متنازع انتخابات کی سالگرہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 24 جولائی 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کو ملک کے دسویں عام انتخابات ہوئے مگر پہلے 9 انتخابات کی طرح یہ انتخابات بھی متنازع ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے آر ٹی ایس کا نظام قائم کیا مگر آر ٹی ایس کا نظام مفلوج ہو گیا۔ کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے نتائج 48 گھنٹوں کے بعد الیکشن کمیشن کے انتخابی سیل تک پہنچ سکے۔

بہت سے حلقوں میں امیدواروں کے کاؤنٹنگ ایجنٹوں کو فارم 45 نہیں ملے اور پریزائیڈنگ افسروں نے امیدواروں کے نمایندوں کے دستخط کے بغیر یہ فارم ریٹرننگ افسروں کو جمع کرائے۔ جب مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں کے رہنماؤں نے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچایا تو وزیر اعظم عمران خان نے فوری طور پر یہ مطالبہ منظور کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ حزب اختلاف جس حلقہ کو کھولنے کی استدعا کرے گی وہ اس حلقے میں دوبارہ گنتی کی مخالفت نہیں کریں گے مگر جب مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے لاہور کے حلقہ سے عمران خان کی کامیابی کو چیلنج کیا اور ریٹرننگ افسر نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا حکم دیا تو عمران خان نے اعلیٰ عدالت سے حکم امتناعی لے لیا۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حزب اختلاف نے انتخابی دھاندلی پر شور شرابا کیا تو حکومت نے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی جس پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مساوی اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ حزب اختلاف کے اراکین الزام لگاتے ہیں کہ حکومت نے اس کمیٹی کو فعال نہیں ہونے دیا اور ابھی تک کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرنس (T.O.R) نہیں بن سکے۔ اب حزب اختلاف نے اپنے اراکین کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کمیٹی سے مستعفیٰ ہو جائیں۔

پاکستان میں 1970کے انتخابات کے علاوہ باقی تمام انتخابات متنازعہ رہے، 2018کے انتخابات بھی اسی طرح اپوزیشن کی نظر میں متنازعہ رہے۔ الیکشن سے پہلے اچانک بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے اراکین اپنے وزیر اعلیٰ کو چھوڑ گئے اور ایک نئی پارٹی وجود میں آگئی۔ پنجاب سے مسلم لیگ ن کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی میں شکایت کی کہ نامعلوم فون نمبروں سے انھیں کہا جا رہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنی وفاداریاں بدل دیں۔ الیکشن کمیشن نے رپورٹروں اور کیمرہ مین حضرات کی پولنگ اسٹیشن میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ 25 جولائی کو عجیب سماں پیدا ہوا۔

پتہ چلا کہ مخصوص پولنگ اسٹیشنوں میں کلوز ڈور کیمرے لگائے گئے ہیں اور اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیںکہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر لگائے گئے کیمروں نے کام نہیں کیا۔ پولنگ کے اختتام پر جب ووٹوں کی گنتی کا مرحلہ آیا تو بعض امیدواروں نے الزام لگایا کہ ان کے نمایندوں کو اس موقعے پر پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا گیا۔ جب پریزائیڈنگ افسروں نے آر ٹی ایس کے نظام کے ذریعے نتائج الیکشن کمیشن بھیجنے شروع کیے تو اچانک یہ نظام معطل ہو گیا۔ پریزائیڈنگ افسروں کو خود جا کر ریٹرننگ افسرکے دفتر میںیہ نتائج جمع کرانے پڑے، یوں نتائج جاری ہونے کا عمل طویل ترین ہو گیا۔

شروع میں یہ خبریں آئیں کہ نادرا کا نظام معطل ہو گیا تھا۔ نادرا والوں نے وضاحت کی کہ ان کا نظام ٹھیک طور پر کام کر رہا تھا ، الیکشن کمیشن کا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نظام میں خرابی ہوئی تھی۔ 25 جولائی کے انتخابات میں ان  الزامات کا ذکر ذرایع ابلاغ میں تو ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان 2013کے انتخابات میں دھاندلیوں کا چرچا پورے پانچ سال کرتے رہے۔ انھوں نے 2013کے انتخابات کے فورا بعد پنجاب کے قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا مگر مسلم لیگ ن حکومت کی محدود سوچ اور انتخابی قوانین میں نقائص کی بناء پر ان کے مطالبہ کو تسلیم نہیں ہوا۔

عمران خان نے ان مطالبات کو منوانے کے لیے اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دیا۔ وہ کئی ماہ تک ریڈ زون میں روزانہ دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے رہے اور شفاف انتخابی نظام کا مطالبہ کرتے رہے۔ انھوں نے پشاور آرمی پبلک اسکول کے طلبہ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اپنا دھرنا ختم کیا تھا، پھر مسلم لیگ ن کی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان معاہدہ ہوا۔ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کی قیادت میں کمیشن نے انتخابی دھاندلی کے الزامات کو غلط قرار دیا گیا مگر پھر بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات لگاتے رہے۔

انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات نہ ہونے کی بناء پر حزب اختلاف نے سلیکٹڈ وزیر اعظم کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی جس سے سیاسی تناؤ اور بڑھ گیا۔ اٹھارہویں ترمیم میں ایک خود مختار الیکشن کمیشن کا تصور واضح کیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کا انتخاب حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اتفاق سے طے کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کمیشن کو مکمل انتظامی اور مالیاتی خود مختاری دی گئی مگراس کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے اختیارات یکساں رکھے گئے تھے۔

سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی الیکشن کمیشن پر گرفت اسی وجہ سے قائم نہیں ہوئی تھی۔ انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں (N.G.Os) نے خاصی تحقیق کی اور ان تنظیموں کی سفارشات ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی رہیں مگر پارلیمنٹ نے کبھی ووٹر لسٹ سے لے کر انتخابی نتائج کے اعلان تک خامیوں کے بارے میں مکمل طور پر بحث نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ ہر انتخاب کے انعقاد سے پہلے اور انتخاب کے انعقاد کے فورا بعد بحث و مباحثہ ہوتا ہے، الزامات لگتے ہیں پھر سب کچھ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کے بارے میں پارلیمنٹ کی کمیٹی کو فعال نہ کر کے  اپنے انتخابی منشور سے روگردانی کی ہے۔

یوں حکومت کے اس عمل سے 2018کے انتخابات کے بارے میں الزام درست محسوس ہونے لگے ہیں مگر ابھی بھی وقت نہیں گزرا۔ حکومت کو پارلیمنٹ میں انتخابی عمل کو مکمل طور پر شفاف بنانے کے لیے بحث کا آغاز کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میںجامع قانون سازی کے لیے اس موضوع پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں، اساتذہ، صحافیوں، وکلاء اور خواتین کی تنظیموں کے نمایندوں کو مدعوکرنا چاہیے اور ان کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرنی چاہیے۔

حزب اختلاف 25 جولائی کو یوم سیاہ منائے گی۔ جلسے جلوس ہونگے اور حکومت کے جانے کا مطالبہ ہو گا مگر مسئلے کا حل یہ ہے کہ شفاف انتخابات کے لیے نہ صرف جامع قانون سازی کی جائے بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے جامع طریقہ کار بھی طے کیا جائے، تمام سیاسی جماعتیں اور تمام ریاستی ادارے اس جامع طریقہ کار کی حمایت کریں۔ شفاف انتخابات سے حکومت کی تمام ریاستی اداروں پر گرفت مضبوط ہو گی اور عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد قائم ہو گا اور طالع آزما قوتوں کے اقتدار پر قبضے کے راستے بند ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔