بھارت کا خلائی مشن اور ہمارا ’’فطری‘‘ ردعمل !

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 13 ستمبر 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ہمارا سائنسی بجٹ محض 3 ارب روپے (کل بجٹ کا 0.3 فیصد)، ہمارا سائنس کے میدان میں حصہ ’’صفر‘‘، دنیا بھر کی ایجادات میں ہمارا حصہ ’صفر‘، ریسرچ کے میدان میں ہمارے مقالوں کا عالمی معیار ’صفر‘، نئے سائنسی پراجیکٹس کی دوڑ میں دنیا کے سامنے ہماری کارکردگی ’’صفر‘‘، دنیا کے مستقبل ’’روبوٹک ٹیکنالوجی‘‘ میں ہماری کارکردگی ’’صفر‘‘، کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ہمارا حصہ ’صفر‘، ہمارے انجینئر بیروزگار، ہمارے سائنسدان بیکار، ہمارے تخلیقی ذہنوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں اور اگر کچھ ہے تو فنڈز نہیں۔

دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کی سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم و تحقیق پر رینکنگ 37 ویں نمبر پر۔ پاکستانی خلائی تحقیقی ادارہ ’’اسپارکو‘‘ چین کی مدد سے دو ہی موسمی سیارچے خلا میں بھیج سکا ہے۔ جب کہ بھارتی خلائی ادارہ اکیلے ہی 104سیٹلائٹس لانچ کر چکا، سائنس کے شعبے میں ہمیں محض ایک نوبل انعام (ڈاکٹر عبدالسلام کو) ملا۔ الغرض ہم موبائل، کمپیوٹر، آن لائن مارکیٹنگ اور دیگر بہت سے سائنسی شعبوں میں دنیا سے کم و بیش 20 سال پیچھے ہیں لیکن تنقید کرنے والوںمیں ہمارا نمبرپہلے 10نمبروں میں آتا ہے۔

ابھی پچھلے ہفتے ہمارے روایتی دشمن بھارت کا چاند پر مشن ’’چندریان2‘‘ ناکام ہوا تو ہم نے اس کا جشن یوں منایا کہ جیسے چند پاکستانی چاند پر پہلے سے ہی رہائش پذیر ہوں ہم نے چندریان 2کو اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا کہ میں خود خوفزدہ ہو گیا تھا کہ اگر یہ مشن کامیاب ہو جاتا تو ہم کہاں منہ چھپاتے! خیر ہمارا یہ رویہ عیدین کے چاند دیکھنے کی روایات کے ساتھ اسے جوڑا گیا جو چاند دیکھنے پر متفق نہیں وہ چاند پر پہنچنے کے حوالے سے تنقید کر رہی ہے۔

لیکن میں اپنی بے بسی کا رونا تو رو سکتا ہوں ناں !کہ ہم کہاں کھڑے ہیں! رہی بات بھارت کی تو یقین مانیں اُس کا مشن چاند سے محض 2.1 کلومیٹر دوری پر فیل ہو گیا، یعنی کامیابی کا فاصلہ محض 2 کلومیٹر رہ گیا ہے، جب کہ ہم ابھی تک ’’صفر ‘‘پر کھڑے ہیں اور ہم نے زمین سے چاند تک کا فاصلہ جو 3لاکھ 84ہزار کلومیٹر بنتا ہے ابھی طے کرنا ہے۔ جون ایلیا کے بقول

آپ ایک اور نیند لے لیجے

قافلہ کوچ کر گیا کب کا

میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم نے ’’دماغ‘‘ کا استعمال کیوں ترک کر دیا ہے، حالانکہ دنیا میں جتنے قابلِ ستائش کام ہوئے  وہ سب کے سب دماغی محنت کا نتیجہ ہیں۔ ہم خیر سے اُن گِنے چُنے معاشروں میں سے ہیں، جنہوں نے دماغ کی محتاجی بہت پہلے ترک کر دی ہے! ماہرین کہتے ہیں کہ روئے ارض پر جیلی فِش 65کروڑ سال سے ہے جو دماغ کے بغیر 65 کروڑ سال سے بقاء یقینی بنانے میں کامیاب رہی ہے! جیلی فش کے علاوہ کورلز، اسٹار فش، سی ارچنز، سینڈ ڈالرز، سیپیاںاور دوسری بہت سی مخلوق بھی باضابطہ دماغ کے بغیر جی رہی ہے۔ سوال 65 کروڑ سال کا ہے۔

65 کروڑ سال اور وہ بھی دماغ کے بغیر! یہ بات ہمارے اپنے معاشرے کے اُن لوگوں کو اچھا خاصا سکون عطا کرنے کے لیے کافی ہے، جو دماغ کم کم ہی استعمال کرتے ہیں۔ ارے بھئی شرمانا کیا؟ کیا جیلی فش شرماتی ہے؟ بالکل نہیں۔ تو پھر کسی ہم جیسے پاکستانی کو شرمانے کی کیا ضرورت ہے؟

آج کا پاکستان دماغ یا ذہن کے بغیر کام کر رہا ہے۔ اور دنیا دیکھ لے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا ہے! لوگ جی رہے ہیں اور خوب کھا، پی رہے ہیں۔ تو پھر کیسا دماغ اور کہاں کا ذہن؟ اب کون ہے جسے دماغ کی حاجت یا ضرورت محسوس ہو؟ اب کسی بھی معاملے میں دماغ کو ’’زحمتِ کلام‘‘ دینے کی روایت توانا نہیں رہی۔ اسی لیے دیکھ نہیں رہے کہ ہمارا ملک کس قدر ترقی کر رہا ہے۔ بغیر دماغ کے تو ہمارا حال بازار میں اُس جنس جیسا ہوگیا ہے جس کی قدر و قیمت ہی ختم ہوچلی ہو، اُسے بازار میں کون منہ لگائے گا؟

لہٰذا ہم دماغ کے بغیر شاید یہ بھول گئے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں جو تجربات ہوتے ہیں اس سے کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے اپنے ڈیٹا شیئر کرتے ہیں۔ اور کیا ہمیں نصابی کتابوں کے وہ مضامین یاد نہیں جن میں ’’ڈارون‘‘ کے غلط نظریات پڑھائے جاتے ہیں۔ اور ان کتابوں میں خاص طور پر بتایا جاتا ہے کہ فلاں سائنسدان کا یہ نظریہ غلط ثابت ہوا تھا۔

ایسا غلط نظریات والے سائنسدانوں کی تشہیر کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ اُن کی کاوشوں کو یاد رکھا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ ان کے تجربے سے انسانیت کودر پیش خطرات سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ اسی طرح تھامس ایڈیسن نے ہزار کے قریب کوششوں کے بعد بلب ایجاد کیا۔ تحقیق نہ ہو تو دریافت و تخلیق کیسے ہو۔تحقیقات جدت کو رائج کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ،تحقیقات پر خرچ کرنے والے آج دنیا میں سرفہرست ہیں۔

اور رہی بات خلائی مشن کی تو مشہور امریکی سائنسی جریدے نے خلاء میں بھیجے جانے والے مشن کو خطے کے لیے ’’عظیم کاوش‘‘ قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ آج تک جو مشن چاند کے لیے روانہ کیے گئے تھے وہ سب کے سب کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ صرف 60 فیصد مشن کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی موقعوں پر ناکامی بھی ہاتھ آئی ہے۔

اور اگربھارت کا خلائی مشن کا یہ تجربہ کامیاب رہتا تو وہ دنیا کا چوتھا ملک ہوتا جس کا خلائی مشن چاند پر اترا ہو جب کہ روبوٹک روور کی مدد سے آپریٹ کرنے والا دنیا کا تیسرا ملک ہوتا۔جب کہ پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ہے جنہوں نے خلائی مشن کے حوالے سے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں ہے۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارے لیے یقیناً سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک، جس نے ہمارے ساتھ آزادی حاصل کی، وہ پہلے منگلیان، پھر چندریان اور اب گگن یان کے ذریعے خلاء کو تسخیر کرنے میں مصروف ہے ۔

بہرکیف بے جا تنقید تو ہر جگہ ہوتی ہے۔پہلے یہ تنقید گلی، محلوں اور دکانوں میں ہوا کرتی تھی۔دنیا میں سوشل میڈیا کا استعمال بڑھتے ہی، یہ تنقید تیزی سے پھیلنا بھی شروع ہوگئی۔ایسی ہی تنقید پاکستان کے زیر سمندر گیس اور معدنیات کے ذخائر کی دریافت میں ناکامی کے باعث بھی سامنے آئی۔ کیکڑا ون کے مقام پر5560 میٹر زیر سمندر کھدائی پر چودہ ارب روپے خرچ ہوئے۔ مخالفین نے حکومت کو اس ناکامی پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہمارا رویہ ایسا رہا تو کیا ہم ٹیکنالوجی کی دنیا میں خودمختار بن پائیں گے؟ہمارے ہاں تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والوں کامستقبل کیا ہے؟سوچنا ہوگا!المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں بڑا طبقہ (انھیں پڑھا لکھا کہنا شاید درست نہ ہو) یہ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے کہ، چاند پر لینڈنگ محض افسانہ ہے۔تو عرض ہے کہ، کیا دنیا میں امریکا کی تحقیق کی بنا پر برتری بھی محض ڈرامہ ہی ہے؟ متعدد تحقیقی مراکز، بڑی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بھی محض افسانہ ہی ہیں کیا؟اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں سیٹلائٹ کے نظام سے بھی منحرف ہونا چاہیے۔حتی کہ ہمیں پھر فنی و تکنیکی علم کی جستجو ہی نہیں کرنی چاہیے۔

ایسے لوگ دہائیوں پہلے موبائل فون اورہوائی جہاز کو بھی افسانہ ہی سمجھتے ہوں گے۔مگر وقت کے ساتھ تحقیقات سے حاصل ہونے والی جدت سے مستفید ضرور ہوتے ہوں گے۔اللہ تعالی نے دنیا میں انسانی عقل اور حیرت کے لیے بہت کچھ بنایا ہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ، ہم اللہ کی تخلیقات کی کھوج کریں یا پھر منکر ہوکر غور و فکر ہی چھوڑ دیں۔پنجابی کا محاورہ ہے کہ، ’’عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں،عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں‘‘۔ ہم مسلمان تحقیقات سے بہت دور ہو چکے ہیں۔جب کہ مسلم تاریخ میں کئی سائنسدان گزرے ہیں۔جو تحقیق کی دنیا میں آج بھی زندہ ہیں۔یورپ نے تحقیق کی بدولت ہی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ امریکا دنیا کے ذہین دماغ  استعمال کرتا ہے۔

انھیں اچھا معاوضہ دے کر تحقیقات کرا تا ہے۔ وہی قومیں دنیا کی دوڑ میں شامل رہیں گی،جو جدت کو ساتھ لے کر چلیں گی۔جس کو خود کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو،وہی دوسروں کی ناکامیوں پر خوش ہو سکتا ہے۔ مگرہم تو ایسے نہیں ہیں۔ ہر گز نہیں!

ہماری ترجیحات ابھی تک یہی ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پِلانے۔ ہماری تعلیم کا یہ معیار ہے کہ آج ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ بھی مون لینڈنگ (چاند پر انسان کے اترنے) جیسے واقعات کا انکار کرتا ہے۔ اب وقت ہے فیصلہ کیا جائے کہ ہمیں کنویں کا مینڈک بنے رہنا ہے یا حقائق کو تسلیم کرنا ہے۔

ہمیں ماننا پڑے گا کہ دنیا کو ہمارے خلاف سازشوں کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ دنیا کو اس قوم سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا جو ذہنی طور پر مفلوج ہوچکی ہو۔ دوسروں کی کامیابیوں اور اپنی ناکامیوں کو سازش کہہ کر آنکھیں بند کرلینے سے ہم کوئی کمال نہیں کررہے۔ ہم کیوں ایسی قوم بن چکے ہیں جس کا موجودہ ترقی میں ایک فیصد حصہ نہیں، لیکن اس کے باوجود دوسروں کی کامیابی پر تالیاں بجانے کے بجائے ہم کان بند کرلیتے ہیں۔ ہم اس حد تک فرسٹریشن کا شکار کیوں ہوچکے ہیں؟ ہمیں یقیناً اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی، وگر نہ ہمیں اپنے خاتمے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔