آئیے نریندر مودی سے ملیے

خالد محمود رسول  جمعـء 30 اگست 2019

نریندر مودی کے ساتھ کوئی بہت ہی سنگین نفسیاتی مسئلہ ہے۔ وہ اپنی ذات کے عشق( Self love )کا  منفرد کیس ہے۔ ملک کے چوٹی کے چار نفسیات دان مل کر اس کی نفسیات میں جھانکنے کی کوشش کریں تو شاید ان کی شخصیت کچھ سمجھ میں آئے۔

موصوف اپنا ذکر ہمیشہ صیغہ غائب یعنی Thrid person میں کرتے ہیں حالانکہ دوسری طرف خود نمائی کا یہ عالم ہے کہ موصوف ایسا سوٹ پہنے ہوئے بھی ہوتے ہیں جس کے تانے بانے کی بنائی میں ان کا پورا نام دکھائی دیتا ہے۔ نریندر مودی اپنے آپ کو پہلے مرہٹہ بادشاہ چیتر پاتھی (بادشاہ) شیوا جی سے بھی کہیں برتر سمجھتے ہیں۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت کے ان گوشوں پر بات کرنے والا کوئی عام شخص نہیں ہے کہ اسے  محض پروپیگنڈا یا سیاسی رقابت کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ بھارت کے چوٹی کے تاریخ دان، مہاتما گاندھی کی سوانح حیات کے اسکالر، مصنف اور معروف یونیورسٹی استاد ہیں؛  رام چند گوہا جن کا تعلق بنگلور سے ہے۔

تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔ دنیا کی چند مشہور ترین یونی ورسٹیوں میں بطور وزیٹنگ پروفیسر پڑھاتے رہے ہیں جن مین امریکا کی  یونی ورسٹیYale , Stanford, UC Berkley کے علاوہ برطانیہ کی معروف یونیورسٹیE LS بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر گوہا دنیا بھر میں اپنے مضمون سے متعلق لیکچر اور گفتگو کے لیے ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔

اور کیوں نہ لیا جائے؟ ان کی گفتگو اور خیالات ہی اتنے چونکا دینے والے ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بی جے پی حکومت کے پسِ منظر میں دو ہفتے قبل ان کا واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون چھپا جس کا عنوان ہی چونکادینے والا تھا: بھارت ایک معجزاتی جمہوریت تھی لیکن اب اس کی یہ حیثیت ڈاؤن گریڈ ہونی چاہیے!!!

تاریخ کے ماہر کے طور پر ان کا بنیادی خیال یہ ہے کہ انڈیا کبھی سپر پاور نہیں بن سکے گا اور نہ اَسے بننا چاہیے۔ موجودہ انڈیا ایک ملک نہیں بلکہ بقول ایک برطانوی تاریخ دان یہ ایک برِ اعظم ہے۔ اس میں قدرتی طور پر ایک قوم ہے ہی نہیں، مذہب، زبان، رہن سہن، کھانے پینے، رسم و رواج سے لے کر اس میں اس قدر تنوع ہے کہ بقول ان کے India is an unnantural Nation and least likely a democracy ۔

پانچ اگست کے روزِ سیاہ مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر میڈیا میں معتدل بات کرنا بہت مشکل تھا، اسی شب ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر رام گوہا نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی۔ یہ سراسر ریاست کے طاقت کا بے جا اور غلط استعمال ہے۔

حکومت سوا کروڑ لوگوں کے بارے میں فیصلہ کر رہی ہے اور وہ اس پورے عمل  میں شامل ہی نہیں۔ ریاستی اسمبلی موجود نہیں، کشمیر کی تمام سیاسی قیادت اندرہے، گورنر حکومت کا اپنا نامزد ہے اور کشمیری عوام کا نمایندہ نہیں۔ اور اس سب پر طرفہ تماشا کہ سوا کروڑ عوام کو گھروں میں بند کرکے اس فیصلے کو تھوپا گیا ہے۔  یہ ایک خطرناک رجحان ہے، آج یہ کشمیر کے ساتھ ہو رہاہے کل کسی اور ریاست کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی، ایسے قوانین پر غور و خوض اور بحث ناگزیر ہے اور ان لوگوں کی شمولیت بھی جن  کے بارے میں یہ فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔

جواہر لعل نہرو نے پچاس کی دِہائی کے اوائل میں شیخ عبداللہ کو گرفتار کیا او ر کشمیری عوام کے سامنے انھیں رسو اء  کیا۔ بعد میں اندرا گاندھی نے بھی 1966 میں شیخ عبد اللہ  کو گرفتار کیا۔ اس وقت جے پرکاش نارائن کے مشورے کے باوجود اندرا گاندھی نے چھ سال بعد ا نہیں رہا کیا۔ راجیو گاندھی نے1987میں الیکشن میں دھاندلی کرکے ان کی جماعت کے حامیوں کو ہروایا۔

اس کے برعکس اٹل بہاری واجپائی نے بقول ڈاکٹر گوہا نے آزادانہ الیکشن کروائے اور کشمیری عوام کے ساتھ سیاسی معاملات کو آگے بڑھانے کا وعدہ کیا۔ نریندر مودی اپنے اقدامات کے اعتبار سے نہرو خاندان کی تقلید کر رہا ہے نہ کہ اٹل بہاری واجپائی کی۔

نریندر مودی کا رول ماڈل 17 ویں صدی کا پہلا مرہٹہ بادشاہ چیتر پاتھی وشوا جی ہے۔ بقول داکٹر گوہا نریندر مودی کو یہ گمان ہے کہ پہلے ہندو بادشاہ کے پاس تو ہندو سلطنت کے لیے قدرے چھوٹا علاقہ تھا لیکن وہ اپنے تئیں پہلا حکمران ہے جو پورے بھارت کا فرماںروا ہے۔ شیوا جی 1630کے لگ بھگ ایک مرہٹہ خاندان میں پیدا ہوا، شیوا جی کے ایک  طرف گولکنڈا کی عمل داری تھی تو دوسری جانب بیجا پور کے حکمرانوں کی۔ مغلوں کے زوال کا زمانہ ء آغاز تھا۔

شیوا جی نے ان جنگوں میں عادل شاہی حکومت سے  کافی بڑا علاقہ قبضے میں لے لیا۔ اپنے علاقے پر قبضے کو قانونی حیثیت دینے اور اپنے ہمسر جنگجوؤں سے اپنے آپ کو ممتاز اور محفوظ کرنے کے لیے اس نے بادشاہت کا تاج پہننے کا فیصلہ کیا۔ یوں وہ تاریخ میں پہلا ہندو بادشاہ کہلایا۔ اس نے اپنے دربار میں قدیم درباری ہندو رسوم و رواج رائج کیے، دربار کی زبان فارسی کے بجائے مراٹھی اور سنسکرت قرار دی۔ چھیتر پاتھی شیوا جی آج بھی مہاراشٹر علاقے میں ایک تاریخی لیجنڈ کے طورپر جانا جاتا ہے۔ تحریک آزادی کے دوران اسے ہندوتوا کی علامت کے طور پر پیش کیا جانے لگا ۔

نریندر مودی کا اپنا ماضی بھی دلچسپ ہے۔ گجرات کے ایک معمولی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے اس لڑکے نے چائے کے اسٹال پر اپنے والد کا ہاتھ بٹایا۔ آٹھ سال کی عمر میں اس کا ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس سے تعارف ہوا۔ 1971 میں وہ اس تنظیم سے کل وقتی منسلک ہو گیا۔ 1985 میں اسے اس تنظیم نے اپنی نوزائیدہ سیاسی جماعت بی جے پی میں شامل کروا دیا۔ اس جماعت میں وہ دوسروں کو پھلانگتے ہوئے 2001 میں گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا۔ اسی پوزیشن سے وہ 2014 میں وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہوا۔

ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے ساتھ  گہری وابستگی نے اس کے خیالات میںایک یکسوئی اور جنون بیدا کیا۔ گجرات میں فسادات،پھر مسلمانوں پر قہر نازل کرنے اور ان تمام ہندوؤں کو بحفاظت آزاد کروانے میں اس کی آشیرباد رہی جو ان فسادات میں اعلانیہ شامل تھے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا آر ایس ایس کا بہت پرانا ایجنڈا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں نریندر مودی اس ایجنڈے کو پورا کرنے کا عہد کرتا رہا۔ اب اسے موقع ملا تو اس نے کشمیر کی اس حیثیت کو قانونی و سیاسی اخلاقیات کی تمام حدود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظالمانہ انداز میں ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

یوں اس نے اپنے آپ کو ہندو قوم کی تاریخ میں چھیتر پاتھی شیوا جی سے بھی بڑا حکمران ثابت کرنے کا خواب پورا کر لیا۔تاریخ اب آگے کیا کروٹ لیتی ہے، کشمیریوں پر کیا بیتے گی اور پورے بھارت پر اس جبر کا آنے والے سالوں میں کیا Backlachآئے گا؟ آیندہ چند دِہائیوں میں معاملات کا  بہاؤ طے کرے گا کہ نریندر مودی  کا تاریخ میں کردار ایک ہندو قوم پرست لیجنڈ کا ہوگا یا کچھ اور لیکن ڈاکٹر رام گوہا کی نریندر مودی کی نفسیات کے بارے میں رائے قابل غور ہے۔ نریندر مودی عام انڈین لیڈر نہیں ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔