ٹریفک پولیس یا ہیلمٹ سرکار؟

مختار احمد  منگل 16 جولائی 2019
ہیلمٹ اسکیم کے نام پر اس وقت شہر بھر کی پولیس متحرک ہے اور ہیلمٹ بھی فروخت کیے جارہے ہیں۔ (فوٹو: حامدالرحمان)

ہیلمٹ اسکیم کے نام پر اس وقت شہر بھر کی پولیس متحرک ہے اور ہیلمٹ بھی فروخت کیے جارہے ہیں۔ (فوٹو: حامدالرحمان)

پولیس کا محکمہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے برطانوی قبضے کے بعد 1847 میں قائم کیا گیا اور اس کا پہلا سربراہ کیپٹن براؤن کو بنایا گیا، جو کہ کیپٹن آف پولیس کہلائے۔ ان کے ماتحت 3 لیفٹیننٹ آف پولیس تھے، جو کہ 3 اضلاع میں متعین ہوتے تھے۔ پولیس کا پورا عملہ 2210 پر مشتمل تھا، جن میں 838 گھڑسوار سپاہی تھے، جبکہ اونٹ پر سوار دستہ اور شاہراہوں اور کشتیوں کی نگرانی کےلیے علیحدہ دستے قائم ہوتے تھے۔ پولیس کا نظام کراچی میونسپلٹی چلاتی تھی اور پہلا تھانہ بولٹن مارکیٹ میں اس جگہ قائم تھا جہاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی عمارت ہے۔

چونکہ اس وقت پولیس میں شامل کرنے کےلیے مضبوط کردار کے لوگ تلاش کیے جاتے تھے، لہٰذا پوری ایمانداری اور دیانتداری سے ڈیوٹی انجام دینے کے سبب کرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر اس سلسلے میں 1884-1885 میں قانون شکنی کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پورے سال میں 3 قتل، 290 چوریاں،62 نقب زنی، 12 مسروقہ مال کی خریداری اور 7 خودکشی کے واقعات رونما ہوئے۔

جب انگریزوں نے پاکستان بننے کے بعد یہاں سے کوچ کیا، تب بھی پولیس کا نظام ان ہی کے بنائے گئے قوانین کی روشنی میں چلتا رہا اور ایسے افراد کو بھرتی کیا جاتا رہا جو کہ معیار پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ ایمانداری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عوام کے اندر پولیس کا مورال بلند تھا اور عوام دل و جان سے ان کی عزت و احترام کرتے تھے۔ مگر جب گزرتے وقت کے ساتھ تھانوں میں اضافہ ہوا اور سڑکوں پر ٹریفک کے باعث ٹریفک پولیس وجود میں آئی۔ جس کےلیے ہونے والی بھرتیوں میں میرٹ، ایمانداری کا خیال نہ رکھا گیا اور ہونے والی ان بھرتیوں کے نام پر بھاری رشوتیں اور سفارشوں کا سلسلہ چل پڑا، تو ایمان کا پیمانہ بھی ٹوٹ گیا۔ اور پولیس کے وہ ایماندار اہلکار جن کی ماضی میں دیانتداری کی مثالیں دی جاتی تھیں، کی جگہ بددیانتی کی مثالیں سامنے آنے لگیں۔

بڑھتے شہر کے ساتھ ٹریفک پولیس کی تعداد میں انتہائی اضافہ ہوا۔ قیام پاکستان کے ابتدائی چند سال میں یہ اہلکار سفید وردیوں میں ملبوس شاہراہوں پر بنائی گئی چھتریوں کے نیچے سخت گرمی، سردی اور بارشوں میں کنٹرول سنبھالتے تھے۔ اس وقت نہ تو چالان انسپکٹر نظر آتے تھے اور نہ ہی جگہ جگہ ٹریفک پولیس چوکیاں بناکر شہریوں کو تنگ کرنے کا رواج تھا۔ مگر جیسے جیسے وقت آگے بڑھا، یہ ٹریفک پولیس اہلکار جدید ٹریفک سگنل لگ جانے کے باوجود ٹریفک روکنے اور چلانے کے آداب بھول گئے۔ بلکہ پورے شہر میں یہ ٹریفک کنٹرول کرنے کے بجائے خود ٹریفک جام کرواتے ہیں اور پھر دھڑلے کے ساتھ پورا دن شہریوں سے اپنے بچوں کےلیے مٹھائی وصول کرتے ہیں۔ سال بھر میں متعدد بار ان کی جانب سے نت نئے ٹریفک قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے اور بجائے قوانین کے اطلاق کے لوگوں سے ان بننے والے نئے قوانین کے حکم عدولی پر بھاری رشوتیں وصول کی جاتی ہیں۔ جو شہری انہیں مجبوری میں رشوت دے دیتے ہیں، ان کا تو بھلا ہوجاتا ہے مگر غربت کے باعث جو لوگ رشوت دینے سے قاصر ہوتے ہیں ان کا وہ انجام ہوتا ہے جو ناقابل بیان ہے۔

اس وقت بھی ٹریفک پولیس کی جانب سے موٹر سائیکل سواروں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کےلیے ہیلمٹ اسکیم کے نام پر شہر بھر کی پولیس متحرک ہے اور تقریباً تمام شاہراہوں، سڑکوں، گلیوں میں جگہ جگہ چنگی ناکے لگاکر یا تو ہیلمٹ کے نام پر مک مکا کیا جارہا ہے یا پھر چالان کاٹ کر اپنی سالانہ رپورٹ میں کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

کیونکہ پوری ہیلمٹ سرکار اس وقت موٹر سائیکل سواروں کے چالان میں مصروف ہے، لہٰذا انہیں بسوں، منی بسوں، ویگنوں، رکشوں، ٹیکسیوں میں عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اور اضافی کرایوں کی وصولی نظر نہیں آرہی۔ اسی طرح شہر بھر میں جابجا ٹریفک جام ہونا معمول کا حصہ ہے، جس کےلیے ٹریفک پولیس تو نہیں، ہاں کوئی پاگل و مجذوب شخص شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کرتا دکھائی دیتا ہے۔

عوام کا کہنا ہے کہ سالانہ دو تین بار شروع کی جانے والی ہیلمٹ اسکیم، ہیلمٹ کمپنیوں جس کے خود ٹریفک افسران شیئر ہولڈرز ہیں، کو فائدہ پہنچانے کےلیے شروع کی جاتی ہے۔ اور اب تو حال یہ ہوچکا ہے کہ پہلے یہ کام ٹریفک پولیس چھپ چھپا کر کرتی تھی، اب انہوں نے شہر بھر میں جابجا اپنی ٹریفک چوکیوں پر ہیلمٹ کے اسٹال لگا کر ان کی تجارت شروع کردی ہے۔ جس کے تحت بغیر ہیلمٹ سفر کرنے والے موٹر سائیکل سوار کو روک کر پہلے اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ہزار روپے کا ہیلمٹ مذکورہ ٹریفک چوکی کے اسٹال سے خریدے، ورنہ اس کا چالان کردیا جائے گا۔ جس کے تحت موٹر سائیکل سواروں کی ایک بڑی اکثریت روزانہ کی بک بک جھک جھک سے بچنے کےلیے ہیلمٹ خرید لیتی ہے۔ ورنہ وہ غریب موٹر سائیکل سوار جس کی جیب میں پنکچر لگوانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے، 170 روپے کا چالان کروانے یا پھر بطور رشوت کچھ پیسے دے کر جان چھڑانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

شہر کی تمام سڑکوں پر یہ سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے، جس سے نہ تو نوجوان محفوظ ہیں اور نہ ہی وہ ضعیف افراد جو کہ سانس، دمہ، ہائی بلڈپریشر کے مرض میں مبتلا ہیں اور جنہیں ڈاکٹر نے ہیلمٹ لگانے سے مکمل طور پر منع کررکھا ہے، ہیلمٹ پہننے پر مجبور ہیں۔ آفرین اس ٹریفک پولیس پر جو ان کی جان کی پرواہ کیے بغیر ان سے ٹریفک قوانین کی اس پابندی پر عملدرآمد کروانے میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے موٹر سائیکل سواروں میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا یہی ہے کہ یہ سب کچھ ٹریفک پولیس ہیلمٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کےلیے کر رہی ہے۔ اگر انہیں عوام کی جان و مال کے تحفظ کا اتنا ہی خیال تھا تو قیام پاکستان کے 73 سال میں وہ عوام کو اب تک اس پابندی کا عادی بناچکے ہوتے۔

عوام کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہیلمٹ مہم صرف اور صرف رشوت خوری کی مہم ہے۔ ٹریفک پولیس کو عوام کی حفاظت سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر انہیں عوام کی جان کا اتنا ہی خیال ہوتا تو پھر موٹر سائیکلوں کے پیچھے بیٹھ کر سواری کر نے والے پر بھی ہیلمٹ کو لازمی قرار دیا جاتا۔ مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ جو اس بات کی غمازی ہے کہ یہ جان بچانے کی نہیں، بلکہ جیبیں کاٹنے کی اسکیم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔