کیا اب ٹیلنٹ کی برسات ہو جائے گی؟

سلیم خالق  اتوار 1 ستمبر 2019
ٹھیک ہے بورڈ ڈومیسٹک کرکٹرز سے بھی معاہدے کرے گا مگر پھر بھی بہت سے بے روزگار ہو جائیں گے۔ فوٹو: فائل

ٹھیک ہے بورڈ ڈومیسٹک کرکٹرز سے بھی معاہدے کرے گا مگر پھر بھی بہت سے بے روزگار ہو جائیں گے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ بورڈ کی جب تاریخ لکھی جائے گی  تو اس میں  ہارون رشید کا نام  ابتدا میں ہی شامل ہوگا، اب یہ نہ پوچھیے گا کہ کون سے حروف میں، سابق ٹیسٹ بیٹسمین میں ایک خوبی ہے کہ چیئرمین جو بھی ہو وہ اسے بس میں کر لیتے ہیں اور پھر جو  ہدایت ملے اس پر سو فیصد عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یہی خوبی انھیں سب کی آنکھ کا تارا بنا دیتی ہے،نئی انتظامیہ  نے آتے ہی سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق ڈومیسٹک سسٹم کی تبدیلی کا نعرہ لگایا،اس میں ہارون رشید ہم آواز ہو کر دن رات جت گئے، انھوں نے کل احسان مانی اور وسیم خان کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں اس نئے منصوبے کی تفصیلات بتائیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ  ماضی میں بھی وہ ڈومیسٹک سسٹم میں تبدیلیوں میں پیش پیش رہے اور تعریف میں زمین آسمان کی قلابے ملاتے نظر آئے، پھراپنا ہی بنایا ہوا پلان تبدیل کر دیتے، خیروہ یس مین ہیں اور ایسے لوگوں کو جو حکم ملے ویسا ہی کرتے ہیں۔

پی سی بی نے جو  نئے ڈومیسٹک سسٹم کی تفصیلات جاری کیں،اس کے بعد حکام کا اعتماد دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ اب پاکستانی ٹیم جلد ہی ٹیسٹ میں بھی نمبر ون بن جائے گی، ہمیں ویرات کوہلی جیسے بیٹسمین اور پیٹ کمنز جیسے فاسٹ بولرز ملنے لگیں گے لیکن ہم خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت میں واپس آئیں تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا، آپ دیکھ لیجیے گا چند برس بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں آج ہیں، تب یہ کہیں گے کہ نیا سسٹم ہے نتائج آنے میں وقت لگے گا، پھر چار سال بعد اگر نئی حکومت آئی تو وہ پھر کرکٹ بورڈ انتظامیہ اور نظام تبدیل کر دے گی۔

پی سی بی  کو ایکدم سے اتنی ساری تبدیلیوں سے گریز کرتے ہوئے2،3 سال کاکوئی منصوبہ بنانا چاہیے تھا جس پر آہستہ آہستہ عمل کرتے، ملک ابھی بہت ساری مشکلات میں گھرا ہوا ہے، عمران خان کو انھیں حل کرنے دیں، ان کے منصوبوں پر عمل کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی، آپ 2ہفتے بعد  قائد اعظم ٹرافی شروع کر رہے ہیں اور ابھی پلان کا اعلان ہوا ہے، کاغذ پر تو کوئی بھی لکھ سکتا ہے کہ وہ ایسا ایسا کردے گا جس سے دودھ کی ندیاں بہنے لگیں گی، پڑھنے میں یہ اچھا بھی لگتا ہے مگر عمل درآمد کرتے وقت حقیقت کا علم ہوتا ہے،آپ نے تمام ڈپارٹمنٹس کو ختم کر دیا،16ریجنز کی جگہ اب6 صوبائی ٹیمیں ہوں گی۔

ٹھیک ہے بورڈ ڈومیسٹک کرکٹرز سے بھی معاہدے کرے گا مگر پھر بھی بہت سے بے روزگار ہو جائیں گے، ہر ٹیم کے ساتھ منیجر،کوچ اور دیگر سپورٹنگ اسٹاف بھی ہوتا تھا وہ کہاں جائے گا،موجودہ سسٹم اگر اتنا بُرا تھا تو اس دوران پاکستان نے  بڑے بڑے ایونٹس کیسے جیتے، زیادہ دور کیوں جائیں، یاسر شاہ اور بابر اعظم بھی تو اسی سسٹم سے سامنے آئے، ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی،اگر ورلڈکپ میں سیمی فائنل میں پہنچ جاتے تو کیا یہ نظام ٹھیک کہلاتا؟

کرکٹ ایک کھیل اور پاکستان کے ہر نوجوان کو اسے کھیلنے کا حق حاصل ہے لیکن اب چند خوش نصیب ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل سکیں گے، ڈپارٹمنٹس میں کسی نوجوان کھلاڑی کی بھی کم از کم ماہانہ تنخواہ 50 ہزار روپے ہوتی تھی،بورڈ تو شاید سب کو ہی اتنی رقم دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے، ڈپارٹمنٹل ٹیمیں اب ختم ہو گئی ہیں،آپ یہ امید نہ رکھیں کہ چند سال بعد اگر موجودہ سسٹم پسند نہ آیا تو پھر انھیں واپسی پر قائل کر لیں گے۔

پی سی بی کے پاس بھی قارون کا خزانہ موجود نہیں، وہ ایک حد تک ہی ڈومیسٹک نظام پر رقم خرچ کر سکتا ہے، بعد میں صوبوں کو اپنی آمدنی کا انتظام خود کرنا ہوگا، فی الحال تو مارکیٹ اتنی بڑی نظر نہیں آرہی، پی ایس ایل ٹیموں کو تو اسپانسر ملتے نہیں صوبوں کو کیسے ملیں گے، آپ کہہ رہے ہیں کہ مسابقت سے بھرپور مقابلے ہوں گے تو کیا انھیں دیکھنے شائقین آئیں گے؟

مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا، بورڈ کا مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ قومی ٹیم کیلیے تو اسپانسرز ڈھونڈ نہیں پاتا اور ایک کمپنی کو یہ کام سونپ دیا جاتا ہے، کیا اب وہ 6ڈومیسٹک ٹیموں کیلیے اسپانسر شپ کا انتظام کر پائے گا؟ آپ سرکاری اداروں پر حکومت سے دباؤ ڈلوا کر کسی ٹیم کو اسپانسر کرا لیں گے، مگر پرائیوٹ سیکٹر سے کتنے لوگ سامنے آئیں گے اور اگر آ بھی گئے تو کتنے عرصے ایسا کرتے رہیں گے، پی ایس ایل کی کئی فرنچائزز اپنی مالی ذمہ داریاں تو پوری نہیں کرتیں وہ ڈومیسٹک کرکٹ کو کیسے اسپانسر کریں گی؟

پنجاب کی آپ نے 2 کرکٹ ایسوسی ایشنز بنا دیں سندھ کی صرف ایک  ہوگی،کروڑوں کی آبادی والے شہر کے کرکٹرز اب کہاں جائیں گے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ کو  بہتر بنانے کے بجائے محدود کردیاگیا ہے،اب غریب گھرانوں کے کم ہی کھلاڑی اس کھیل کو اپنائیں گے،  سلیکشن کے معاملات میں بورڈ حکام کہتے ہیں کہ پہلے سفارش کلچر موجود اور پیسے لے کر کھلایا جاتا تھا تو کیا اب ایسا نہیں ہوگا۔

نئے سسٹم میں آفیشلز کے ساتھ پرانے لوگ بھی ہوں گے، جو شہروں کی ایسوسی ایشنز والے تھے اب صوبوں میں آ جائیں گے، دیکھتے ہیں بورڈ کیسے ان پر نظر رکھ پاتا ہے، مگر اب تک تو بورڈ کے معاملات میں بھی زیادہ شفافیت  نظر نہیں آ رہی، ایم ڈی اور ڈائریکٹر میڈیا کے بعد اب کوچزکے نام بھی اشتہار سامنے آنے سے پہلے ہی سب جان چکے ہیں،سب کچھ پہلے ہی طے ہوتا ہے، پہلے بھی ایسا ہی کیا جاتا تھا۔

نئے ڈومیسٹک سسٹم کے حوالے سے ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں اور جلد ہماری ڈومیسٹک کرکٹ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے جیسی ہو جائے، ٹیم ورلڈ چیمپئن بن جائے اور رینکنگ میں ہم نمبر ون ہوں، البتہ ایسا نہ ہونے پر یہ جواز نہ دیجیے گا کہ راتوں رات ایسا  ممکن نہیں، ہمیں تو نتائج چاہئیں،  مجھے یہی ڈر ہے کہ2،3 سال بعد وسیم خان اپنا سامان پیک کر کے واپس برطانیہ چلے جائیں گے اورہماری کرکٹ مزید پیچھے جا چکی ہوگی، دعا تو یہی ہے کہ اﷲ کرے ایسا نہ ہو۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔