ہم ایک ہیں

شکیل فاروقی  بدھ 14 اگست 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

14 اگست 1947 کو وہ حسین خواب شرمندہ تعبیر ہوا جو مصور پاکستان علامہ اقبال نے کرشمہ قدرت سے دیکھا تھا اور جسے قائد اعظم نے حقیقت کا روپ دے کر پوری دنیا کو حیران کردیا۔

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران

اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان

فرنگی حکمرانوں کی غلامی کے ایام کی بعض تلخ یادیں ہمارے ذہن پر آج تک نقش ہیں انگریزی زبان میں نمایاں طور پر یہ عبارت تحریر ہوتی تھی کہ:

“Dogs and Indians not allowed”۔ یعنی ’’کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فرنگی حکمرانوں کی نظر میں ہماری حیثیت کتوں کے برابر تھی۔ یہ امر بھی قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ اگر قائد اعظم کی دور اندیش قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام عمل میں نہ آیا ہوتا تو برصغیر کے تمام مسلمانوں کی مٹی بھی آج بھارت کے متعصب قوم پرست حکمرانوں کے ہاتھوں اسی طرح پلید ہوتی جس طرح بھارتی مسلمانوں کی ہو رہی ہے۔ قائد اعظم نے جو کبھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیرکہلاتے تھے، برصغیر کی ہندو قیادت کی متعصب ذہنیت سے بخوبی آگاہ ہوئے اور اس کے مکروہ عزائم کو بھانپنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ ایک الگ مملکت کا قیام ناگزیر ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انتہا پسند ہندو قیادت جس میں ویر ساورکر، مونجے،گوروگولواٹکر اور بال گنگادھر تلک جیسے مسلم دشمن لوگ شامل تھے، مسلمانوں کو ملیچھ (ناپاک) قرار دے چکے تھے۔ان کا ماننا تھا کہ برصغیرکے مسلمان ہندوستان کے اصل باسی نہیں بلکہ محض حملہ آور ہیں اور اس لیے انھیں ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔انتہا پسند ہندو جماعت راشٹریہ سوئم سنگھ المعروف آر ایس ایس (RSS) کے قیام میں یہی لوگ پیش پیش تھے۔موجودہ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی لگامیں اسی آر ایس ایس کے ہاتھوں ہیں۔

ہندوستان کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور مقبوضہ کشمیرکی تحریک آزادی کوکچلنے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 35A کے خاتمے کی مذموم تحریک کے پس پشت بھی آر ایس ایس ہی کا دست ناپاک کارفرما ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی ناپاک مہم بھی آر ایس ایس ہی کے ایما پر چلائی جا رہی ہے۔

گؤ ہتیا (گائے کشی) کا جھوٹا الزام لگا کر بھارت کے مسلمانوں کو زدوکوب کرنے کے واقعات میں بھی آر ایس ایس ہی ملوث ہے۔تعلیمی اداروں میں ہندوانہ ماحول کو فروغ دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مسلمان طلبا کے لیے نت نئی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ایک تازہ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ایک عزیز جب اپنے بچے سے ملنے کے لیے اتفاقاً اس کے اسکول پہنچے تو اس وقت اسکول میں پرارتھنا (Prayer) ہو رہی تھی جس کے الفاظ تھے:

بندر مجھے بنا دے رام

چھوٹی پونچھ لگا دے رام

چار و ناچار بچے کو اسکول سے اٹھانا پڑا۔ابھی گزشتہ دنوں ایک مسلمان کو زبردستی ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے پر مجبورکیا گیا۔نریندر مودی کے بھارت میں مسلمانوں کوکسی نہ کسی بہانے دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ادھر مقبوضہ کشمیر میں کسی نئی سازش کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس کے حوالے سے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے صدائے حق بلندکی ہے اور دنیا بھرکے انصاف پسند حلقوں سے بھارتی حکمرانوں کو ان کے مذموم عزائم سے باز رکھنے کی پرزور اپیل کی ہے۔ بھارت میں ہندوگردی کا راج ہے اور عام مسلمانوں کی اوقات دَلِتوں اور شُودَروں سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوکو مسلمان کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں۔

بی جے پی شرکا نے مسلمانوں سے منافرت کو حد سے زیادہ بڑھا دیا ہے، جس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوؤں کی انتہا پسند تنظیم ’’ہم ہندو‘‘ کے بانی پنڈت اجے گوتم کی ایک ویڈیو حال ہی میں وائرل ہوئی ہے جس میں انھوں نے ایک مسلمان کو دیکھتے ہی اپنی آنکھیں بند کرلیں۔اسی نوعیت کا ایک اور تازہ ترین واقعہ اس وقت پیش آیا جب بھارت کی حصا چھاؤنی میں کام کرنے والے تین مسلمان مزدوروں کو جن کا تعلق یوپی کے مشہورشہر مظفر نگر سے ہے پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کا من گھڑت الزام لگا کر حراست میں لے لیا گیا۔ بھارت میں کسی بھی مسلمان کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر کسی بھی وقت گرفتارکرلینا ایک عام سی بات ہے۔ بقول مرزا غالب:

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

بھارت کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود بھارتی مسلمان نوجوان بے روزگاروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔اس بدسلوکی اور ناانصافی کی وجہ سے ان میں مایوسی اور فرسٹریشن تیزی سے پھیل رہی ہے جو نفسیاتی اعتبار سے ان کے اور ان کے خاندان والوں کے لیے انتہائی خطرناک اور منفی رجحانات کو پیدا کرنے اور فروغ دینے کا باعث ہوسکتی ہے۔

بھارتی مسلمانوں کی یہ ناگفتہ بہ صورتحال ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ اگر پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو اس خطے کے مسلمانوں کی حالت بھی بھارتی مسلمانوں کی طرح ہمہ یارانِ دوزخ جیسی ہوتی اور وہ بھی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہورہے ہوتے۔ پاکستان کا قیام ہم سب کے لیے اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام ہے جس کے لیے ہم اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔

ہمیں بانیان پاکستان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے اپنی بے لوث اور بے مثل قیادت کے ذریعے ایک آزاد وطن کا انمول تحفہ عطا کیا جو دنیا بھر میں نہ صرف ہماری شناخت اور پہچان ہے بلکہ اسلام کا قلعہ بھی مانا جاتا ہے۔ پاکستان کو عالم اسلام کی اولین ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جس پر پوری امت مسلمہ کو بڑا فخر ہے۔ اس عظیم کارنامے کا سہرا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے رفقائے کار کے سر ہے جنھوں نے وطن عزیز کو اپنے ازلی دشمن بھارت سے ٹکر لینے کے قابل بنادیا۔

ڈاکٹر صاحب کی بے لوث اور بے مثال خدمات کے اعتراف کا قرض ہم پر بحیثیت قوم ابھی واجب الادا ہے۔ یہ ہمارے ایٹمی قوت ہونے کا ہی کمال ہے کہ بھارت ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے سے ڈرتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ہمیں لقمہ تر سمجھ کرکب کا نگل چکا ہوتا۔

ہر سال وطن عزیز کا یوم آزادی جب بھی آتا ہے فلیش بیک کے انداز میں ماضی کا لہو میں ڈوبا ہوا منظرنامہ ہماری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے جب قیام پاکستان کی تاب نہ لاکر انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے تربیت یافتہ غنڈے نہتے مسلمانوں پر مشرقی پنجاب، یوپی، بہار اور دلی میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ بس اک قیامت صغریٰ برپا تھی۔اس وقت ہم اپنے خاندان کے ساتھ پرانی دلی کے ایک گنجان محلے میں مقیم تھے اور ہماری عمر چھ سال سے کچھ اوپر تھی۔

ہمیں یاد ہے کہ دلی کے فساد زدہ علاقوں بشمول سبزی منڈی، چونا منڈی، پہاڑ گنج اور ترول باغ کے علاقوں سے لٹے پٹے ہمارے رشتے دار اپنی عزت اور جان بچا کر ہمارے گھر آکر ٹھہرے تھے۔ ہمارے کانوں میں ہندو سکھ بلوائیوں کے رات کی تاریکی میں گونجتے ہوئے ’’جے شری رام اور ست سری اکال‘‘ کے خوفناک نعروں کی گونج بھی ابھی تک محفوظ ہے جن کا منہ توڑ جواب ’’اللہ اکبر‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے دیا جاتا تھا جس سے دشمن پر ہیبت طاری ہوجاتی تھی۔

ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں رات کا وہ سناٹا بھی ابھی تک محفوظ ہے جب کئی روز کے کرفیوکے دوران کراس فائرنگ کی گونج میں ہمارے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی تھی۔ ہمیں برسات کی وہ رات بھی کبھی نہیں بھولے گی جب موسلا دھار بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور ہمارا خاندان پرانے قلعے کے پناہ گزین کیمپ کے باہر کھلے آسمان تلے اسپیشل ٹرین کے ذریعے نوزائیدہ مملکت پاکستان روانگی کا منتظر تھا۔

بے سروسامانی کی حالت میں میرے نوزائیدہ چھوٹے بھائی کی جان بچانے کے آخری حربے کے طور پر ہمارے والد صاحب نے اسے اپنے اوورکوٹ کی بڑی جیب کے اندر چھپا دیا۔ یہ تو صرف ایک چھوٹا سا واقعہ تھا جو برسبیل تذکرہ ہم نے قیام پاکستان کے حوالے سے آپ کے ساتھ شیئر کرلیا۔ اصل قربانیاں تو ان ماؤں ، بہنوں کی ہیں جن کے سہاگ اجڑ گئے، جن کے ماں باپ اور بہن بھائی ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے اور جو اپنے پیارے وطن پاکستان کی خاطر اپنے گھر بار لٹا کر خون کے دریا عبورکرکے دیوانہ وار آگئے:

ہوا سے اتنی محبت کہ ہم نے بے سوچے

گھروں سے رکھ دیے لاکر چراغ صحرا میں

مودی سرکار نے بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت پر جو شب خون مارا ہے اس نے محبوبہ مفتی جیسی بھارت نواز کشمیری رہنما کو دو قومی نظریے کی صداقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو ان عظیم قربانیوں سے روشناس نہیں کرایا جن کے نتیجے میں یہ وطن معرض وجود میں آیا ہے۔

آئیے! اپنے پیارے وطن کی آزادی کی سالگرہ کے موقعے پر اس عہد کی تجدیدکریں کہ ہم اس کی سلامتی اور حرمت پرکوئی آنچ نہیں آنے دیں گے اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھتے ہوئے دشمن کے تمام مکروہ عزائم کو ناکام بنا دیں گے۔

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔