غیر قانونی درآمد کئے گئے غیرملکی پودے انسانوں اور ماحول کے دشمن بن گئے

پاکستان میں 700 سے زائد بدیسی پودوں کی اقسام موجود ہیں جن میں سے کئی اقسام مقامی پودوں اور جانوروں کے لیے خطرہ ہیں


/ July 24, 2019
پرندے بھی پردیسی درختوں پر گھونسلے نہیں بناتے فوٹو: ایکسپریس

غیر قانونی طریقے سے درآمد کئے گئے کئی اقسام کے لاکھوں پودے ناصرف ہماے ماحول اور جڑی بوٹیوں کے دشمن بن گئے ہیں بلکہ انسانوں میں بھی کئی اقسام کی بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔

لاہور کی نرسریوں میں آپ کو کئی اقسام کے غیرملکی پودے نظرآتے ہیں۔ یہ تمام اقسام کے پودے غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں درآمد کئے گئے ہیں تاہم اب گزشتہ 2 سال سے پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے غیر ملکی پودوں کی غیر قانونی طریقے سے درآمد کی اجازت نہ ملنے سے ان پودوں کی درآمد کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ اسمگل شدہ غیر ملکی پودوں میں کئی ایسے ہیں جو جلدی امراض اور دمے سمیت مختلف بیماریوں کے سبب بنتے ہیں جبکہ مقامی فصلوں اورپودوں کے لئے بھی نقصان دہ سمجھے جاتے ہیں۔
پنجاب میں اس وقت پودوں کی سیکڑوں نرسریاں قائم ہیں جہاں مقامی پودوں کے علاوہ غیرملکی پودے بھی فروخت کئے جاتے ہیں۔ غیرملکی پودوں کی چند اقسام ان ڈور استعمال کے لئے ہوتی ہے، یہ پودے گھر اور کمرے کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں اور آرائش کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں تاہم کئی غیرملکی پودے ایسے ہیں جو گھروں کے صحن ، باغات اورگرین بیلٹس میں لگائے جاتے ہیں۔



غیرملکی پودے چین ،تھائی لینڈ، ہالینڈ، بھارت، سری لنکا اور یورپی ممالک سے منگوائے جاتے تھے۔ ان غیرملکی پودوں میں اگلومینا، لکی بیمبو، انتھونیم، بون زئی ، کنیرین پام، فنیکس سیلویسٹا، کاپرنیسیا، بوکس پلانٹ، آئیلکس پلانٹ اور اولیو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹرڈاکٹر اے ڈی عابد نے بتایا کہ ہم نے کسی بھی غیر ملکی پودے کی درآمد پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ۔ کوئی بھی شخص قانونی تقاضے پورے کرکے غیر ملکی پودے درآمد کرسکتا ہے۔ جس ملک سے پودے درآمد کئے جانے ہوں وہاں کی حکومت ہمیں ان پودوں کی تفصیلات فراہم کرتی ہے کہ یہ پودے کس ماحول میں پرورش پاتے ہیں، انہیں کس قدر درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے ، ان پودوں پرکس قسم کے پھل یا پھول آتے ہیں اس کے علاوہ کون سے کیڑے ان پودوں پرحملہ آور ہوتے ہیں۔ ان تفصیلات کے بعد ہم اپنے مقامی ماحول ،آب وہوا اور جس جگہ وہ پودے کاشت کئے جانے ہوتے ہیں وہاں کاتجزیہ کرتے ہیں۔ اگرمحکمہ یہ سمجھے کہ غیرملکی پودوں کی وجہ سے ہماراماحول متاثر ہوسکتا ہے ، یا وہ پودے ہمارے ماحول میں پروان نہیں چڑھ سکیں اوریہ کہ ان پودوں پرحملہ آور ہونیوالے کیڑے ہماری مقامی فصلوں اورپودوں کونقصان پہنچاسکتے ہیں توپھرایسے پودوں کی درآمدکی اجازت نہیں دی جاتی۔



بدقسمتی سے گزشتہ برسوں میں غیرقانونی طریقے سے کئی اقسام کے لاکھوں پودے پاکستان درآمد کئے گئے جن کی وجہ سے ہماری مقامی اقسام ،ماحول اورجڑی بوٹیوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ کئی اقسام کی بیماریوں نے بھی جنم لیا ہے۔

لاہورمیں ڈائمنڈنرسری کے مینجراشفاق نے بتایا کہ حکومت نے دوسال سے بدیسی پودوں کی درآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان پودوں میں مختلف اقسام کی ڈیزیز سامنے آئی تھیں۔اس وقت نرسریوں میں وہ پودے موجود ہیں جو 2 سال پہلے منگوائے گئے تھے۔ زیادہ ترپودے انسانوں اورماحول کے لئے اچھے ہوتے ہیں تاہم چندایک ایسے ہیں جو نقصان دہ ہیں، ایک غیرملکی پودا ایک ہزار روپے سے لیکرایک لاکھ روپے تک میں دستیاب ہے تاہم بیرون ملک کئی پودے ایسے بھی ہیں جن کی مالیت 25 ،30 لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے۔



نرسری میں کئی برسوں سے بطورمالی کام کرنیوالے محمدراشد نے بتایا کہ غیرملکی پودوں کی دیکھ بھال زیادہ کرنا پڑتی ہیں ، ان کو کس وقت پانی دینا ہے ، کھاد ڈالنی ہے اور گوڈی کرنی ہے اس کا باقاعدہ چارٹ بناتے ہیں۔ اسی طرح انہیں موسم کی شدت سے بھی بچانا پڑتا ہے، زیادہ ترپودے ایسے ہیں جو بہت زیادہ سردی اور بہت زیادہ گرمی میں ختم ہوجاتے ہیں۔اس کے لئے پھر ہم گرین نیٹ استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں غیر ملکی پودوں کا باقاعدہ ریکارڈ دستیاب نہیں لیکن ایک اندازہ کے مطابق یہاں 700 سے زائد بدیسی پودوں کی اقسام موجود ہیں جن میں سے کئی اقسام مقامی پودوں اور جانوروں کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم گل توت ہے جس سے انسانوں میں الرجی پیداہوتی ہے۔ پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں الرجی شکارہونیوالے 45 فیصدافراد گل توت سے متاثرہوئے تھے۔ اسی طرح کیکرکے درخت نے ببول اورشیشم سمیت کئی مقامی جڑی بوٹیوں کی افزائش کومتاثرکیاہے۔ جنوبی امریکہ سے درآمد شدہ واٹر فرن اور گل بکاؤلی کی وجہ سے سندھ کے آبی ایکو سسٹم کونقصان پہنچا ہے ،افریقا سے درآمدشدہ کونو کارپس کی وجہ سے پولن الرجی اوردمہ کی بیماری پھیلتی ہے، ماہرین کے مطابق کونو کارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ کونو کارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے ہیں۔



چندبرس پہلے سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر حکومت کی طرف سے یوکلپٹس اور چائنا پاپولر بے دریغ کاشت کیے جاتے تھے جن کے گرے ہوئے پتوں سے مقامی پودوں کی نشونما متاثر ہوتی تھی جس کے بعد ان پودوں کی شجرکاری روک دی گئی تھی۔



ماہرین کے مطابق جب غیر ملکی پودے کسی اور جگہ کاشت کیے جاتے ہیں تو اکثر ناموافق آب و ہوا اور آپس کے مزاج میں مماثلت نہ ہونے کے سبب تصادم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا کسی دوسرے خطے کی نباتات کو اپنے ہاں متعارف کرانے سے پہلے اس پر تجربات کیے جانے چاہئیں اور ان کے نقصانات اور فوائد کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں زراعت اور باغبانی کے ماحول کو فصلوں اور باغات کے لیے زیادہ سے زیادہ موافق بنانے کے لیے دیگر کئی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہر علاقے میں ماحول موافق اور ماحول دوست درخت اور پودے لگانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں یا کسی بھی شہر میں درخت یا پودے لگاتے ہوئے اس علاقے یا شہر کے فطری ماحول کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔

مقبول خبریں