حکومت کا آمرانہ طرزعمل

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 24 جولائی 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ 22 سالوں سے وہ کرپٹ عناصر کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے اور یہ خواہش کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایک موقعہ دے اور وہ چوروں کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں۔ اب اللہ نے انھیں یہ موقعہ عنایت فرمایا ہے تو وہ اب کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف کسی کڑے اور بلا امتیاز احتساب کے وہ کتنے قائل ہیں یہ تو ہم سب اُن کے اِس ایک سالہ دور میں جان چکے ہیں، جو اُن کی سیاسی پارٹی میں جائے پناہ لے لے وہ ہر قسم کے احتساب سے بچ جاتا ہے اور جو نہیں آتا وہ احتساب کی زد میں آ جاتا ہے۔ 1996ء میں میدان سیاست میں داخل ہوتے ہوئے وہ جس مشن اور تبدیلی نظام کی باتیں کیا کرتے تھے رفتہ رفتہ وہ سب انھوں نے پس پشت ہی ڈال دیا۔ تعلیم کے میدان میں انقلاب لانے کی ساری باتیں عہد گم گشتہ میں کہیں کھوکر رہ گئیں۔ انا اور خود داری کے سارے دعوے دوسروں کی غلامی ، کاسہ لیسی اور دریوزہ گری میں بدل گئے۔

صاف اور شفاف سیاست کی بھی ساری کہانیاں محض لن ترانیاں ہی ثابت ہوتی گئیں۔ انتخابات میں الیکٹیبلز کے نام پر ہر اُس شخص کو گلے لگا لیا جس میں طاقت اوردولت کے بل بوتے پر اپنے علاقے میں عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی تھوڑی سے بھی صلاحیت موجود ہو۔ لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ جیسے بد نام زمانہ طریق کار کو بھی اپنا کر پہلے قومی اور پھر پنجاب اسمبلی میں اکثریت بھی بنالی۔

اِس مقصد کے لیے اپنی سب سے بڑی مالی امداد فراہم کرنے والی ATM مشین کو جسے اِس ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے نا اہل قرار دیکر انتخابی سیاست سے باہرکر دیا تھا ، استعمال کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔ اپنے مخالفوں کے خلاف ریاستی طاقت کا بے رحمانہ استعمال شروع کر کے وہ سمجھ رہے ہیں کہ اِس طرح وہ اپنے اقتدارکو طول دے سکیں گے حالانکہ انھیں پتہ ہے کہ یہ سب کچھ وہ اپنی صلاحیت، طاقت اور قوت بازوکے بل بوتے پر ہرگزنہیں کر رہے ہیں ۔ یہ توکوئی اور ہی ہے ورنہ کیا مجال تھی خان صاحب اکیلے یہ سب کچھ کرسکتے۔

خان صاحب آج میاں نواز شریف اور اُن کی جماعت کے بہت بڑے دشمن بنے ہوئے ہیں ، جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ 2011ء تک وہ میاں نواز شریف کے کیسے ہم خیال اور ہم نوا بنے ہوئے تھے۔ 2008ء میں تو وہ اُس اتحاد کا حصہ بھی رہے تھے جس نے پرویز مشرف کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا عہد وپیمان کیاہوا تھا۔ اِس لیے اُن کا یہ کہنا قطعی طور پر درست نہیں ہے کہ وہ گزشتہ 22 سالوں سے اِس دن کا انتظار کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایک موقعہ دے اور وہ چوروں اور ڈاکوؤں کا سخت اور کڑا احتساب کرسکیں۔ کہنے کو تو وہ متحدہ قومی موؤمنٹ اور مسلم لیگ (ق) کے بارے میں نجانے کیا کچھ کہہ چکے تھے لیکن حالات کی گردشوں اور مصلحت کی ناہمواریوں نے آج انھیں اِن دونوں جماعتوں سے اتحاد کرنے پر بے بس اور مجبورکردیا ہے۔

قدرت کاکرشمہ دیکھئے جس ایم کیوایم کے لوگوں کو وہ اپنے ساتھ بٹھانے پر راضی و رضا مند نہ تھے آج اُن سے بڑھ کرکوئی اور نفیس سیاستداں انھیں دکھائی ہی نہیں دے رہا ۔ اِس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کو اتنی بڑی بڑی باتیں اور بڑے بڑے دعوے ہرگز نہیں کرنے چاہئیں۔ پتہ نہیں کون سے گھڑی انھیں کتنا گرنے اور گڑگڑانے پر مجبورکردے۔خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج جس زعم اور غروروتکبر کے ساتھ اپنے مخالفوں کو لتاڑ رہے ہیں اور احتساب کے نام پر جس انتقام کا بازار گرم کررہے ہیں ہوسکتا ہے وہ زیادہ دن نہیں چل پائے اور حالات اچانک پلٹا کھا لیں۔

یہ درست ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے لوگ چوروں اور ڈاکوؤں کا احتساب چاہتے ہیں لیکن ایسا احتساب نہیں جس میں اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کو چھوڑ دیا جائے اور صرف مخالفوں کی صفوں پرکاری ضرب لگایا جائے۔ ہمارے لوگ اِس حکومت کے عزم کی پختگی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ محاسبہ اندھا،گونگا اور بہرہ ہو۔اِس میں کسی دوست اور دشمن میں کوئی فرق برتا نہیں گیا ہو۔کوئی کرپٹ شخص اپنے تعلق، قد وقامت اور شجرہ نسب کی وجہ سے بچ کر نہ نکلے۔ تبھی جا کر کڑے اور بے لاگ احتساب کی یہ بیل منڈھے چڑھ پائے گی۔

انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بھی شخص کوبلاتحقیق و تصدیق راہ چلتے اُٹھا لیا جائے اور نوے دنوں تک قید میںرکھ کر اُس کی عزت و عظمت کو داغ دار کردیا جائے۔اگر کسی نے واقعی کوئی جرم کیا ہے تو بے شک اُسے سزا دلوائیں۔ لیکن کسی پر جھوٹے الزامات لگا اور زبردستی بند کرکے بلاوجہ کڑے احتساب کا ڈھونگ نہیں رچایاجائے۔ رانا ثناء اللہ ہوں یا سابق وزیر اعظم شاہد خاقاں عباسی یا پھر جناب سعد رفیق کسی پر بھی ابھی تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے اور حکومت انھیں کئی ماہ سے اُن کے جائز انسانی حقوق سے محروم کیے ہوئے ہے۔

حالات اور واقعات کبھی یکساں نہیں رہتے۔یہ صورتحال زیادہ دنوں تک نہیں رہنے والی۔ ویسے بھی آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا اقتدار کسی کا مرہون منت ہے۔ لوگوں کو زبردستی بند کر کے اپنے حق میں یکطرفہ جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے آپ کچھ دن خیروخوبی سے گزار تو سکتے ہیں لیکن تکبرورعونت کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔دنیا میں آپ سے پہلے بھی بہت سے ڈکٹیٹر پیدا ہوتے رہے۔

سب کو عارضی اور جز وقتی کامیابی بھی نصیب ہوتی رہی ، لیکن بالآخر اُن کا انجام بھی عبرت ناک ہی رہا۔اقتدار اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی گئی آزمائشوں میں سے ایک بہت بڑی آزمائش ہوا کرتا ہے۔اِسے اپنی قابلیت، کامیابی یا خوش قسمتی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنوارنے اور بگاڑنے کا بہت بڑا ذریعہ بنتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ اِس کے نشے میں اپنی دنیا اور آخرت سنوارتے ہیں یا باقی ڈکٹیٹروں اور آمروں کی طرح اقتدار واختیارات کی قاہرانہ قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گور رسوائی کے تاریک اندھیروں میں خود کو لاکھڑا کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔