خود پر یقین

وجاہت علی عباسی  پير 23 ستمبر 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

زندگی میں بیشتر لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ صحیح نہیں ہوپاتا۔ آپ کیا حاصل کرسکتے ہیں، زندگی میں کون سی کامیابی آپ کا مقدر بن سکتی ہے۔ اس کا درست طرح ناپنا لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے، کلاس میں کوئی نہ کوئی آپ سے بہتر نمبر لانے پر آپ کو احساس دلاتا ہے کہ وہ طالب علم آپ سے بہتر ہے، اس کی پوزیشن پر نہ پہنچ پانے پر آپ خود کو درمیانہ طالب علم مان لیتے ہیں وہ Average اسٹوڈنٹ جو زندگی بھر درمیانہ انسان بن کر رہتا ہے۔ نوکری میں کسی اور کو آپ سے زیادہ تنخواہ یا ترقی ملنے کی وجہ سے آپ انجانے میں اپنی زندگی کو چھوٹی سی ’’ریس‘‘ بنا لیتے ہیں جس میں صرف ان دو تین لوگوں سے مقابلہ کرنے میں اپنے برسوں ضایع کردیتے ہیں جو شاید آپ سے زیادہ ذہین نہیں ہیں۔

کچھ دن پہلے ہم نے انگریزی کی ایک فلم دیکھی جس کا نام تھا “Jobs” یہ فلم ایپل کمپنی بنانے والے اسٹیو جابس کی زندگی پر مبنی ہے۔ اسٹیو جابس ایک عام سے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لڑکے تھے جو طالب علم بھی Average تھے اور اپنا کالج بھی ختم نہیں کرپائے لیکن خود پر یقین اور مسلسل کوشش سے وہ حاصل کیا جو کسی کے لیے بھی ناممکن ہوتا۔ آج ’’ایپل‘‘ دنیا کی سب سے اعلیٰ اور قیمتی کمپنی مانی جاتی ہے جسے اپنے گیراج سے شروع کرکے ڈیڑھ سو بلین کی کمپنی کو ایک عام سے لڑکے نے بنایا۔

بی بی سی نیوز چینل پر ایک خبر دیکھی۔ چار پاکستانی لڑکے انگلینڈ میں ہیروئن اسمگل کرتے ہوئے پکڑے گئے، ان لڑکوں نے ایک نیا طریقہ نکالا تھا اسمگلنگ کے لیے۔ وہ انگلینڈ کی رائل میل کے ذریعے آٹھ ٹالکم پاؤڈر کی بوتلیں پاکستان بھیجتے تھے۔ یہ پارسل جب پاکستان پہنچتا تو ان کے ساتھی ان بوتلوں سے پاؤڈر نکال کر ہیروئن بھر دیتے اور پھر ان کو سیل کرکے پیکٹس پر “Undelivered” لکھ کر واپس انگلینڈ بھیج دیتے۔ پارسل واپس پہنچتا تو رائل میل والے سمجھتے کہ شاید پاکستان کا ایڈریس غلط تھا۔ اس لیے واپس آگیا ہے اور وہ پارسل جس کی بوتلوں میں ٹالکم پاؤڈر کی جگہ ہیروئن ہوتی بھیجنے والوں کو انگلینڈ میں واپس مل جاتا۔ یہ اسکیم کافی عرصے چلتی رہی اور اسمگلنگ کرنے والے 3.9 ملین پاؤنڈز کی ہیروئن اسمگل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن پھر رائل میل نے ان پیکیجز کا نوٹس لینا شروع کردیا اور تفتیش کے بعد سارا معاملہ سامنے آگیا۔ دو مہینے کیس عدالت میں چلنے کے بعد چاروں پاکستانی لڑکوں کو بیس سے پچیس سال کی جیل ہوگئی۔

سزا پانے والے سارے ہی لڑکے تیس سے اکتیس سال کی عمروں کے تھے۔ ذہین لڑکے جو مختلف سوچ رکھتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ چیزوں کو کس طرح الگ ڈھنگ سے کیا جاسکتا ہے لیکن وہ جلدی بہت سا روپیہ کمانے کی لالچ میں غلط کام کر رہے تھے جس کا انجام برا ہوا۔ ان سب ہی لڑکوں کی اخبار میں تصویر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتنا کچھ زندگی میں حاصل کرسکتے تھے جو انھوں نے نہیں کیا۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزار کر گمنام ہوجانے کے بجائے یہ کچھ ایسا کرسکتے تھے کہ جس سے یہ دنیا کو بہتر بناتے انسانیت کے لیے کچھ اچھا کرتے دنیا میں ہمیشہ اپنا نام رکھتے۔

’’ایپل‘‘ بنانے والے پچپن (55) سال کی عمر میں دنیا سے چلے گئے مگر چھوٹی سی زندگی میں اسٹیو جابس کئی بڑے سبق دے گئے۔ ان کا سب سے اہم پیغام 2005 میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر میں ملتا ہے۔ اس تقریر میں انھوں نے وہ باتیں کی تھیں کہ اگر انھیں کوئی شخص اپنی زندگی کا حصہ بنالے تو اسے کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اسٹیوجابس اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ جب انھوں نے بیس سال کی عمر میں اپنے والدین کے گھر کے گیراج میں جو کمپنی بنائی وہ دس سال میں چار بلین ڈالرز کی کمپنی بن گئی لیکن پھر ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے خود انھیں ہی کمپنی سے نکال دیا۔ ان حالات میں کوئی بھی شخص ٹوٹ جاتا لیکن اسٹیو نے اسے چیلنج سمجھ کر خود کو سنبھالا اور آگے بڑھتے گئے جس کے کچھ عرصے بعد وہ پھر اپیل کے ’’سی ای او‘‘ بنے یعنی کہ فیل وہ ہوتا ہے جو ناکامی کو قبول کرلے اگر اسے زندگی کا محض ایک موڑ سمجھ کر آگے بڑھ جائے تو وہ Failure آپ کی زندگی نہیں ماضی کا ایک حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔

اسٹیوجابس نے اپنی اس تقریر میں کہا تھا کہ زندگی کی سب سے اچھی تخلیق موت ہے۔ یہی وہ سچ ہے جو سمجھاتا ہے کہ آپ کا وقت محدود ہے، ایک Average زندگی میں پچیس تیس ہزار دن ہوتے ہیں۔ گنی ہوئی صبحیں، گنی ہوئی شامیں۔ آپ اپنے محدود قیمتی دنوں کو کسی اور کی زندگی جی کر نہ گزاریں۔ اپنی زندگی کی کہانی میں ایک ہیرو کی جگہ ایکسٹرا بن کر نہ رہ جائیں۔

صبح اٹھ کر خود سے پوچھیں۔ آج جو میں کام کرنے جارہا ہوں کیا وہ میں دل سے کرنا چاہتا ہوں اور اگر کئی دن تک اس کا جواب ’’نہیں‘‘ ہو تو آپ کو اپنی زندگی میں بدلاؤ لانا چاہیے۔

انسان اس کام میں بہت کامیاب ہوسکتا ہے جس کا اسے جنون ہو کیوں کہ ہر کام میں مشکل وقت آتا ہے اور مشکل وقت سے لڑنے اور کامیابی سے آگے بڑھنے کے لیے ’’جنون‘‘ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دوسروں کی بنائی زندگی کے اصولوں کو اپناکر بس ایک عام سے انسان بن کر نہ رہ جائیں۔

زندگی کتنی قیمتی ہوتی ہے یہ اس وقت احساس ہوتا جب وہ ہمارے پاس کم رہ جاتی ہے یا پھر محدود ہوجاتی ہے جیسے ان چار پاکستانی لڑکوں کی جنہوں نے ہیروئن اسمگل کرکے زندگی میں پیسہ کمانے کے لیے شارٹ کٹ لیا اور پھنس گئے۔

کتنی مثالیں ہیں دنیا میں ایسے لوگوں کی جو اسٹیو جابس کی طرح کامیاب ہوئے وہ لوگ جنھیں خود پر یقین تھا اور وہ دنیا بدل پائے۔ کچھ ایسا کر پائے جس سے وہ ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھے جائیں گے۔ زندگی میں شارٹ کٹس کو بھول کر خود پر یقین رکھیں۔ وہ کامیابی جس کی ہم کو تلاش رہتی ہے وہ ہمارے اندر ہی کہیں چھپی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔