اگر آپ ’’باس‘‘ بن جائیں

باس اور ملازم دونوں ہی اپنی جگہ اگر خوش رہنا چاہتے ہیں تو پھر دونوں کو ایک دوسرے کی پوزیشن پر آکر سوچنا ہوگا


مناظر علی July 19, 2019
آخر کیا وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنے باس سے ناخوش نظر آتے ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پیٹ کا دوزخ بھرنے کےلیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح انسان جو بھی کام کرتا ہے اس میں کہیں نہ کہیں مجبوری کا عنصر پنہاں ہوتا ہے اور اس مجبوری میں جب مرد و زن گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں، تو قدم قدم پر مشکلات کانٹوں کی طرح بکھری پڑی نظر آتی ہیں۔ یہ مشکلات مختلف ہوتی ہیں جن میں دفتری امور کی انجام دہی کے دوران اپنے باس کے غضبناک رویے کو سرفہرست رکھا جاسکتا ہے کہ جو دیگر پریشانیوں کی بڑی وجہ بن جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کو اچھا باس مل جائے تو پھر سمجھیں کہ وہ آفس نہیں جنت میں رہ رہا ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنے باس سے ناخوش نظر آتے ہیں اور آفس کے باہر بھی باس کا ڈر ان کے ذہن پر سوار رہتا ہے۔ اکثر چائے خانوں، ہوٹلوں اور سکون کےلیے بنائی گئی دیگر جگہوں پر دوستوں کے درمیان کسی نہ کسی طرح ''باس'' ہی زیربحث رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے باس کا ذکر اچھا کرتے ہیں یا بُرا۔ اور جب ذکر خیر نہیں کرتے تو پھر کون سے القابات سے باس کو یاد کیا جاتا ہے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔

کیا یہ وجہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی زندگی میں باس نام کی کسی چیز کو برداشت نہیں کرنا چاہتے؟ کیا یہ اس لڑکی کی طرح کی ایک سوچ تو نہیں جو ایسا سسرال چاہتی ہے جہاں سسر چاہے گھر کے کسی کونے میں چارپائی پر پڑا رہے، مگر ساس نام کی کوئی چیز ان کے گھر میں نہ ہو۔ حالانکہ یہ خواہش ہر لڑکی کی پوری نہیں ہوتی، اس وقت تک کہ جب تک قدرت ہی کوئی فیصلہ نہ کردے۔ بہرحال کچھ لڑکیاں ایسا نہیں سوچتیں۔ یعنی معاشرے کے کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی آفس میں انہیں نوکری مل جائے، مگر باس نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ وہ سیاہ کریں یا سفید، بروقت تنخواہ ملتی رہے۔ کام نہ ہونے کے برابر ہو اور آفس میں وہ سب کچھ میسر ہو، جو کسی آرام گاہ میں ہونا چاہیے۔

اس قسم کے لوگوں کی سوچ بعض اوقات مجھے اس قوم سے ملتی جلتی لگتی ہے جو یہ کہتے تھے کہ کام نہ کرنا پڑے، بس من وسلویٰ آسمان سے اتر آئے۔ پھر انہیں من و سلویٰ تو مل گیا، مگر اس قوم کا حشر بھی وہی ہوا جو ایسے لوگوں کا ہوتا ہے۔ کام نہ کرنے والے ملازمین کی باس کی عدم موجودگی کی خواہش سے کسی دانشمند کو اتفاق بہرحال نہیں ہوگا۔

دوسرے کچھ لوگ ایسے بھی جو اس معاملے میں ہمہ وقت پریشان رہتے ہیں کہ باس کی ناراضی انہیں خطرے سے خالی نہیں لگتی، وہ کام میں بھی مسلسل دھیان دیتے ہیں، بروقت آنا، جلدی گھر نہ جانا اور کولہو کے بیل کی طرح سر جھکا کر کام میں لگے رہنا۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر ذرا سی بھی گڑبڑ ہوگئی تو پھر وہ نوکری سے گئے۔ ایسے لوگ نہ صرف باس سے ڈرتے ہیں، بلکہ باس سے جڑے ہر اس بندے سے ڈرتے ہیں، جن کے بارے میں اُن کا گمان ہوتا ہے کہ یہ لوگ باس کو ایک ایک چیز کی خبر دیتے ہیں۔ یہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کے عادی ہوتے ہیں، حتیٰ کہ باس کو آفس آتے دیکھ کر سلام لینے کے بجائے وہاں سے کھسک کر اپنی سیٹ پر پہنچنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ یہ ہمیشہ خود کو مصروف رکھنا چاہتے ہیں، چاہے ان کے حصے میں کام ہو یا نہ ہو۔ یعنی Look Busy Do Nothing۔

باس تو باس، یہ ہر کسی کو یہ ظاہر کرانا چاہتے ہیں کہ وہ انتہائی محنتی ہیں اور انہیں کام کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں۔ ایسے لوگوں کو اس مرض سے باہر نکل کر صرف کام پر ہی توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں خود پر اعتماد اور اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر دل میں اطمینان رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ ان کی زندگی یونہی انجانے خوف میں گزرنے کا ڈر ہے۔

تیسرے کچھ لوگ ایسے ہیں، جو اس معاملے کو قسمت کا کھیل سمجھتے ہیں اور پریشانی کے وقت سب معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ کام چور نہیں ہوتے، محنتی ہوتے ہیں۔ حتی الامکان اچھا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں ضرورت ہو باس سے میل ملاپ بھی رکھتے ہیں۔ مگر بلاوجہ کی خوشامد اور حد سے بڑھ کر بھاگ دوڑ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کا اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ رزق حلال کی تلاش عین عبادت ہے اور بہترین رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ کام میں ایمانداری بھی ایسے ہی لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ یہ عام لوگوں کی نسبت پُرسکون زندگی گزارتے ہیں۔

کچھ جگہوں پر چند ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں، جن کے بارے میں عام لوگوں کا یقین کی حد تک گمان ہوتا ہے کہ وہ شاہ کے مصاحب ہیں۔ باقی کام کاج کیا ہوتا ہے ان کی بلا جانے۔ وہ شاہ کو خوش رکھتے ہیں، چاہے اس کےلیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ یہی ان کا فن ہے اور بعض اوقات ایسے لوگ ایسے ایسے عہدوں تک جاپہنچتے ہیں کہ خود کو قابل سمجھنے والے منہ میں انگلیاں ڈال لیتے ہیں کہ یہ لو بھئی، یہ کسر باقی تھی۔ پھر آخرکار یہی کہہ کر دیکھنے والے خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ بھئی قدرت جسے عطا کرے۔ اب باس کی قربت اور ''خدمت'' کا کچھ تو صلہ بنتا تھا، لطف اندوز ہونے دیں اور اترانے دیں اسے۔ بقول غالب:

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

ان چاروں قسموں کے ملازمین کی سوچ اور کام کا طریقہ اپنی جگہ، مگر باس کا رویہ بہرحال دفاتر کے ماحول اور ملازمین کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ حال ہی میں انٹرنیشنل جرنل آف انوائرمنٹ ریسرچ اینڈ پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ناپسندیدہ نوکری یا ایسی جگہ جہاں کے باس یا منیجر کا رویہ تلخ ہو، تو یہ عمل آپ کو دل کے عارضہ میں مبتلا کرسکتا ہے، جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ اموات کی وجہ ہے۔ ایسی جگہوں یا ایسے باس کے تحت کام کرنے والے ملازمین میں ذیابیطیس، موٹاپا، ہائی کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر اور تمباکو نوشی کی عادات پائی جاتی ہیں۔

اپنے باس کے دباؤ میں رہنے والے لوگوں کےلیے یہ سوچ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے جنہیں سوچ کے اس دائرے سے جتنا جلدی ہوسکے نکلنا چاہیے۔ موت سے قبل ہی موت کے ڈر سے ہر پل مرنے سے بہتر ہے، زندگی کے لمحے خوشگوار بنائے جائیں اور ذہنی دباؤ میں ایسا ممکن نہیں۔ یا تو ذہنی دباؤ والی ملازمت چھوڑ کر متبادل کا بندوبست کرلیں یا پھر نوکری لینے والے کے بجائے نوکری دینے والے بن جائیے۔ یعنی چاہے زیرو سے شروع کریں مگر کوئی اپنا کاروبار کیجئے تاکہ باس کے دباؤ سے ذہنی مریض بن کر موت کے قریب جانے سے بچ کر زندگی زندہ دلوں کی طرح گزار سکیں۔

لیکن اگر آپ خود باس بن جائیں تو پھر کیا آپ ملازمین کو خوش رکھیں گے؟ انہیں ذہنی مریض نہیں بنائیں گے؟ اگر آپ بھی اس پوزیشن پر جاکر ایسا ہی کرنے لگے تو پھر سوچنا پڑے گا کہ اتنا غلط باس بھی نہیں ہوتا، جتنا اسے سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مجبوریاں ہی کیا پتہ اسے ایسا رویہ رکھنے پر مجبور کردیتی ہوں۔ کیونکہ جہاں انسان کا سب کچھ خرچ ہوتا ہے اور جو اس کا ذریعہ معاش ہوتا ہے، اسے بہتر رکھنے اور مزید ترقی کےلیے انسان کبھی خوشی کبھی غم کی کیفیت میں رہتا ہے۔ جب وہ خسارے میں جاتا ہے تو پھر غضبناک ہوجاتا ہے، اور جب آمدن زیادہ ہوتی ہے تو پھر خوشی سے نہال ہوجاتا ہے۔ بس جو باس کی خوشی اور غم کی وجوہات جان گیا، وہ ذہنی دباؤ سے بچ گیا، ورنہ نوکری کا سارا دورانیہ ہی قیاس آرائیاں کرتے کرتے ذہنی دباؤ میں گزر جائے گا۔

باس اور ملازم دونوں ہی اپنی جگہ اگر خوش رہنا چاہتے ہیں تو پھر دونوں کو دوسرے کی پوزیشن پر آکر سوچنا ہوگا۔ تبھی ایک دوسرے کی مجبوریوں کا ادراک ہوگا اور تبھی خود میں ہمت اور برداشت بھی پیدا ہوگی۔ اور ذہنی دباؤ جو ایک دن جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے، اس سے بچ پائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں