہ محاذ کھڑا کردیا تھا۔
After 150 years, the #edinburgh7 will today be awarded posthumous honorary degrees. The group were among the first women to be admitted to a UK university, but were prevented from graduating. @EdinUniMedicine students will collect degrees on their behalf https://t.co/aHOjf349nH
— The University of Edinburgh (@EdinburghUni) July 6, 2019
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند برطانیہ کی ان اولین خواتین نے صنفی امتیاز کے خلاف مہم چلائی تھی جسے چارلس ڈارون جیسی ہستیوں کا مکمل تعاون حاصل تھا جس کے نتیجے میں 1877ء میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت دینے کے لیے قانون سازی کی گئی۔
قانون سازی کے باوجود ایڈنبرا سیون کی مشکلات کم نہ ہوسکیں اور آخری سال امتحانی ہال میں مرد طالب علموں نے ان طالبات پر گندگی پھینک دی اور آئندہ دو دہائی تک ایڈنبرا یونیورسٹی میں کسی خواتین کا داخلہ ممنوع رہا بعد ازاں داخلے تو مل گئے لیکن کوئی بھی مرد ٹیچر طالبات کو پڑھانے کے لیے راضی نہ ہوا۔
دھیرے دھیرے ان خواتین کی جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور خواتین کی تعلیم میں حائل سماجی رکاوٹیں ختم ہوگئیں اور معاشرے میں تعلیم یافتہ خواتین کو خاص اہمیت دی جانے لگی تاہم ایڈنبرا کی یہ 7 طالبات اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکی تھیں۔
قدامت پسند برطانوی معاشرے میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت دلانے والی ان ساتوں خواتین مری اینڈرسن، ایملی بوویل، میٹلڈا چپلن، ہیلن ایوانز، صوفیا جیکس بلیک، ایڈٹھ پیچی اور ایزابیل تھورن کو یونیورسٹی کے مک ایون ہال میں ہونے والی خصوصی تقریب میں میڈیسن کی اعزازی بیچلر ڈگری سے نوازا گیا۔
ان سات خواتین کی ڈگریوں کو ایڈنبرا کی موجودہ سب سے قابل اور لائق طالبات نے وصول کیا، یونیورسٹی میں ایڈنبرا سیون کے حوالے سے یادگار بھی قائم کی گئی ہیں جس میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے خواتین کو درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کو اجاگر کیا گیا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔