کرپشن کا دفاع ضرور کریں مگر

سید معظم حئی  جمعـء 30 اگست 2019
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

آپ ذرا خود ہی کچھ انصاف سے کام لیجیے کہ پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیرکا اٹھایا جانا اور اس پہ بحث ہونا تحریک انصاف کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی مکمل ناکامی نہیں تو اورکیا ہے؟ اور تو اور نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، گارڈین، سی این این، بی بی سی اور نجانے کون کون سے دنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی نیوز نیٹ ورک مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پہ ہندو انتہا پسند فاشسٹ مودی حکومت کی ریاستی دہشت گردی پہ خبریں، مضامین اور پروگرام پیش کر رہے ہیں۔

آپ ایمانداری سے دل پہ ہاتھ دھر کے بتائیے کہ کیا یہ سب کچھ ثابت نہیں کرتا کہ وزیر اعظم عمران خان دنیا کو کشمیریوں پہ بھارتی مظالم کے بارے میں جگانے میں بھرپور طریقے سے ناکام ہوچکے ہیں؟

آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ہندو فاشسٹ بھارتی وزیر اعظم مودی اور پاکستان میں دہشت گردی کروانے اور اس کا کھلم کھلا فخریہ اعتراف کرنے والے ہندو فاشسٹ دہشت گرد بھارتی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کو اپنے خاندان کی شادی بیاہ کی تقریبات میں پاکستان بلانا اور ان سے سر جوڑ کر خفیہ بات چیت کرنا، پاکستان کی بھارت کے ساتھ کامیاب پالیسی تھی یا یہ کہ اس طرح صاف صاف وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی ہندو فاشسٹ مودی حکومت سے سرے سے کوئی بات کرنے سے ہی انکار کردیا، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ اف، یہ حکومت پاکستان کے مفادات کو کیسے کیسے نقصانات پہنچا رہی ہے۔

یہ لیجیے جناب ہم تو ابھی اس ناتجربہ کار حکومت کی خارجہ پالیسیوں میں ناکامیوں کا ہی رونا رو رہے تھے کہ یہ دیکھیے اس حکومت نے پاکستان کے ایک نہ دو اٹھاکے پورے 9 ارب 10 کروڑ ڈالر یعنی کوئی ایک ہزار پانچ سو ارب روپے کے قرضے واپس کر دیے، اب اس سے بڑھ کر اس حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی ناکامی کا اور کیا منہ بولتا ثبوت ہوگا؟ بھئی کمال تو تب ہوتا جب یہ حکومت چند سالوں میں پاکستان پر 30 ہزار ارب روپوں کے قرضے چڑھاتی اور وہ بھی اس فنکاری سے کہ کسی کو پتا ہی نہ چلتا کہ یہ تیس ہزار ارب روپے گئے تو کہاں گئے کس کس کی جیبوں اور جعلی بینک اکاؤنٹوں میں کون کون سی ٹی ٹی سے گئے۔

آپ ذرا اس حکومت کی نالائقیت تو ملاحظہ فرمائیں کہ یہ چلی ہے اس ملک کی مادرپدر آزاد بے ہنگم چوری و بے ایمانی بھری معیشت کو دستاویزی معیشت بنانے۔ کیا یہ ملک سنگا پور ہے یا جاپان؟ اب آپ آخر اس حکومت کی کس کسی ناکامی کو روئیں گے، یہ دیکھیں کہ ملک میں انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد دگنی ہوگئی یعنی کوئی سو فیصد اضافہ ہوگیا۔ اس حکومت کی نامعقولیت تو ذرا دیکھیں کہ اس ملک کے فرشتہ صفت تاجروں پہ بڑے لین دین میں شناختی کارڈ کی ظالمانہ شرط لگا دی، اب بھلا یہ بھلے لوگ کیسے بغیر مسئلے کہ اسمگلنگ کا مال خریدیں اور بیچیں گے؟ اس حکومت کو تو خوف خدا چھو کر بھی نہیں گزرا۔

یہ اوپر دی ہوئی کچھ مثالیں کہ جو بتاتی ہیں کہ آج کل کرپٹ سیاسی خاندانوں اور ان کی سیاسی مافیاؤں کے فیملی کالم نگار اور ٹی وی اینکر کس بلا کے دور ابتلا سے گزر رہے ہیں۔ ان وفا کے پتلوں کو عرف عام میں پٹواری اور لفافوں جیسے معتبر خطابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔

ان نابغوں کو آج کل کسی پہلو چین نہیں۔ انھیں اس ناہنجار حکومت کوکسی بھی طرح سے ناکام ثابت کرنا ہے۔اس ناعاقبت اندیش حکومت کو جو انھیں سرکاری دوروں تک پہ مفت میں ساتھ نہیں لے جاتی۔ یہ لوگ طرح طرح کے داؤ پیچ لڑا رہے ہیں، یہ اس حکومت کی کامیابیوں کو بھی ناکامی کا ورق لپیٹ کر پیش کر رہے ہیں۔

یہ ان معاملات تک میں اس حکومت کی ناکامیاں ثابت کر رہے ہیں کہ جن پہ اس حکومت کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں۔ مثلاً آپ وڈیرہ جمہوریت کے عملی طور پہ غلام شہرکراچی ہی کی مثال لے لیجیے۔ یہ بد قسمت شہر پچھلے 11 سالوں سے دیہی سندھ کی نمایندہ پارٹی کی صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اس صوبائی سرکار نے اقتدار میں آتے ہی کراچی کے مخصوص طبقے کے لوگوں اور اس شہر سے اپنا روایتی انتقام لینا شروع کردیا۔

اس نے کراچی کے ٹیکسوں، زمینوں اور فنڈز کے ساتھ ساتھ اس شہر کے ہر اس انتظامی ادارے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا کہ جس سے ذرا بھی ’’مال‘‘ بنانے کا امکان ہو اور اس شہر کے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی۔ اس نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو شہر کی منتخب بلدیاتی انتظامیہ سے لے کر اپنے کنٹرول میں کیا اور کراچی کے لوگ پانی کے لیے ترس گئے جب کہ شہر میں واٹر ٹینکر مافیا کا راج ہوگیا جس کے لیے اس سرکار کے پاس افراط پانی ہے مگر اس شہر کے لوگوں کے لیے نہیں۔

سندھ سرکار نے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بناکر جب سے اپنے کنٹرول میں لیا ہے تب سے کراچی شہر ناجائز تعمیرات کا تاریک جنگل بن کے رہ گیا ہے۔ یہی حال کے ڈی اے کا ہوا جسے سرکار نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس سندھ سرکار نے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ادارہ بھی اپنے کنٹرول میں لیا تو کراچی کچرے کا ڈھیر بن گیا۔

ان تمام شہری اداروں کا مکمل کنٹرول رکھتے ہوئے اس شہر کے تمام مسائل کی ذمے دار صوبائی حکومت ہے تاہم میڈیا کی اس دنیا میں آپ کو ایسے کمال کے فنکار ٹی وی اینکر ملیں گے جو شہر میں گھوم گھوم کر یہاں کے لوگوں کے سوال سامنے لانے کے بجائے لوگوں کے منہ میں اپنے مطلب کا مواد ڈالتے ہیں، یہ 11 سال سے اس شہر پہ اپنا مکمل کنٹرول رکھنے والی صوبائی سرکار کی جگہ ایک سال کی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو کراچی کے مسائل کا ذمے دار ثابت کرتے ہیں جب کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صوبے اب خودمختار راج واڑے ہیں جن پہ وفاقی حکومت کا کوئی زور نہیں۔

اینکر اور کالم نگار اٹھارہویں ترمیم کے تقدس کی اٹھتے بیٹھتے قسمیں کھانے والی پارٹی سے یہ کبھی نہیں پوچھتے کہ اٹھارہویں ترمیم کا مقصد تو ڈی ویلیوایشن آف پاور یعنی اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم تھا تو پھر شہری حکومتوں کو مزید اختیارات دینے کے بجائے ان سے تقریباً تمام ہی اختیارات کیوں چھین لیے گئے؟ کراچی شہر ہر سال صوبائی سرکار کو چار سو ارب کے لگ بھگ ٹیکس دیتا ہے جب کہ این ایف سی ایوارڈ کی مد میں صوبائی حکومت کو جو چار سے پانچ سو ارب روپے ملتے ہیں ۔

ان کا بھی بڑا حصہ کراچی سے وفاق کو ادا کیے گئے ٹیکسوں پہ مشتمل ہوتا ہے یعنی صوبائی حکومت کو کراچی سے سالانہ کوئی چھ سات سو ارب روپے وصول ہوتے ہیں جو 6 سال کے بنتے ہیں کوئی 3500 ارب روپوں سے بھی زیادہ جب کہ حکمران فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے 6 سالوں میں کراچی پہ 126 ارب روپے خرچ کیے۔

اس پہ بھی یہ اینکر و لکھاری صوبائی سرکار سے سوال نہیں کرتے البتہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے لتے لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام ثابت کرنے میں ان کے جوش کی یہ حالت ہے کہ دنیا کی تاریخ تک کو بدل رہے ہیں۔ یہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد نو ہزار بنا دیتے ہیں جب کہ جرمنی کے آخری بڑے حملے بیٹل آف بلج (16 دسمبر 1944 تا 25 جنوری 1945) میں یہی کوئی 90 ہزار کے قریب امریکی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔ کم ازکم تاریخ پہ ہی کچھ رحم دکھائیں۔ آپ بے شک کرپشن کا دفاع کریں مگر لوگوں کی آنکھ میں دھول نہ جھونکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔