دھرنا اور اسمبلیوں سے استعفے؟

رفیق پٹیل  جمعـء 20 ستمبر 2019

پاکستان میں ازسر نو انتخابات کے مطالبے کو منوانے کے لیے اپوزیشن کی کچھ سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرکے اسلام آباد کو بندکرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ ممکنہ طور پر اکتوبر میں یہ سلسلہ شروع ہوگا۔اس سلسلے میں چارٹر آف ڈیمانڈ پرکام جاری ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ مطالبات کس سے ہوں گے، یہ واضح نہیں ہے درمیانی مدت کے انتخابات کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی۔

جس کے لیے وزیر اعظم عمران خان صدر پاکستان کو مشورہ دیں گے۔ متعلقہ وزرائے اعلیٰ گورنرکو مشورہ دیں گے۔ ساتھ ہی قومی اور صوبائی سطح پر وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے اپوزیشن کے ساتھ مشورے اور اتفاق سے نگران حکومتیں قائم ہوں گی جو تین ماہ کی مدت میں انتخابات کے عمل کو مکمل کریں گی۔

اس کے علاوہ تبدیلی کا راستہ نہیں ہے۔ دیگر طریقہ کار یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عدم اعتماد کی تحاریک لائی جائے اور ایوانوں کے اندر سے تبدیلی ہوجائے۔ ایک اور صورت یہ ہے کہ اعلیٰ عدالت وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو نا اہل قرار دے دے۔ اور تمام ایوانوں میں اپوزیشن کامیابی حاصل کر لے۔ پھرکوئی رکن اسمبلی مستعفیٰ ہو اور مولانا فضل الرحمن کو کامیاب بناکر اسمبلی میں لایا جائے۔ یا پھر نئے وزیر اعظم مولانا فضل الرحمن کو مشیر مقررکر دیں۔ ایک اور صورت یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں دھرنا دیا جائے اور پھر ایسا ماحول تیارکیا جائے کہ اپوزیشن کے تمام اراکین اسمبلیوں سے ایک ساتھ مستعفی ہوجائیں۔

جب دھرنے میں وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے گا اور جواب انکار میں ہوگا تو اپوزیشن اپنے اراکین کو مجبور کرے گی کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں۔ لیکن ایسی صورت میں اگر اراکین تیار نہ ہوئے تو اپوزیشن کے دھرنے یا آزادی مارچ کی صورت ایک جلسے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگی جس میں تقاریر ہوں گی اور انھی گاڑیوں میں لوگوں کو واپس ان کے علاقوں میں بھیج دیا جائے گا جہاں سے ان کا سفر شروع ہوا تھا۔ ٹی وی اور اخبارات میں دو چار روز تذکرہ رہے گا۔ اس کے بعد کسی نئے موضوع پر بات ہوگی۔

موجودہ آئین کے تحت حکومت کی تبدیلی کو تقریباً ناممکن بنادیا گیا۔ یہ تبدیلی وقت مقررہ پر انتخابات کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل آئین میں صدر مملکت کے پاس اسمبلیوں کی برطرفی کا اختیار تھا۔ جسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اتفاق رائے سے ختم کر دیا تھا۔ تصوراتی گفتگو اور خیالی انقلاب کی حد تک میڈیا میں ایک بیانیہ تیار ہو سکتا ہے لیکن کسی جلسہ عام اور مارچ سے حکومت تبدیل نہیں ہوگی۔

حکومت مکمل طور پر ناکام بھی ہوجائے ایسی صورت میں بھی غیر آئینی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ایک طویل دھرنا دیا تھا اور وہ یہ مطالبہ بھی نہ منوا سکے کہ انتخابی عمل میں بے قاعدگیوں کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کی جائے۔ جتنا زیادہ نقصان تحریک انصاف کو اس وقت ہوا تھا ایسا سیاسی نقصان ان کی سیاسی تحریک کا سب سے بڑا نقصان تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی ہوا کے رخ کو دیکھ کر پیچھے ہٹ چکی ہے وہ مولانا فضل الرحمن کو رہنما کردار دینے پر آمادہ نہیں ہے اسی طرح مسلم لیگ (ن) بھی بھرپور شمولیت کے لیے آمادہ نہیں ہے۔

اس بات کا امکان ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے جلسہ عام میں رسمی شرکت کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی آمادہ ہوجائیں۔ لہٰذا مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ ایک معمول کی سیاسی سرگرمی ہوگی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں رفتہ رفتہ کمزور ہو رہی ہیں۔ خود برسر اقتدار تحریک انصاف نظم وضبط سے محروم ہے۔

تحریک انصاف نے مخلوط حکومت کے ذریعے اقتدار کے حصول میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ لیکن اپنی سیاسی جماعت کو کسی نظم کے تابع نہیں کرسکی ہے۔ یہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے باعث تشویش ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان ایک طرف یہ ہدف رکھتے ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی جس کے بعد پاکستان ایک منظم اور مہذب معاشرے کی شکل اختیار کرے گا۔ لیکن خود تحریک انصاف ہی غیر منظم اور قواعد و ضوابط کی پابند نہ ہوگی۔ ایسی صورت میں وزیر اعظم عمران خان اپنا ہدف کیسے حاصل کریں گے۔

مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی اندرونی خلفشارکا شکار ہیں یہ اندرونی خلفشار اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو روز بروزکمزورکر رہا ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ دونوں سیاسی جماعتوں کے پاس متبادل سیاسی قیادت کی کمی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمات میں زیر تفتیش ہیں جس کا اثر پوری جماعت پر ہے۔

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بھی خطرے میں ہے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نیب کے دائرے میں آرہے ہیں۔ سندھ میں تبدیلی کا عمل وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ممکنہ نا اہلی کی صورت میں ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے پاس اکثریت ہے۔ وہ کوئی متبادل نام لاسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں بظاہر شہباز شریف سربراہ ہیں لیکن عملاً حکمرانی نواز شریف اور مریم نواز کی ہے۔ جب تک قیادت کا معاملہ غیر واضح ہوگا مسلم لیگ کامیابی کا راستہ اختیار نہیں کرسکتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ اصل چیلنج اندرونی استحکام معیشت کی بحالی اور خارجہ محاذ کا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر سفارت کاری اور میڈیا کے ذریعے کشمیر کی اندرونی صورت حال سے دنیا کو آگاہ کرنا ہی وہ واحد حکمت عملی ہے جس سے اس مسئلے کے حل کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔ کشیدگی اور تصادم سے گریز کرنا ہوگا۔

خود کشمیر کے عوام اس مسئلے کو حل کریں گے پاکستان کو اس کی راہ ہموار کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان اندرونی استحکام کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، ادائیگیوں کا عدم توازن، زرمبادلہ کے ذخائرکا ضرورت سے کم ہونا، زرعی پیداوارکی خراب منصوبہ بندی، پولیس کا فرسودہ  نظام، موثر بلدیاتی اداروں سے محرومی، انصاف کے نظام کے نقائص، سڑکوں، ریلوے لائنوں کا پرانا نظام،  بجلی کی مناسب داموں پر عدم فراہمی، صحت عامہ کا  غیر موثر نظام، تعلیم کا عام نہ ہونا، ٹریفک کا بے ہنگم  نظام ایسے اہم ترین مسائل ہیں جس کو فوری  طور پر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

جدید طریقہ کار استعمال کرکے زرعی، صنعتی پیداوار بڑھانی ہوگی ، برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ تمام شعبوں میں بھرپور اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں۔ پاکستان کا اصل دفاع اس کا اندرونی استحکام ہے۔ موجودہ خلفشار پر قابو پانا پوری قوم کی ذمے داری ہے لیکن اس سمت میں کام  نظر نہیں آتا۔

وزیر اعظم عمران خان کو ان چیلنجز سے نمٹنے کی ایسی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی جس کے اثرات دیرپا ہوں۔ اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی کوئی ایسی راہ تلاش کرنی ہوگی جس میں محاذ آرائی نہ ہو بلکہ اہم قومی معاملات پر مفاہمانہ طرز عمل رہے فی الحال ایسی صورت نظر نہیں آتی۔ مولانا فضل الرحمن جب اپنا آزادی مارچ اسلام آباد کی طرف لے کر آئیں گے اس وقت حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ کوئی مارچ یا دھرنا انتخابی عمل کا متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔ آج مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ ہوگا۔ آیندہ دور میں کسی اورگروپ کا مارچ اور دھرنا ہوگا۔ یہ ایک انداز کا جلسہ وجلوس ہوسکتا ہے۔

اس سے زیادہ کچھ اور ہوگا تو اس کے منفی اثرات ہوں گے موجودہ حالات کچھ اور ہی تقاضا کرتے ہیں اور وہ ہر سطح پر فوری اور تیز رفتار اصلاحات ہیں۔ خود سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی اصلاح کرنی ہوگی چاہے وہ مقتدر سیاسی جماعت ہو یا اپوزیشن کی سیاسی جماعت ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔