کراچی کے دکھ کون شیئر کرے گا؟

ایڈیٹوریل  جمعرات 1 اگست 2019
یہ الم ناک کتھا اس شہر قائد کی ہے جو پاکستان کا اقتصادی انجن اور وطن عزیز کی امنگوں کا مرکز ہے۔ فوٹو: فائل

یہ الم ناک کتھا اس شہر قائد کی ہے جو پاکستان کا اقتصادی انجن اور وطن عزیز کی امنگوں کا مرکز ہے۔ فوٹو: فائل

طوفانی بارشوں نے ملک کے معاشی مرکز کی جڑیں ہلا دیں۔ ایسا فزیکل اور ڈیموگرافیکل دردناک منظر نامہ کسی برسات میں نظر نہیں آیا۔ہر طرف کثیر جہتی بے بسی اور شہریوں کی حرماں نصیبی یاد آئی۔ بلاشبہ بارش نے کراچی کو اپنے تاریخی شہر آشوب سے دوچار کردیا ہے۔

شہر قائد میں دو دن کی بارش نے سات عشروں کے درد والم کی داستان یوں رقم کردی کہ میئر کراچی وسیم اختر نے بے بس ہوکر وفاق سے مدد مانگ لی، شہر میں دوسرے روز بھی بارش ہوئی،مزید 10 جاں بحق ہوئے، سیلابی ریلے سے موٹر وے کا ایک حصہ زیر آب آیا ، جن ماہرین نے اربن فلڈ کا خطرہ ظاہر کیا تھا وہ اپنے اس استدلال پر قائم رہے کہ بدھ کو بھی بارش کا سلسلہ جاری رہتا تو شہر کے ڈوبنے ہی کی حسرت باقی رہ جاتی۔

میئر کراچی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے تعاون نہیں کیا،اور نہ ہی کام کرنے دیتی ہے ، شہر کا انفرا اسٹرکچر زبوں حال ہے اور موجودہ صورتحال کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شہر کے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد بتایا کہ فلڈ کو روکنا اصل مسئلہ تھا، حکومت اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش اور انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ سندھ اور مقامی حکومت کراچی کے اقتصادی،طبعی،افرادی اور انسانی و بلدیاتی مسائل سے لاتعلقی اوربلیم گیم کے گھناؤنے چکر سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکی ہیں ،اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ واقعی سندھ حکومت نے وسائل اور انتظامات کی شیئرنگ بارش سے پہلے کی ہوتی،بارش سے بچاؤ کے موثراقدامات دو طرفہ بنیادوں پرہوتے ،ندی نالوں کی صفائی ایک ماہ پہلے مکمل کی جاچکی ہوتی، سالڈ ویسٹ سمیت انجینئرنگ سمیت نکاسی آب کے انتظامات کی شفافیت کویقینی بنایا جاتا تو اتنا بڑا ڈزاسٹر ہرگز نہ ہوتا، پھر سوال سندھ حکومت اور مقامی گورنمنٹ کے درمیان چپقلش کا ہے۔

فنڈز کی عدم فراہمی اور بلدیاتی و دیگر اہم اداروں کی افراط وتفریط پر میئر کراچی کی برہمی بھی قابل غور ہے، لیکن کسی کو اس بنیادی اسٹرکچر پر بھی غورکرنا چاہیے کہ واٹر بورڈ کی ذمے داری کیاہے، کیا ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے پاس سفید ہاتھیوں کی فوج ظفر موج کسی آفت کا سدباب کرنے کے لیے سڑکوں پر نہیں آسکتی تھی، وہ جدید ترین آلات ، پمپ کہاں غائب رہے جو نکاسی آب کے لیے لازمی سمجھے جاتے ہیں، سیلابی ریلا نشیبی علاقوں ، گھروں اور متصل آبادیوں میں داخل ہوتا رہا اور ریسکیوکے لیے پاک فوج حاضر تھی ، ان کا آپریشن جاری رہا،گوٹھوں کے مکینوں کو لائف بوٹوں کی مدد سے محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا۔

کاروبار زندگی مفلوج رہا، کوئی ہولناک اور مسلسل موسلادھار یا طوفانی بارشوں کا قیامت خیز منظر ایسا کچھ نہ تھا کہ سندھ حکومت اور مقامی حکومتوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے۔میڈیا کے مطابق اولڈ سٹی ایریا میں گندا پانی دکانوں اور گوداموں میں داخل ہوگیا، 80فیصدمارکیٹوں کی دکانیں بند رہیں، ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم زمیں بوس ہوگیا۔ بدھ کو قیوم آبادچورنگی پرہولناک ٹریفک جام رہا ۔کراچی میں بارش میں کرنٹ لگنے سے 5 بچوں سمیت 17افراد جاں بحق ہوئے، ادھر کراچی میں مون سون کی متواتر بارشوں سے گڈاپ اور کیماڑی کے تمام ڈیم برساتی پانی سے بھر گئے ہیں۔

گڈاپ ٹاؤن میں واقع تھڈو ڈیم اور لٹھ ڈیم اوورفلو ہونے سے سپرہائی وے ، لنک روڈ ، سعدی ٹاؤن و دیگر رہائشی علاقے زیر آب آگئے ہیں، سکھن نالے پر قائم ڈھنڈو ڈیم میں خطرناک حد تک بڑا شگاف پڑنے سے برساتی پانی کے ریلے دیہہ ڈھنڈو اور دیہہ درسنہ چنوکے کئی گوٹھوں میں داخل ہوگئے ہیں جس سے سیکڑوں مکین متاثر ہوگئے ہیں، لٹھ ڈیم سے سیلابی ریلہ آبادی کی جانب بڑھنے پر پاک فوج نے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا ، کراچی میں اوسطاً بارش 71ملی میٹر ریکارڈ کی گئی، کراچی کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے، بارش بند ہونے کے متعددگھنٹے گزرنے کے بعد بھی زیریں سندھ کے مختلف شہروں میں مکمل طور پر بجلی بحال نہ ہو سکی،بجلی کی طویل بندش کے خلاف شہری سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ الم ناک کتھا اس شہر قائد کی ہے جو پاکستان کا اقتصادی انجن اور وطن عزیز کی امنگوں کا مرکز ہے۔ شہری کراچی کی کس کس بات کا رونا روئیں ،ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا بتائیں۔کوئی سننے والا بھی تو ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جس نے کراچی کو نظر انداز کیا ہے، ذمے دار اسٹیک ہولڈرز بھی شہر کے دکھ کو محسوس نہیں کرتے۔ یہ صورتحال تو حکمرانوں کے لیے سوالیہ نشان ہے آخر کب کراچی کا مقدر چمکے گا۔کب اسے ایک بار پھر ایشیا کے صاف ستھرے اور گریٹ میگا سٹی کا اعزاز حاصل ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔