ملکہ قلعے میں تھی

حمید احمد سیٹھی  بدھ 14 اگست 2019
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

انسان صبح گھر سے نکلتا ہے تو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ٹانگوں، بائیسکل، اسکوٹر، موٹر کار، بس، رکشہ، ویگن اور ریلوے ٹرین میں سے کسی کو استعمال کرتا ہے۔ ہوائی سفر کے لیے بھی بیان کردہ کسی ذریعے کا استعمال لازم ہے جب کہ اب گھوڑے، گدھے یا اونٹ کی سواری چند علاقوں تک محدود ہے۔ ہیلی کاپٹر البتہ ایسی سواری ہے جو حکمرانوں اور امراء کے لیے مخصوص ہے۔ میں ابھی ’’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘‘ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ ابھی ایک پڑائو لندن کا تھا۔

2019 میں ساری دنیا کے ممالک کا درجہ حرارت گرم رہا یہاں تک کہ جون جولائی اگست میں جو میرا ہیوسٹن‘ اٹلانٹا‘ ڈیٹرائٹ اور کینیڈا اور اب لندن کا دورہ ہوا ہے۔ ہر شہر میں گرمی تھی۔ پاکستان سے تو شدید گرمی اور بارشوں کی خبریں آتی رہیں، ماسوائے لندن کے کسی دوسرے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ تسلی بخش نہیں بلکہ یہاں سنگل اور ڈبل ڈیکر بسوں کی بہترین سہولت ہے۔ اگرچہ سڑکیں امریکا جیسی کھلی اور کشادہ نہیں لیکن اس کے باوجود فٹ پاتھ بلکہ سائیکل ٹریک بھی ہیں، انھی سڑکوں پر پچاس فٹ لمبے ٹرک بھی دوڑتے ہیں۔

لندن میں گزارے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران فٹ پاتھوں پر ہر روز چلنے کا اتفاق ہوا۔ یہ فٹ پاتھ یہاں کی ہر سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ان پر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر مجھے ایک رات جب بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی اور میں اپنے شہر کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ایک ڈھکن کے بغیر گٹر میں جا گرا تھا، یاد آیا تو دل میں شرمسار ہوا۔ پھر جب ایک موٹر کاروں کے شو روم کی سامنے والی دیوار پر Tesla کار کی فلم چلتے دیکھی جو ایک اشتہار تھا تو گزشتہ سال امریکا کے شہر فلوریڈا میں ایک عزیز کی Tesla کار میں جو پٹرول کے بجائے بجلی سے چارج ہو کر چلتی تھی  Ride لینا یاد آ گیا۔

اب اس کار کی انڈسٹری بڑھتی جا رہی ہے اور مانگ بھی لیکن قیمت زیادہ ہے۔ دیکھیں پٹرول سے امیر ہونے والے ممالک کب الیکٹرک ٹیسلا آ جانے کے بعد متاثر ہوتے ہیں۔ صرف موٹر کار ہی نہیں ہر شعبے میں نئی سے نئی اصلاحات اور ایجادات میں خدائے برتر کی پیدا کی ہوئی مخلوق یعنی اشرف المخلوقات نے تو ترقی کی ایسی منزلوں کی طرف سفر جاری رکھا ہوا ہے جو گزشتہ صدی کی مخلوق کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوںگی۔

Tesla  کار کے ذکر پر امریکا اور اب لندن میں ٹریفک سسٹم کے حوالے سے مشاہدہ بتایا ہے کہ ہمارے ہاں کی ٹریفک کے برعکس یہاں موٹر بائیک‘ ٹرک وغیرہ کے ڈرائیوروں نے ٹریفک رولز کا خود پر اتنی سختی سے اطلاق کر رکھا ہے کہ کوئی گاڑی اوور ٹیکنگ نہیں کرتی۔ ہارن کی آواز سننے کو نہیں ملتی اور پارکنگ کی جگہ پر کوئی گاڑی سفید لکیر کے اوپر کھڑی نہیں کی جاتی۔ جب کہ ہمارے ہاں یہ پانچوں خلاف ورزیاں جہالت اور فخر کی نشانیاں ہیں۔ اور عجب بات کہ موٹروے نامی سڑک پر ہر موٹر ڈرائیور ان پانچوں رولز پر عمل درآمد کرتا ہے۔ بالکل ایسے جس طرح ہر پاکستانی یورپ، امریکا، برطانیہ میں قانون اصول اور ضابطے کا پابند پایا جاتا ہے۔

یہاں ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر ہیوی جرمانہ ہی نہیں لائسنس معطلی کی سزا بھی ہو سکتی ہے جب کہ جرمانہ چھوڑیے نصف سے زیادہ پاکستانی ڈرائیور وہاں بغیر لائسنس موٹر اور موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور اکثر افراد نے بغیر ٹیسٹ دیے سفارش یا رشوت کی بنیاد پر لائسنس حاصل کیا ہوتا ہے۔ کینیڈا میں ایک سینئر انجینئر کو تین بار ڈرائیونگ ٹیسٹ میں اس لیے فیل کیا گیا کہ وہ سامنے والے اور دو سائیڈ Mirrars  پر بیک وقت نظر نہیں رکھتا تھا۔ یہاں لوگوں کی طرف سے دکھائی جانے والی  Courtesy کا مظاہرہ ایک بار پھر دیکھا کہ وقار احمد باسط ہمیں کسی جگہ لے جانے کے لیے آیا ایک بغیر سگنل چوک سے دائیں طرف مڑنے کے لیے اس نے کار کا انڈیکیٹیر دیا تو سامنے سے آتی گاڑیاں رک گئیں اور باسط ہاتھ ہلا کر ان کا شکریہ اداکرتے ہوئے مڑ گیا۔ امریکا میں ٹریفک دائیں اور  لندن میں بائیں ہاتھ ہے۔

امریکی اپنی شناخت منوانے کے لیے اور بھی کئی کام الٹے کرتے ہیں۔ ہمارا بجلی کا سوچ آف ہو تو ان کا آن ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارا باتھ روم ٹائلٹ بھی ان کا ریسٹ روم کہلاتا ہے لیکن جس چیز کا مظاہرہ ہم جیسے  Visitors کو سڑک پر بھی نظر آ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ رستہ دو یہاں کی Courtesy دوسرے کو ہر جگہ کہتی دیکھی جا سکتی ہے کہ ’’رستہ لو‘‘ موٹر کا ذکر تو چھوڑیے اگر کوئی پیدل جاتا شخص بھی سڑک پر قدم رکھ دے تو وہ محفوظ ہے کیونکہ آتی جاتی موٹریں بھی اسے رستہ دینے کے لیے اس کے احترام میں رک جاتی ہیں۔

لندن میں اردو پنجابی کی ادبی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ایک ایسی ہی محفل میں شرکت کی دعوت پر ڈاکٹر نصیر احمد مجھے گزشتہ روز لے گئے اس محفل مشاعرہ کا انعقاد ہیومن رائٹس کے علمبردار سر ڈاکٹر افتخار احمد ایاز کی رہائش گاہ پر تھا جہاں پندرہ کے قریب اردو کے شعراء نے حصہ لیا۔ مشاعرہ اور وہ بھی پاکستان سے باہر یعنی انگریزوں کے شہر میں میرے لیے دلچسپ اور روح افزا تجربہ تھا جو لطف بیرون ملک اردو مشاعرے نے دیا وہ تو قابل ذکر یقیناً ہے لیکن اس کے بعد ملک سے دور جو لذت بریانی زردے اور چکن روسٹ نے دی اس کے لیے بھی میزبان تعریف کے مستحق ہیں۔

لندن شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر دنیا کا سب سے قدیم اور بڑا قلعہ Wrindsar Cartte ہے جہاں مجھے ارسلان مرزا لے گیا، موسم گرما میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ بکنگھم پیلس کے  بجائے مذکورہ قلعے میں قیام کرتی لیکن پیلس کا دورہ بھی کرتی ہیں، اس وسیع و عریض اور شاندار قلعے کے دروازے ماسوائے ملکہ کی رہائش گاہ کے ٹورسٹوں کے لیے ٹکٹ پر مقررہ اوقات پرکھلے ہیں۔

قلعہ کے نزدیک بے شمار ریستوران اسٹور اور یاد گاری اشیاء کی دکانیں تھیں جو بظاہر غیر ملکی سیاحوں سے بھری ہوئی تھیں۔ حیرت ہوئی جب کھانا کھاتے اور چھوٹی موٹی شاپنگ کرتے ہمیں ایک شخص بھی اپنے جیسا نظر نہ آیا۔ قلعہ نہ صرف بلند اور وسیع بلکہ پر شوکت بھی تھا اس میں برطانیہ کی عظمت رفتہ نظر آتی تھی قلعے پر جھنڈا Full Mast لہرا رہا تھا یعنی ملکہ اندر تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔